اتوار 19 نومبر کو عمران خان اور مولانا سمیع الحق کی ملاقات میں آئندہ انتخابات کے لئے پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے درمیان ایک الحاق بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے علاوہ دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے چند افراد بھی شامل تھے۔ اعلامیے میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ''خیبر پختونخوا کی حکومت اسلامی نظام کے لئے صوبے میں اہم اقدامات کر رہی ہے۔ تحریک انصاف اور جے یو آئی (س) کے نظریات بہت قریب ہیں‘‘۔ کم از کم اتنا تو ہوا کہ مولانا کے ذریعے تحریک انصاف اور عمران خان کے''نظریات‘‘، جو کسی معمے سے کم نہ تھے، سے کسی حد تک دھند چھٹنا شروع ہوگئی ہے۔ اکوڑہ خٹک میں قائم مولانا سمیع الحق کا 'مدرسہ حقانیہ‘ ایک طویل عرصے سے تعلیم و تربیت کا کا م کرتا آیا ہے۔ یہاں سے تربیت حاصل کرنے والوں نے بڑے نام بنائے اور جہادیوں کے اہم لیڈر بنے۔ اب بھی افغانستان اور پاکستان کے جہادیوں میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ مولانا کے نظریات بہت واضح ہیں اور وہ پاکستان میں مکمل شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے ووٹروں نے ان کے نظریات کو پسند نہیں کیا اور انتخابی میدان میں وہ کوئی قابل ذکر ووٹ حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن ان کا سیاست و ریاست میں اثر و رسوخ بہت وسیع محسوس ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان نے 30 کروڑ روپے کا چند ہ مولانا کے مدرسے کو دیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ رقم 90 کروڑ تھی۔
انہی دنوں ''متحدہ مجلس عمل‘‘ کی تشکیل نو کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ لیکن اس 'معاہدے‘ سے محسوس ہو رہا ہے کہ ایم ایم اے میں زیادہ افادیت نظر نہ آنے پر پی ٹی آئی اور مولانا سمیع الحق کی پارٹی کا یہ جدید اتحاد بنوایا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دوسری اسلامی پارٹیاں کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام (ف) تو نواز شریف کے بہت قریب پائی جا رہی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان تو بے نظیر سے لے کر مشرف تک سب کے قریب تھے اور اکثر حکومتوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔ اسی دن مولانا فضل الرحمان نے بھی یہ بیان داغ دیا کہ'' ہمارے بغیر حکومتیں بنتی ہیں نہ چلتی ہیں‘‘۔
اِن دونوں مولانا حضرات کی جماعت میں بنیادی فرق اب بھی صرف (ف) اور (س) کا ہی ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تفریق بہت گہری بھی ہے۔ چونکہ دونوں کا سماجی اور سیاسی حلقہ تقریباً ایک ہی مسلک سے وابستہ ہے اور جب ایک میں پھوٹ پڑتی ہے تو مخالفت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ سب سے قریبی نظریات میں تضاد سب سے زیادہ بھی ہوتا ہے۔
پچھلے انتخابات کے بعد عمران خان نے جماعت اسلامی سے الحاق کیا اور کامیابی سے پختونخوا میں حکومت بنائی۔ جماعت اسلامی نے تعلیم جیسے نظریاتی شعبوں کا کنٹرول سنبھالا اور اپنی مخصوص سوچ کی بنیاد پرمخصوص نظریات کو سرکاری نصابوں میں بھرپور انداز میں ٹھونسا۔ اس مرتبہ مولانا سمیع الحق کے ساتھ اشتراک کرنے میں عمران خان کا کہیں یہ ارادہ تو نہیں کو جو کسر جماعت اسلامی نے چھوڑ دی ہے اسے بھی پورا کر دیا جائے؟ لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف میںجو بہت سے نام نہاد سیکولر اور لبرل عناصر اور لیڈر پائے جاتے ہیں اُن کا اس معاہدے کے بعد کیا ردعمل ہوگا۔ ویسے پہلے جماعت اسلامی کی اتحادی پارٹی بننے کا مطلب یہی تھا کہ وہ لبرل نظریات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کو شاید اس بات کی پروا ہی نہیں تھی کہ جس پارٹی میں وہ جا رہے ہیں اس کے اصل نظریات کیا ہیں۔ لبر ل اور سیکولر نظریات ایک بوسیدہ معاشی نظام کے بحران کی شدت میں بھاپ بن کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی لبرل ازم کی کوئی گہری جڑیں اور سائنسی بنیادیں نہیں ہوتیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے اب ایک زیادہ گہری سوچ کی حامل پارٹی سے الحاق کرلیا ہے تو کیا تحریک انصاف کی ''ماڈرن‘‘ سول سوسائٹی اس پر کوئی اعتراض کر پائے گی؟ تحریک انصاف کی مختصر سی تاریخ میں کم از کم جو ایک بات واضح ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ خان صاحب پر تنقید پارٹی سے غداری کے مترادف ہوتی ہے۔ یہ سیاسی اور تنظیمی امور میں پچھلے کئی فیصلوں اور تطہیروں کے عمل میں ہمارے سامنے ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے حامیوں اور لیڈروں کی ایک خاصیت تو واضح ہے کہ نظریات سے ان کو زیادہ غرض نہیں ہے۔ بس ایک 'جنون‘ ہے کہ عمران خان وزیراعظم بنیں اور تحریک انصاف اقتدار میں آ جائے۔ یہ تو اب خان صاحب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ تو عدلیہ نے کرنا ہے۔ اور یہ ادارہ خان صاحب کے جنم سے پہلے بھی ایسے ہی موجود تھا، جیسا اب ہے۔
پچھلے چند ہفتوں سے تحریک انصاف کے ''نظریاتی‘‘ ابہام کو ختم کرنے کے لئے‘ اس کا اہم ترین فریضہ 'فوج اور عدلیہ کا دفاع‘ بتایا جا رہا ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے شاید مولانا سمیع الحق سے الحاق زیادہ مناسب تھا۔ اس کی تاریخی اور مادی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اگر پچھلی چار دہائیوں کے سیاسی و ریاستی حالات، واقعات، لائحہ عمل اور طریقۂ واردات کا جائزہ لیں تو اس سے بہتر ان اداروں کے پاس شاید ہی کوئی متبادل ہو۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان مذہبی‘ سیاسی محافظوں کی ضرورت کیوں پیش آ گئی ہے۔ اور پھر خطرہ کس سے ہے؟ بیرونی جنگوں کا کوئی خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ موجودہ کیفیت میں داخلی سرکشیوں کے ہاتھوں ریاست کی شکست کے امکانات بہت مخدوش ہیں تو پھر خان صاحب کس'دشمن‘ سے بچانے کے درپے ہیں۔ کیا وہ نواز شریف کو اتنا بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں کہ وہ اداروں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ موجودہ کیفیت میں نواز شریف تو کوئی بڑا خطرہ لگتا نہیں، پھر محافظوں کی حفاظت کی ضرورت خان صاحب کو کیوں پیش آ گئی ہے۔ عوام میں اس طرح کے رجعتی اتحادوں کو مقبولیت بہرحال نہیں مل پائے گی۔ رائج الوقت نظام سے محنت کش عوام اتنا اکتا چکے ہیں کہ اس نظام کے محافظوں‘ خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، کو لمبے عرصے تک برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اسی نظامِ زر میں کبھی لبرل و سیکولر اور کبھی مذہبی اور فرقہ وارانہ روپ دھار کر حکمران طبقات کی سیاست‘ اپنے طبقے کے ظلم واستحصال کو جاری رکھنے والی حاکمیت کے اداروں کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے۔ ان کے تنازعات بے معنی ہیں اور یہ حقیقی سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے پروگرام سے عاری نورا کشتیاں ہیں۔ عوام خاموش ضرور ہیں لیکن اس جبر اور محرومی کی اذیت میں ان کی نفرتیں ایک بغاوت میں بدل سکتی ہیں۔ اس بغاوت کے پھٹ کر ایک انقلابی تحریک میں بدل جانے کا اصل خطرہ حکمرانوں کے ماہرین محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی ان شعبدہ بازیوں سے یہ خطرہ ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہاں کے کروڑوں مظلوم عوام سدا اس حاکمیت کے جبر تلے دبے تو نہیں رہ سکتے۔ اس معاشرے کی بقا کے لئے یہ بغاوت ناگزیر ہے۔
اسی نظامِ زر میں کبھی لبرل و سیکولر اور کبھی مذہبی اور فرقہ وارانہ روپ دھار کر حکمران طبقات کی سیاست‘ اپنے طبقے کے ظلم واستحصال کو جاری رکھنے والی حاکمیت کے اداروں کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے۔ ان کے تنازعات بے معنی ہیں اور یہ حقیقی سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے پروگرام سے عاری نورا کشتیاں ہیں۔ عوام خاموش ضرور ہیں لیکن اس جبر اور محرومی کی اذیت میں ان کی نفرتیں ایک بغاوت میں بدل سکتی ہیں۔