میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچوں سے معافی مانگوں‘ کیونکہ میں نے بطور باپ ان کے روشن مستقبل اور محفوظ زندگی کے لے وہ کام نہیں کیا جو میں با آسانی کرسکتا تھا۔ مجھ پر جھوٹی امید غالب آ گئی اور میں نے انہیں اپنی تمناؤں کے صحرا میں بھٹکنے کے چھوڑ دیا۔ میں نے اپنے نظریات کا اسیر ہو کر انہیں کینیڈا، برطانیہ یا امریکا منتقل کرنے کی بجائے اسی ملک میں جینے کا سلیقہ سکھانے کی کوشش کی جہاں میں اپنی آخری سانس لینا چاہتا ہوں۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے بچّو! میں نے تمہاری آنکھوں میں پاکستان کے بارے میں جو خواب اپنی چرب زبانی سے بھر دیے ہیں‘ وہ سب جھوٹے تھے۔ اگر یہ خواب جھوٹے نہ ہوتے تو گجرات اور سیالکوٹ کے بیس نوجوان کیوں یہاں سے مایوس ہو کر اَن دیکھے ملکوں کے اندھیرے راستوں میں بھٹک کر مرتے۔ اب وہ بڑے ہو رہے ہیں تو میں انہیں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں جمہوریت کے فیوض و برکات سکھانے کے لیے میں جو کچھ کہا تھا محض افسانہ تھا۔ جس جگہ کی تقدیس کے نغمے میں تمہیں سناتا رہا ہوں‘ وہ مفاد پرستوں کا ایسا اڈا ہے جہاں وہ اس ملک کے عوام کو الّو بنانے کے حیلے تراشتے ہیں۔ مزدوری کی عمر کو پہنچنے والے بیٹوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں نے تمہیں پیٹ کاٹ کر ٹیکس دینے اور بروقت سرکاری واجبات ادا کرنے کا جو سبق دیا، اسے اپنے دل و دماغ سے کھرچ ڈالو کیونکہ تمہارے خون پسینے کی کمائی سے چلنے والا یہ نظام اخلاقی طور پر اتنا گر چکا ہے کہ اسے چلنے میں مدد دینا بذات خود اخلاقی پستی کی دلیل ہے۔ میں اپنے پڑوسیوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا چاہتا ہوں جو کبھی پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہوتے ہیں تو میں جمہوریت، نظام، دستور، قانون پر تقریریں کرکے ان کے سامنے ملک کے حسین مستقبل کا نقشہ کھینچ دیتا ہوں۔ میں پاکستانیوں سے بھی معافی طلب کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے انہیں یقین دلایا کہ نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی سمیت سارے منتخب لوگ ان کی فلاح و بہبود اور حق حکمرانی کی حفاظت کے لیے سب کچھ کر گزریں گے بس ذرا اس نظام کو چلنے کی مہلت دے دو۔ میں یہ سب کہنا چاہتا ہوں مگر نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں جس ادارے کی بالا دستی کی تبلیغ کرتا رہا ہوں آج اس کے بارے میں کہوں کہ یہ مفاد پرست امیروں کا ایسا ٹولا ہے جو صرف اپنا اور اپنے بچوں کا مفاد دیکھتا ہے میرا اور میرے بچوں کا مفاد ان کی ترجیحات میں سر ے سے شامل ہی نہیں۔
جمہوریت کا دفاع کرنے والے ہر شخص کی طرح مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کے جید ارکان نے دو سال لگا کر الیکشن قوانین میں اصلاحات بھی کیں تو ایسی کہ الیکشن لڑنے والے کے لیے حرام خوری، ناجائز اثاثے، ٹیکس چوری اور بے نامی جرائم نہ رہیں بلکہ وہ انہیں فنونِِ لطیفہ کے زور پر الیکشن میں کامیاب ہو کر ہمارے سینوں پر پانچ سال یا زندگی بھر کے لیے مونگ دلتا رہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے جو کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے ہیں‘ ان میں پچھلے تین سال میں ادا کیے جانے والے ٹیکسوں کی تفصیلات دینے کا تکلف ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ تصور کیجیے کہ وہ پارلیمنٹ جس نے منتخب ہو کر پوری قوم سے ٹیکس وصول کرنا ہے‘ اس میں موجود ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ سے ان کے ٹیکسوں کا حساب نہ پوچھا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی پارلیمنٹ میں پہنچانے کا راستہ ہموار کر لیا جائے جو ٹیکس دینا تو دور کی بات ریٹرن فائل کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس شرط کے ساتھ ساتھ دوہری شہریت رکھنے والوں کے لیے بھی آسانی پیدا کی گئی ہے کہ وہ الیکشن لڑ تے ہوئے اپنی غیر پاکستانی شہریت کا ذکر نہ کریں جو پہلے ضروری تھا۔ ظاہر ہے دہری (دوغلی) شہریت والا تو ٹیکس کسی دوسرے ملک میں دیتا ہو گا اس لیے کاغذاتِ نامزدگی میں ٹیکس کا ذکر ختم کر دینے کا فائدہ تمام سیاسی پارٹیوں کے بیرونِ ملک بیٹھے سپانسرز کو بھی ہو گا جو الیکشن جیت گئے تو اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرکے ہم پر حکومت کریں گے ورنہ واپس جا کر ملک و قوم کا غم کھایا کریں گے۔
دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی میں ضروری تھا کہ امیدوار اپنے موجودہ اثاثوں اور ان کی موجودہ مالیت کی تفصیلات دے۔ مثلاً عمران خان کی بنی گالہ والی رہائش گاہ ممکن ہے کسی وقت میں پانچ سات کروڑ کی ہو‘ لیکن اس کی آج کی قیمت ایک ارب روپے سے زائد ہو تو کاغذات نامزدگی میں اس کی آج کی مالیت کا تخمینہ ہی درج ہو گا۔ اسی طرح نواز شریف کی رائے ونڈ والی رہائش گاہ ہو سکتا ہے بہت سستی ہو‘ لیکن آج اس کی قیمت اربوں روپے میں ہے تو یہی مالیت اثاثوں میں شمار ہو گی۔ موجودہ مالیت کی شرط بھی نئے کاغذاتِ نامزدگی سے متفقہ طور پر ختم کر دی گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ اس شرط کی موجودگی میں ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ کو حرام کی کمائی چھپانے میں دقت ہوتی تھی‘ کیونکہ جب زمین کی مارکیٹ ویلیو لکھ دی جائے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ زمین آپ نے کب خریدی اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔ نئے کاغذات میں ہمارے رہبروں کے لیے سہولت دی گئی ہے کہ وہ صرف زمین کی قیمت خرید درج کر دیں۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی معزز رکنِ اسمبلی اگر عوامی پیسے پر ہاتھ صاف کر لے تو دست بدست اس سے خریدی گئی زمین کو چند لاکھ کا ظاہر کر دے‘ پھر یہی زمین مارکیٹ ویلیو کے مطابق بیچ کر اپنے حرام کے پیسے کو باآسانی قانونی طور پر حلال کر لے۔ زمین کی موجودہ مالیت ظاہر نہ کرنے کا سیاسی فائدہ یہ بھی ہو گا کہ نواز شریف، عمران خان اور آصف علی زرداری‘ جو اس وقت اپنے ظاہر کردہ اثاثوں کی بنیاد پر ارب پتی ہیں‘ قیمت خرید پر جب اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں گے تو یکایک چند لاکھ یا چند کروڑ کے مالک نظر آنے لگیں گے۔ اس طرح قوم کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو جائے گا کہ ان کے لیڈر انہی کی طرح محدود وسائل کے لوگ ہیں۔ گویا امیروں کے امیر لوگ جب پارلیمنٹ میں پہنچیں گے تو اپنے کاغذاتِ نامزدگی کی روشنی میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے معلوم ہوں گے۔
پاناما پیپرز کے معاملے کے بعد توقع تھی کہ الیکشن میں کاغذات نامزدگی میں سیاستدان اپنے اثاثوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات دیں گے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ آئندہ الیکشن میں جب آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے‘ تو ملک میں شفاف حکمرانی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہو گا‘ مگر ہوا یہ کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تحریکِ انصاف کے ساتھ مل ملا کر قانون میں ایسی تبدیلیاں کر دیں کہ اگر مشہور و معروف سرے محل کو ''بیرونِ ملک ایک پرانے مکان‘‘ کے طور پر ظاہرکر دیا جائے تو کافی ہے، کسی کو لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ ظاہر کرنا پڑیں اور وہ ان کی انیس سو بانوے کی قیمت لکھ دے تو قانون کا منہ بند ہو جائے گا۔ یہ گمان بھی تھا کہ ارسلان افتخار اور نواز شریف کے بچوں کی جائیداد کے معاملات سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بالغ بچوں کے کاروبار یا جائیداد کی کچھ تفصیلات کا اظہار لازمی قرار پائے گا‘ لیکن اس اسمبلی نے شفافیت کی ہر توقع پر پانی پھیر دیا۔ اور تو اور یہ بھی طے کر لیا کہ آئندہ کاغذات نامزدگی میں جو بھی معلومات دی جائیں گی‘ اگر غلط بھی نکل آئیں توکسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہو سکے۔ شاید یہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو کہ قانون کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنے والوں میں مسلم لیگ ن کے اسحٰق ڈار، زاہد حامد، انوشہ رحمٰن، رفیق رجوانہ‘ تحریک انصاف کی شیریں مزاری، ڈاکٹر عارف علوی، شفقت محمود اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، نوید قمر، رضا ربانی اور فاروق نائیک شامل تھے۔ نجانے الیکشن قوانین میں اس طرح کی تبدیلیوں کے وقت شرم و حیا کہاں تھیں؟