میری شاعری بارے جو کھٹی میٹھی تحریریں اِدھر اُدھر چھپتی رہتی ہیں‘ ان کا ایک مقصد یہ بھی ہوا ہے کہ میں ان کا جواب بھی دوں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ میرے جواب کی توقع نہ رکھی جائے کیونکہ جو کچھ یہ حضرات لکھتے ہیں‘ اُن کا حق ہے۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ قطعات میں ظفر اقبال نے جو وزن کی غلطیاں کی ہیں‘ وہ اس پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ چشم ماروشن‘ دلِ ماشاد‘ وہ ضرور لکھیں۔ ادب کی خدمت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اِدھر صورتِ حال یہ ہے کہ آج اور کل میرے کالم کے آخر میں جو شعر چھپے ہیں‘ دونوں میں غلطی موجود ہے۔ اصل شعر اس طرح سے تھے۔
اُمید وصل کو‘ ظفرؔ اتنا غلط نہ جان
اس جھوٹ سے ہی سوچ میں سچائی آئے گی
......
بظاہر تو‘ ظفرؔ‘ یہ گھاس میری کچھ نہیں لگتی
مگر یہ‘ اور سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے
شعر یا قطعہ غلط چھپتا تو پہلے میں دوسرے دن درستی لگوا دیا کرتا تھا لیکن میں اب کچھ عرصے سے یہ مناسب نہیں سمجھتا ۔ نیز اکثر اوقات قارئین ایسی غلطی بھانپ لیتے ہیں اور خود ہی درستی بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں غلطی نہیں کر سکتا‘ کیا میں بندہ بشر نہیں ہوں؟
علاوہ ازیں ماہنامہ ''الحمرا‘‘ میں جناب ستیہ پال آنند نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے غزل کی مخالفت میں پورا مضمون لکھ مارا ہے جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی خشک اور تقریباً ناقابل مطالعہ تھا‘ اور اس کا جواب خود صاحب موصوف کے پاس موجود ہے جو غزل کی مخالفت کے ساتھ ساتھ دھڑا دھڑ غزلیں بھی لکھتے چلے جا رہے ہیں‘ سو میرے جواب کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ غزل اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور اُسے میری بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ محبت کی شاعری ہے اور جب تک محبت کی جاتی رہے گی غزل بھی کہی اور پڑھی جاتی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی آنجناب نے اپنی تین نظمیں بھی مجھ سے منسوب کر کے چھپوائی ہیں جس کے لیے میں اُن کی قدر افزائی پر ممنون ہوں۔ یہ تینوں نظمیں نہ صرف عمدہ ہیں اور ایک خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ تینوں میں‘ ماسوائے ایک کے‘ وزن کی غلطی بھی موجود نہیں ہے جو کہ اس مصرع میں ہے ع
اور اُڑنے کی سعی میں
عرض یہ ہے کہ نفی اور سعی شمع کے وزن پر بندھتے ہیں شمیض کے وزن پر نہیں۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ نظمیں اس لیے عمدہ ہیں کہ میرے نام سے منسوب ہیں‘ تاہم یہ ہو بھی سکتا ہے‘ اس لیے تجربے کے طور پر آئندہ بھی ایسا کر کے آزما سکتے ہیں بلکہ غزلیں بھی اسی مناسبت سے شائع کروائیں تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ہاں‘ یاد آیا‘ غالبؔ نے نفی کو اس طرح باندھا ہے ع
نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا
یہ بھی سن لیں کہ اگر ہمارے دوست جمیل یوسف بھی عمدہ غزلیں کہنے لگ گئے ہیں تو غزل کے مستقبل کی تابناکی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ اسی پرچے میں شائع ہونے والی ان کی غزل کے اشعار دیکھیے ؎
ہر طرف تیری ہی طرف جاتا
میں بھلا کون سی طرف جاتا
تجھ سے بچنے کی ایک صورت تھی
کہ میں سیدھا تری طرف جاتا
روک سکتا تھا کون مجھ کو جمیل
کچھ بھی ہوتا اسی طرف جاتا
بلکہ ''الحمرا‘‘ کے اسی شمارے میں بھارتی شاعر پرتپال سنگھ بیتاب کے یہ شعر دیکھیے ؎
نظر اُس پار ہے‘ اِس پار نہیں ہے صاحب
یہ جو دیوار ہے دیوار نہیں ہے صاحب
ایک گرتا ہے تو ایک آگے نکل جاتا ہے
قابلیت کوئی درکار نہیں ہے صاحب
کشتیاں پار لگانے کو کھڑی ہیں بیتاب
اور کوئی جانے کو تیار نہیں ہے صاحب
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کے تین شعر ؎
جلانے والے نے ایسے مجھے جلایا ہے
بُجھانے والے کی آنکھوں میں جلنے لگتا ہوں
......
اور ثبوت بنائے جا سکتے ہیں
فیصلہ اور کرایا جا سکتا ہے
یہ ری پورٹ دبائی جا سکتی ہے
وُہ ریکارڈ جلایا جا سکتا ہے
آج کا مطلع
پہلے تو اس جگہ کبھی ایسا نہیں ہوا
جو کچھ ہوا ہے شہر میں‘ اچھا نہیں ہوا