دُنیا بھر میں ہر سال آج کے دن یعنی 8 مارچ کو خواتین کا دِن منایا جاتا ہے۔ ہر سال جب خواتین کا عالمی دن آتا ہے تو مرزا تنقید بیگ تھوڑے سے مشتعل ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ میڈیا پر خواتین کی مظلومیت کا راگ اِتنا الاپا گیا ہے کہ اب مرزا اِس حوالے سے ہر وقت ’’بھنّوٹ‘‘ سے رہتے ہیں۔ بات کچھ یُوں ہے کہ بھابی کے ہاتھوں وہ خود اچھے خاصے بلکہ کنفرمڈ مظلوم ہیں مگر کوئی اُنہیں اِنصاف دلانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ کرے بھی کیسے؟ بھابی کا تعلق قصّاب برادری سے ہے۔ مرزا کہتے ہیں: ’’جو باتیں ہم شاید کبھی سمجھ نہ پائیں اُن میں خواتین کا عالمی دن بھی شامل ہے۔ کون سا دِن ہے جو خواتین کا نہیں؟ سال کے 365 دِنوں میں کون سا پَل ہے جس پر خواتین کی حُکمرانی نہیں؟ کب خواتین اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوتیں اور کب بے چارے مرد کوئی ایک دِن بھی اپنی مرضی سے گزار پاتے ہیں؟‘‘ کل شام مرزا بہت بہت غُصّے میں تھے۔ ہم نے کہا: اگر چند تقریبات خواتین کے نام پر اور اُن کے اعزاز میں منعقد کر لی جائیں تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ شُغل میلے میں کچھ وقت اچھا کٹ جاتا ہے۔ بس اِتنا سُننا تھا کہ مرزا تقریباً اُسی طرح پھٹ پڑے جس طرح دہشت گردوں کے ہاتھ میں دستی بم پھٹ جاتا ہے۔ بولے: ’’تم جیسے مَردوں ہی نے یہ کھڑاگ کھڑا کیا ہے۔ الگ سے تقریبات کی ضرورت کیا ہے؟ کون سی تقریب ہے جو خالصاً خواتین کے لیے نہیں ہوتی؟ کبھی لفظ ’تقریب‘ کی ترکیب پر غور کیا ہے؟ تقریب کا مطلب ہے قریب آنے کا موقع یا اہتمام اور خواتین کِس اہتمام سے ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں۔ تقریب ختم ہو جاتی ہے مگر یہ ایک دوسرے سے دُور ہونے کو تیار نہیں ہوتیں۔ کئی بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ چلو، ہال میں تالا بھی لگانا ہے‘‘۔ ہم نے دیوار سے سَر پھوڑنے یعنی مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اور بپھر گئے۔ کہنے لگے: ’’شادی کی کِسی تقریب میں اپنے ہم منصب یعنی شادی شدہ مَردوں کو غور سے دیکھا ہے؟ وہ بے چارے بھی تمہاری طرح مُنہ لٹکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ چکن بریانی، مٹن قورمہ، یخنی پُلاؤ … کوئی بھی ڈِش مزا نہیں دیتی۔ دے بھی کیسے؟ ذہن میں بس یہی چل رہا ہوتا ہے کہ واپسی پر ٹیکسی کے کرائے کی مَد میں تین سو روپے دینے کے بعد اگلے تین دن تک ناشتے میں انڈوں کا اہتمام کِس طرح ہو گا۔ خواتین تمام بچوں کو شوہر کے مَتّھے مار کر رشتہ داروں اور سہیلیوں کے ساتھ پُرلطف لمحات کو گلے لگا لیتی ہیں۔ تقریب خوشی کی ہو یا غم کی، خواتین کے لیے مِل بیٹھنے کا بہانہ ہوتی ہے اور جہاں چار یار … یعنی چار سہیلیاں مِل جائیں وہاں کیسا غم، کیسی افسردگی؟ یہ جھمیلے پالنے کے لیے مَرد ہیں تو سہی اور پھر تم جیسے مَرد‘ سُبحان اللہ یعنی خواتین کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں‘‘۔ مرزا کا خیال ہے کہ ٹی وی چینلز کی پلاننگ شاید نفسیات کے ماہرین سے کرائی جاتی ہے۔ چینل خواتین پر مظالم کی ایسی داستانیں سُناتے اور ڈراموں کے ذریعے خواتین کی مظلومیت کچھ اِس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ گھر کے مَرد بے چارے سَہمے سَہمے رہتے ہیں۔ مِنی سکرین پر مَرد کا ظالم و جابر روپ دیکھنے کے بعد خواتین جب اپنے گھر میں مَردوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتی ہیں تو وہ غریب خود کو ’’زندہ در حوالات‘‘ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ویسے تو چینلز سے مرزا کو کئی شکایات ہیں۔ مثلاً یہ کہ بولنے کے نام پر چیخنے اور دہاڑنے کا فن انہی کے ذریعے پاکستانیوں میں منتقل ہوا ہے اور یہ کہ جیب میں پُھوٹی کوڑی بھی نہ رکھنے والے اربوں روپے کی کرپشن پر سَیر حاصل گفتگو کرنے کو بے تاب رہتے ہیں‘ مگر نمایاں شِکوہ یہ ہے کہ پاکستانی چینلز نے اچھی خاصی خواتین کو دانشور اور اِنسانی حقوق کی چیمپین جبکہ انڈین چینلز نے اُنہیں ’’بزنس جینیس‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کے موضوعات نے گھر کی چاردیواری میں زندگی بسر کرنے والی عام خواتین کے دِماغ ’’اپنے حقوق کے لیے کچھ کرنا ہو گا‘‘ کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیئے ہیں۔ وہ خود کو حقوق نسواں کی تحریک کی روح رواں سمجھنے لگی ہیں۔ مِنی سکرین پر اپنے حقوق کے لیے لڑنے اور مَردوں کو للکارنے والی خواتین کو دیکھ کر گھریلو خواتین کے ذہن بَھڑک اُٹھتے ہیں۔ کام سے واپسی کے بعد مَرد گھر میں داخل ہوتے ہیں تو خواتین کے تیور دیکھ کر کونے میں دُبک جاتے ہیں اور چائے پانی کی فرمائش سے بھی گریز کرتے ہیں۔ حقوقِ نسواں کی علم برداروں نے خالص مَردانہ انداز اختیار کرتے ہوئے خواتینِ خانہ پر ایسا منتر پُھونکا ہے کہ اُن کے لہجوں میں پُھنکار سی در آئی ہے۔ وہ مَردوں سے کچھ منگواتی بھی ہیں تو انداز سے حکم کے ساتھ ساتھ انتباہ بھی جھلکتا ہے، گویا نہ لائے یا اوٹ پٹانگ اُٹھا لائے تو کیس کر دیں گی۔ مرزا کا استدلال ہے کہ ازل ہی سے مَرد بے چارے خواتین کے نخروں کی چَکّی میں پستے رہے ہیں مگر اُن کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی توفیق آج تک کِسی کو نہ ہوئی۔ وہ کہتے ہیں: ’’مَرد کا حال یہ ہے کہ گھریلو ستم سے محفوظ رہنے کے لیے شادی نہ کرے تو ماں، بہن، بھابی سبھی دباؤ ڈال کر زبردستی شادی کراتی ہیں اور اگر شادی کے بعد بھی مَرد اپنی مرضی سے جیے تو گھر کے تمام افراد طعنہ دیتے ہیں کہ ہم نے گھر بسا دیا مگر تمہی کو نباہ کرنا نہ آیا۔ اب مرد بے چارا لاکھ کہے کہ اُس نے کب کہا تھا کہ گھر بساؤ مگر اُس کی سُنتا کون ہے‘‘۔ مرزا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ مَرد کو کبھی چڑیا گھر نہیں جانا چاہیے کیونکہ جنگل کے سارے جانور اُس میں آ بسے ہیں۔ مرزا، یقینی طور پر اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں، بیان فرماتے ہیں: ’’اِنسان یعنی اشرف المخلوق کی حیثیت سے دُنیا میں آنے والے شوہر زندگی بھر گدھے کی طرح کرتے ہیں، کام سے واپسی پر تاخیر کی صورت میں جو بچا کُھچا مل جائے وہ بخوشی چَر لیتے ہیں، دفتر میں ماتحت کے سامنے شیر اور گھر میں بیوی کے سامنے بھیگی بلّی بنے رہتے ہیں، بچوں کی سواری کے لیے گھوڑے بنتے ہیں، شادی بیاہ اور تہوار کے موقع پر قُربانی کے بکرے کا کردار ادا کرتے ہیں، گھر والوں کو زیادہ سے زیادہ آسودگی فراہم کرنے کے لیے لومڑی کی سی چالاکی اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں، کام کی تلاش میں پرندوں کی طرح ڈال ڈال گھومتے اور ڈیرے ڈالتے ہیں، بیوی اور بچوں کے لیے مختلف تجربات کی نذر ہوتے ہوتے نفسیاتی طور پر چوہے ہو جاتے ہیں! اِتنا کچھ سہنے کے بعد بھی مَرد ظالم اور خواتین مظلوم‘‘۔ شادی شدہ ہونے کے ناتے ہم، اپنی بھلائی کے لیے، اپنے دِل میں کم از کم ایک خاتون کے لیے نرم گوشہ رکھنے پر مجبور ہیں مگر جب مرزا سامنے ہوں تو خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved