تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     23-11-2017

مذہب کا خوف

مذہب کے ساتھ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ اسے اخلاق اور تزکیے سے الگ کر دیا گیا۔ اب وہ عصبیت ہے یا محض جذبات۔
چاہیے تو یہ تھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں، مذہب کا نام لینے والے اخلاق میں بھی برتر ہوتے۔ ان کا کردار اعلیٰ اخلاقی روایات کا نمونہ ہوتا۔ رذائل سے اگر وہ مکمل پاک نہ ہوتے تو دوسروں سے بہتر ضرور ہوتے۔ ان کے وضو کے پانی سے، فرشتے وضو نہ بھی کرتے، مگر ان کا وجود زبان حال سے آواز لگاتا کہ وہ مذہبی آدمی ہیں‘ جن سے صرف خیر صادر ہو سکتا ہے۔ ان کے ساتھ معاملہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی بات کا اعتبار بھی۔
سب سے زیادہ ذمہ داری سیاست، علم اور صحافت میں کارفرما لوگوں کی تھی کہ ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ انہیں راہنما مانا جاتا ہے۔ ان کی تقلید کی جاتی ہے۔ لوگ ان پر اعتبار کرتے ہوئے رائے بناتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں، عوام محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ لوگ ان کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ لکھا۔ آج زبان پر قابو ہے نہ قلم پر۔ اخلاق اہلِ مذہب سے شکوہ کر رہا ہے۔
حسنِ ظن مسلم معاشرت کی بنیادی قدر ہے۔ مذہب انسانوں میں ایک مثبت اندازِ نظر پیدا کرتا ہے۔ سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا کہ دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت کس احتیاط کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ اسی ہدایت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ چند روز پہلے ایک محترم مذہبی دوست نے ایک تصویر بھیجی۔ خواجہ آصف غالباً امریکہ میں، کسی تقریب میں شریک ہیں اور ایک فرد ان سے محوِ گفتگو ہے جس کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ وہاں کے قادیانی جماعت کا راہنما ہے۔ تصویر بھیجنے والے نے ساتھ تبصرہ کیا: ''انتخابی قوانین میں قادیانیوں کے بارے میں تبدیلی ایک معصومانہ خطا نہیں، ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد آئین کی متعلقہ دفعات کا خاتمہ ہے‘‘۔
سوئے ظن کے بغیر یہ دور کی کوڑی نہیں لائی جا سکتی۔ تبدیلی کا سارا عمل، جو بھی ہوا، سب کے سامنے ہے۔ اس میں اگر کوئی خطا ہے تو سب جماعتیں شریک ہیں۔ کیا سب اس سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں؟ اگر یہ کوئی منصوبہ ہے تو صرف حکومت ہی خطا کار کیوں؟ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ وزیر خارجہ کی ایک قادیانی سے کسی تقریب میں ملاقات کوئی سازش ہے؟ کیا اب بات کرنے سے پہلے یہ پوچھنا پڑے گا کہ مخاطب کا تعلق کس مذہب سے ہے؟ کیا یہ پیغام پھیلانے والے نے سوچا کہ وہ مسلمانوں کی منتخب حکومت کے بارے میں کس بات کا چرچا کر رہا ہے؟ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ یہ پیغام واٹس ایپ کے ذریعے ایک گروپ میں بھیجا گیا۔
چند دن پہلے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کا ایک اجلاس ہوا۔ یہ انسانی حقوق سے متعلق تھا۔ ان اجلاسوں میں، مختلف ممالک میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹس اور خلاف ورزیوں کی شکایات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کے بارے میں ایسی کوئی شکایت ہو تو اس کا نمائندہ یہاں جواب دہ ہوتا ہے۔ یہ رپورٹس پہلے بھجوا دی جاتی ہیں تاکہ حکومتوں کے نمائندے تیاری کے ساتھ آئیں۔ ان اجلاسوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔
ہمارے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک اور وزیر نے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔ ان کی دین داری ایک مانی ہوئی حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے بعد جب شرکا ایک دوسرے سے ملے تو کچھ پاکستانیوں نے ان سے ہاتھ ملایا‘ جو انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ تھے۔ لوگ تصویریں بھی لے رہے تھے۔ بعد میں، انہیں کسی سے معلوم ہوا کہ ان میں ایک قادیانی بھی تھا۔ وزیر صاحب اب اس خوف میں مبتلا تھے کہ یہ تصویر اگر شائع ہوئی تو انہیں بھی کہیں کسی سازش کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
آج یہ کسی فردِ واحد کا خوف نہیں ہے۔ ہر دوسرا آدمی اس میں مبتلا ہے۔ کیا معلوم آپ کے بارے میں کیا مشہور کر دیا جائے؟ ان دنوں زیڈ اے فاروقی نام کے ایک مرحوم بیوروکریٹ کا ذکر ہوتا ہے۔ لکھا اور کہا گیا کہ اس طرز کی سب سے پہلے ترمیم انہوں نے پیش کی‘ اور وہ قادیانی تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کا قادیانیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا خاندان تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے۔ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے داماد تھے۔ 
میں آئے دن مذہبی لوگوں کو سنتا اور پڑھتا ہوں۔ میں شواہد پیش کر سکتا ہوں کہ لوگ کس طرح بے پر کی اڑاتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں ایسی ایسی باتوں کی تشہیر کرتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ محض سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔ بغیر تحقیق اور مطالعہ کے، فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے۔ فتوے کے لیے اب مفتی یا دین کا عالم ہونا ضروری نہیں رہا۔ اگر آپ کے منہ میں زبان اور ہاتھ میں قلم ہے تو آپ فتویٰ دینے کے مجاز ہیں۔
یہ بے احتیاطی ایک ایسے ماحو ل میں ہو رہی ہے جس میں مذہب کو صرف جذبات اور عصبیت کا معاملہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی باتوں کے پھیلانے کا نتیجہ اس کی جان و مال کو خطرات میں ڈالنا ہے۔ جس معاشرے میں قیادت کے منصب پر بیٹھے لوگ بات کہنے اور لکھنے سے پہلے تحقیق کو لازم نہیں سمجھتے، وہاں ایک عام آدمی سے کیسے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ کسی اقدام سے پہلے تحقیق کرے گا۔ جہاں مذہبی معاملے میں، مذہب کی تعلیمات کے برخلاف، قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو ہیرو بنایا جاتا ہو، وہاں ہیرو بننے کے شوق میں کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے۔
یہ بد احتیاطی سماج کا ہر طبقہ کرتا ہے‘ لیکن مذہبی لوگوں کا معاملہ دو پہلو سے اہم تر ہے۔ ایک یہ کہ مذہب نام ہی اخلاقی تطہیر کا ہے۔ اگر اہلِ مذہب اس سے بے نیاز ہوں گے تو مذہب اپنا جوہر کھو دے گا۔ دوسرا یہ کہ مذہب ایک جذباتی معاملہ بنا دیا گیا‘ جس سے لوگوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ یہ نتائج صرف اہلِ مذہب ہی کی بے احتیاطی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں، اس لیے ان کی ذمہ داری دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا کہ حکومت دو ہزار افراد کے خوف سے سہمی ہوئی اور بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں مذہب خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے مذہب اخلاق اور تزکیے سے جدا ہو کر صرف جذبات اور عصبیت بن رہا ہے، یہ خوف بڑھ رہا ہے۔ آج میں کسی سے مذہبی معاملے میں بات کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ نہیں معلوم کل وہ اسے اپنی کس تعبیر کی ساتھ پیش کر دے۔ میں ان معاملات پر لکھ نہیں سکتا کہ میری تحریر سے کوئی ایسا مطلب نکال اور پھر اس کی تشہیر کر سکتا ہے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
خوف کی حالت غیر فطری ہوتی ہے۔ یہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی۔ خوف حد سے بڑھ جائے تو انسان کو بے خوف بنا دیتا ہے۔ مذہب اگر اسی طرح خوف کی علامت بنا رہا تو معاشرہ ردِ عمل کا اظہار کرے گا۔ انسانی نفسیات اور تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذہب جب خوف بن جائے تو لوگ اس سے اجتماعی طور پر اعلانِ برات کر دیتے ہیں۔ یورپ میں یہ ہو چکا۔ وہاں بغاوت مذہب کے خلاف نہیں، اہلِ مذہب کے خلاف تھی‘ جسے مذہب مخالفت میں بدل دیا گیا۔
پاکستان میں اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری اہلِ مذہب پر ہو گی‘ جنہوں نے مذہب کو خوف کی علامت بنا دیا ہے۔ جس تیزی سے یہ عمل جاری ہے، ردِعمل بھی اسی تیزی سے ہو گا۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ مذہب کو خوف نہیں، امن اور رحمت کی علامت بنا دیا جائے۔ یہ اسی وقت ہو گا جب سماج اسلامی اخلاقیات کا نمونہ بنے گا۔ اس کا آغاز حسنِ ظن سے ہو گا۔ پہل سیاست، سماج اور صحافت کے میدان میں متحرک مذہب کے نمائندوں کو کرنا ہو گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved