تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     23-11-2017

کنٹرول لائن پر بگڑتی ہوئی صورتحال

پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر رابطہ قائم کرکے خبردار کیا ہے کہ اگر کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت کی افواج کی طرف سے خلاف ورزیوں‘ اور بھاری اور دور مار ہتھیاروں کے ذریعے سرحدی علاقوں میں رہنے والے معصوم پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پاکستان اس کا ایسا جواب دے گا‘ جسے بھارت کے لئے سہنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کے آرمی آفیسر نے یہ بھی کہا کہ بھارتی افواج کا یہ فعل پیشہ ورانہ اصولوں کے خلاف اور غیر اخلاقی ہے‘ کیونکہ غیر مسلح اور معصوم شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی کسی بھی وار مینوئل میں اجازت نہیں۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی فوجوں کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ گزشتہ تقریباً چھ برس سے جاری ہے‘ لیکن جب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے‘ اس کی شدت میں نمایاں اور خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے ان جھڑپوں میں چھوٹے ہتھیار استعمال ہوتے تھے‘ واقعات بھی اکا دکا ہوتے تھے‘ لیکن گزشتہ دو تین برس کے دوران میں مارٹر‘ بلکہ دور مار توپوں کا استعمال بھی ہونے لگا ہے۔ اس فائرنگ سے نقصان دونوں طرف ہو رہا ہے اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے ساتھ ساتھ اس طرف اور اُس طرف شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے؛ تاہم بھارت کی طرف سے پاکستانی علاقوں پر فائرنگ کا قابل مذمت پہلو یہ ہے کہ اس میں ضرورت سے زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف پاکستانی چوکیوں بلکہ دیہات میں لوگوں کے گھروں‘ سکولوں اور ڈسپنسریوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی افواج کی ان کارروائیوں کی وجہ سے پاکستانی سرحد کی طرف جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈی جی ایم او نے اسی صورتحال کے پیش نظر اپنے بھارتی ہم منصب کو پاکستان کی طرف سے سخت رد عمل کی وراننگ دی ہے۔ بھارت کی سرحدی افواج کی طرف سے اس بڑھتی ہوئی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پاکستان کی جانب سے وارننگ غماز ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور جنوب ایشیائی خطے کے امن کیلئے یہ صورتحال انتہائی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے‘ کیونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں فریقین کے درمیان کسی بڑے تصادم کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے‘ جو بڑھ کر جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے امن پسند حلقوں اور بین الاقوامی برادری کو اس وجہ سے تشویش لاحق ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ جو گزشتہ 70 برسوں میں پہلے ہی تین جنگیں لڑ چکے ہیں‘ ایک دفعہ پھر تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور اس دفعہ یہ تصادم سابقہ جنگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے دنیا کے تمام ممالک‘ جن میں امریکہ‘ روس‘ چین اور یورپی یونین جیسی بڑی طاقتیں بھی موجود ہیں‘ پاکستان اور بھارت پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ گزشتہ ڈھائی برسوں سے معطل دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں اور آپس کے تمام دیرینہ تنازعات‘ جن میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے‘ کو پرامن طریقے اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان نے متعدد پالیسی بیانات کے ذریعے اس پر آمادگی کا اظہار کیا‘ لیکن بھارت نے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف اپنایا ہوا ہے‘ اور بات چیت کی طرف آنے کی بجائے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے اس پار سے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کرکے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے۔ بھارت کا یہ فعل واضح طور پر اس کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے‘ کیونکہ پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے پار جب بھی بھارتی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘ تو یہ کام وہ اپنے دفاع کیلئے جوابی کارروائی کے طور پر کرتا ہے۔ اگر ہم بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں اور فائرنگ کی شدت کا بنظر غائر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کشمیر میں نوجوان حریت پسند برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد اس میں نمایاں تیزی آئی ہے اور اس کی صاف طور پر وجہ یہ ہے کہ اس بہیمانہ کارروائی کے بعد کشمیر میں عوامی احتجاج میں اضافہ ہوا‘ اور بھارت تمام تر کوششوں کے باوجود اسے دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس احتجاج میں کشمیریوں کی شرکت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً نوجوان اور پڑھے لکھے افراد اس جدوجہد میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کشمیر میں بھارتی سکیورٹی افواج اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر روز جلسے‘ جلوس اور احتجاج معمول بن چکے ہیں‘ کیونکہ بھارتی افواج کشمیریوں کے جذبہء حریت کو کچلنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی صورتحال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارت لائن آف کنٹرول پر سے پاکستانی علاقوں کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے اور اسی کے پیش نظر پاکستان کی طرف سے بھارت کو وارننگ دی گئی ہے۔
لائن آف کنٹرول‘ جس کی لمبائی تقریباً 740 کلومیٹر ہے‘ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان متواتر فائرنگ اور گولہ باری اس لحاظ سے اور بھی قابلِ افسوس ہے کہ نومبر 2003ء میں دونوں ملکوں نے اسے پرامن رکھنے کے لئے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے بعد کئی برسوں تک لائن آف کنٹرول کے آر پار سے فائرنگ کا سلسلہ بند رہا۔ 2004ء میں جب پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ مذاکرات کے سلسلے پر مشتمل باہمی امن بحال کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تو لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی میں اور بھی استحکام آیا اور بجا طور پر اسے دونوں ملکوں میں اعتماد سازی کے اقدامات میں سب سے زیادہ کامیاب مثال قرار دیا گیا تھا۔ اس جنگ بندی کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف زندگی کی رونقیں بحال واپس آ گئیں۔ 2003ء سے قبل سرحدی علاقوں کے دیہات سے جو لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے‘ وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ بے آباد زمینوں میں فصلیں لہلہانے لگیں‘ بچے سکول جانے لگے اور کاروبار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ دونوں طرف بعض سرحدی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لئے ضروری انفراسٹرکچر بھی تعمیر ہونے لگا‘ لیکن 2011ء کے آخر اور 2012ء کے اوائل میں دونوں طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں اور فائرنگ کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ اس کا سارا ملبہ بے چارے ان لوگوں پر گر رہا ہے‘ جو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیری ہیں‘ اس لئے فائرنگ خواہ مقبوضہ کشمیر کی طرف سے ہو یا آزاد کشمیر کی جانب سے‘ ہر دو حالت میں جانی اور مالی نقصان کشمیریوں کا ہو رہا ہے۔ نہ وہ اپنے گھروں میں اور نہ کھیتوں میں محفوظ ہیں۔ بال بچے اور مویشی لے کر یہ لوگ سرحد سے دور ہٹ کر یا تو اپنے عزیز و اقارب یا کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کھیت ویران پڑے ہیں‘ بچے سکول نہیں جا سکتے اور مکان سنسان پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سے پاکستان اور بھارت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ باہمی کشیدگی کم کرنے کے لئے لائن آف کنٹرول کے آر پار سے ایک دوسرے کے علاقوں پر فائرنگ کا سلسلہ بند کریں۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کو ہر موقعہ پر یہی پیغام بھجوایا جاتا رہا ہے کہ یہ بے سود کارروائیاں بند کرکے 2003ء کے معاہدے پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف کسی بڑے تصادم کا خطرہ ٹل جائے‘ بلکہ سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ بھی اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہو کر پرامن زندگی بسر کر سکیں ۔ لیکن بار بار اپیلوں کے باوجود بھارت کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی اور لائن آف کنٹرول کے اس پار سے پاکستانی علاقوں پر بھارتی توپوں کے گولے برابر گر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کو بھارت کو سخت وارننگ دینا پڑی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved