تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-11-2017

ہم نے آگے کی طرف دیکھنا ہے!

ضیاء شاہد صاحب کی کتاب پر میں نے جو بات کہنی تھی‘ کہہ دی تھی تاہم‘ آفتاب کا خیال یہ تھا کہ یہ ہماری تاریخ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل بجا‘ لیکن میری دانست میں ساری کی ساری تاریخ دہرانے کے لیے نہیں ہوتی‘ خاص طور پر اس کا وہ حصہ جس سے مایوسی اور انتشار پیدا ہو اور نفرت کی فضا پھیل جائے۔ میں نے کتاب جتنی پڑھی تھی‘ اپنے کالم میں نقل کر دی تھی اور میں اسی کے اندر رہ کر بات کروں گا۔ سب سے پہلے آتے ہیں کتاب کے عنوان یعنی ''گاندھی کے چیلے‘‘ کی طرف۔ مہاتما گاندھی اتنی بڑی شخصیت تھی کہ کانگریس کا رکن نہ ہونے کے باوجود حکومت اس کے اشاروں پر چلتی تھی۔ پھر اس کا ماٹو تھا‘ اہنسا‘ یعنی عدم تشدد۔ نیز اس کی نہایت سادہ بودوباش جبکہ یہ دونوں صفات ہمارے مذہب میں بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہیں۔ ضیاء صاحب نے گاندھی کے چیلے ہونے پر خان عبدالغفار خان اور ولی خان پر طعن تو کیا ہے لیکن اگر اس زمانے میں‘ میں ہوتا تو گاندھی کا چیلا ہونا میرے لیے باعث فخر ہوتا۔ اس کے علاوہ بادشاہ خان کا سرحدی گاندھی ہونے کا لقب بجائے خود ایک فخر و مباہات کی بات تھی کہ عبدالغفار خان اس وقت کی جید سیاسی شخصیتوں کے ہم مشرب تھے جن میں جواہر لال نہرو‘ ابوالکلام آزاد و دیگران شامل تھے۔
علاوہ ازیں‘ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں‘ وہ غلام ہندوستان کا زمانہ تھا اور انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لئے یہ سب سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے جنہیں صحیح معنوں میں جنگ آزادی کے ہیرو اور روشن ستارے کہا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کا تو کہیں نام و نشان ہی نہیں تھا‘ اس لیے ان سب کا ہم خیال ہونا ایک قدرتی بات تھی اور نہ ہی ان کے خیالات و نظریات کو پلک جھپکتے ہی تبدیل کیا جا سکتا تھا جبکہ اتنی بڑی جنگ میں فتحیاب ہونے کا خمار اور سرشاری اپنی جگہ تھی۔
لیکن یہاں میں ایک ضروری گزارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ضیاء صاحب ایک سینئر صحافی ہیں اور میرے لیے انتہائی واجب احترام۔ میں اور آفتاب ان کے اخبار میں لکھتے رہے ہیں۔ اگر کوئی کالم بطور خاص پسند آتا تو فون کر کے تعریف کرتے۔ یہ کوئی چوبیس پچیس برس پہلے کی بات ہے جب میں اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل ہوا کرتا تھا تو انہی دنوں الائیڈ بینک کے صدر شوکت کاظمی جو میرے نیاز مندوں میں سے تھے‘ کے اور ضیاء صاحب کے درمیان ایک معاملہ چل رہا تھا جو بہت شدت اختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ کینال ویو پر میرے غریب خانے پر ان دونوں کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس میں آفتاب اقبال بھی شامل تھا۔ چنانچہ گفتگو کے دوران جو غلط فہمیاں تھیں‘ ان کا ازالہ ہوا اور باقاعدہ جپھیاں ڈالی گئیں اور بعد میں ضیاء صاحب نے اس تصفیے کا پاس بھی کیا جبکہ اسی ملاقات میں ضیاء صاحب نے مجھے اپنی تازہ تصنیف بھی عنایت کی۔ سو‘ ضیاء صاحب اب تک مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک ولی خاندان کے حوالے سے انگریز سے کوئی جاگیر وغیرہ لینے کا سوال ہے تو ہمارے جاگیرداروں اور وڈیروں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو انگریز کا جاگیر یافتہ نہ ہو۔ یہاں تک کہ ہمارے علاقے میں جن دنوں احمد خاں کھرل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انگریز کے خلاف برسرپیکار تھا‘ میرے خاندان کا ایک بڑا حصہ ان جانبازوں کی مخبری کر کے انگریز سے سرٹیفکیٹ حاصل کر رہا تھا اور جن کے نتیجے میں ایک بڑی جاگیر سے بھی مستفید ہوا۔ سو‘ ان باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ ہے کیونکہ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے۔
جہاں تک بادشاہ خان کا تعلق ہے تو پاکستانی بننے کے بعد قائداعظم کے ساتھ ان کی ایک ملاقات کا ڈول ڈالا گیا جس پر انہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی لیکن اس ملاقات کو خان عبدالقیوم خاں اپنے مفادات کے تحت سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ ملاقات نہ ہو سکی۔ تاہم خان عبدالغفار کی 1947ء کی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا حلف اٹھاتے ہوئے تصویر ضیاء صاحب نے خود چھاپی ہے‘ پختونخوا اور پشتونستان کے نام پر بہت شور مچایا گیا لیکن پختونخوا بن گیا‘ اور کوئی قیامت نہیں آئی۔ عبدالولی خاں پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلا کر دیکھ لیا گیا جس میں وہ باعزت بری ہو گئے۔ ان کے چچا ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ رہے جبکہ ولی خاں کی جماعت متعدد بار اپنے صوبے کی مقتدر جماعت رہی ہے‘ وہ خود قومی اسمبلی کے رکن کئی بار رہے ہیں۔ وہ ایک صاف ستھرے سیاستدان تھے جن پر کرپشن وغیرہ کا کوئی الزام نہیں‘ جو شروع سے ہی قومی دھارے میں شامل رہے ہیں اور اس کے باوجود ضیاء صاحب انہیں گاندھی کے چیلے اور غدار ابن غدار کہنا پسند کریں تو یہ اُن کی مرضی ہے۔ الطاف حسین کے علاوہ ضیاء صاحب پر میاں نوازشریف پر بھی ایک کتاب واجب ہے جنہوں نے ابھی اگلے روز ہی کہا ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جیسے لوگ بستے ہیں‘ نجانے بیچ میں خواہ مخواہ یہ لکیر کس نے کھینچ دی ہے؟ بلکہ خود کو ایک نظریے سے بھی موسوم کیا ہے جس کے بعد شاید نظریہ پاکستان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یاد رہے کہ چوہدری اعتزاز احسن کے کھلے چیلنج کے باوجود ابھی تک اُنہوں نے کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا جبکہ بھارت اور مودی کے ساتھ اُن کے والہانہ پن کی وجہ یہ بھی ہے کہ مبینہ طور پر بھارت میں اُن کا بزنس ہے‘ اور‘ اس پیار محبت کے باوجود پاکستان کے بارے ان کے خیالات و نظریات کسی سے چھپے ہوئے نہیں بلکہ وہ ان کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں۔
جاگیردار تو رہے ایک طرف‘ ہمارے ہاں جن لوگوں نے جائیدادیں‘ اثاثے اور بڑے بڑے ادارے قائم کر رکھے ہیں کیا وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ انہوںنے دغا‘ فریب سے نہیں‘ بلکہ جائز ذرائع سے حاصل کیا ہے جبکہ ایک مشہور و معروف قول کے مطابق ہر بڑی دولت مندی کے پیچھے ایک جُرم ہوتا ہے! ان باتوں کو بھی دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے آگے کی طرف دیکھنا ہے۔
آج کا مطلع
نہیں یہ دل ہی پریشان تیرے ہونے سے
ہوا ہے اور بھی نقصان تیرے ہونے سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved