انتہا پسند ہندوؤں کا کمال یہ ہے کہ کوئی بھی معاملہ خواہ کہیں سے چلا ہو، گھما پھراکر مسلمانوں اور اسلام تک لے ہی آتے ہیں! ''پدماوتی‘‘ سے شروع ہونے والے تنازع ہی کو لیجیے۔ بات اِتنی سی ہے کہ فلم میں ہندوستان کے حکمران علائو الدین خلجی کو ایک راجپوت رانی پر فریفتہ دکھایا گیا ہے۔ اور معاملہ یہیں تک ہے۔ راجپوت رانی پدماوتی کو اُس پر دل و جان سے فِدا ہوتے ہوئے نہیں دکھایا گیا۔ اِس پر ایک ہنگامہ برپا کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورے بھارت کے لیے یہ فلم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اِسے ریلیز ہونے دیا گیا تو ہندو تہذیب دفن یا برباد ہوجائے گی۔ خدا جانے یہ کیسی تہذیب ہے جو کسی ایک معمولی سی ''پریم کہانی‘‘ کی بھی تاب نہیں لاسکتی!
''پدماوتی‘‘ کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی اور ہیروئن دیپکا پڈوکون کا سَر کاٹ کر لانے پر پانچ اور دس کروڑ کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ دس کروڑ انعام کے اعلان پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہریانہ سے تعلق رکھنے والے اپنے لیڈر سورج پال آمو سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ بھی پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ خیر، اُس نے اپنی عزت بچاتے ہوئے اِس فلم سے متعدد مناظر نکال پھینکنے اور فلم کی ریلیز روکنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلم کے بارے میںکوئی بھی حتمی فیصلہ مرکزی فلم سینسر بورڈ کا استحقاق ہے اور اچھا ہے کہ اِس آئینی ادارے کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔
کئی ریاستوں میں ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جیسے ''پدماوتی‘‘ ریلیز ہوئی تو ہندو دھرم پر کوئی بہت بڑا سنکٹ آ پڑے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ چند روز میں سات آٹھ ریاستوں کے مندروں میں اِس فلم کی ریلیز روکنے کے لیے ''سنکٹ وِموچن پوجا‘‘ کا آیوجن بھی کیا جانے لگے!
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلٰی شیو راج سنگھ چوہان نے (جو راجپوت ہیں) خاطر خواہ تبدیلیوں کے بغیر فلم کی ریلیز کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ راجستھان کی وزیر اعلٰی وسندھرا راجے نے بھی فلم کی ریلیز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے مرکزی وزیر اطلاعات اسمرتی ایرانی کو خط لکھا ہے کہ اس فلم کی ریلیز سے راجپوتوں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ تلنگانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک راجپوت لیڈر راجا سنگھ نے کہا ہے کہ فلم ریلیز کی گئی تو تھیٹرز کو آگ لگادیں گے۔ مغربی ریاست گجرات میں حکومت نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن تک فلم کی ریلیز روک دی جائے۔ اتر پردیش کی حکومت نے کہا ہے کہ فلم کو چند قابلِ اعتراض مناظر نکال دیئے جانے کے بعد ہی ریلیز کیا جاسکے گا۔ مغربی بھارت ہی کی ریاست مہا راشٹر میں انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ اُدّھو ٹھاکرے نے سنجے لیلا بھنسالی سے براہِ راست کہا ہے کہ وہ راجپوتوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے فلم سے چند مناظر نکال دیں۔ ہریانہ اور راجستھان کی طرح پنجاب بھی ''پدماوتی‘‘ کو گرین سگنل دینے کے حق میں نہیں۔
مشرقی ریاستوں کرناٹک اور مغربی بنگال نے البتہ اسٹینڈ لیا ہے اور ''پدماوتی‘‘ کے لیے کھل کر بولی ہیں۔ کرناٹک کے وزیر اعلٰی سِدھا رمیّا نے ہریانوی ہم منصب منوہر لعل کھٹّر سے رابطہ کرکے اُن پر زور دیا ہے کہ وہ سنجے لیلا بھنسالی اور دیپیکا پڈوکون کو دی جانے والی دھمکیوں کا نوٹس لیتے ہوئے اُن کے لیے معقول سکیورٹی کا اہتمام کریں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بینرجی نے ''پدماوتی‘‘ کی ریلیز کے حوالے سے کھڑے کیے جانے والے تنازع پر شدید تنقید کرتے ہوئے اِسے ''سپر ایمرجنسی‘‘ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ رائی کے دانے سے پربت کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے!
''پدماوتی‘‘ کی کہانی سولھویں صدی کی ایک ہندی نظم ''پدماوت‘‘ سے ماخوذ ہے۔ کہانی کتنی درست ہے اور کتنی نہیں اس پر تو بعد میں بحث ہوگی، بنیادی مسئلہ پدماوتی کا ہے۔ مورخین کا اس راجپوت رانی کے وجود پر بھی اتفاق نہیں۔ بہت سے مستند اور قدرے غیر جانب دار مورخین کا کہنا ہے کہ تاریخ کا ریکارڈ پدماوتی کے حوالے سے خاموش ہے۔ گویا ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے!
علائو الدین خلجی کا وجود ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اُس کے جاری کردہ سِکّے تو بھارت کی تاریخ کا باضابطہ حصہ ہیں مگر ''پدماوتی‘‘ میں اُس کی محبت کا سِکّہ چلتا ہوا دیکھنے کے لیے انتہا پسند ہندو اور بالخصوص راجپوت تیار نہیں!
''پدماوتی‘‘ کے پیدا کردہ بکھیڑے نے بالی وڈ کو عجیب خلجان میں مبتلا کردیا ہے۔ جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور دوسری سرکردہ شخصیات سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اُنہیں بخوبی اندازہ ہے کہ ذرا سی بھی ڈھیل دکھائی تو پوری انڈسٹری داؤ پر لگ جائے گی اور پھر بات بات پر اعتراض کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اداکارہ راکھی ساونت نے ''پدماوتی‘‘ کے حق میں بات کی تو اُس انتہا پسندوں نے دھمکیاں دیں۔ اُس نے ایف آئی آر درج کراتے ہوئے مہا راشٹر حکومت سے سکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
یہ پورا قصہ ہے ''پدماوتی‘‘ کا۔ بات اگر ایک تاریخی کردار تک محدود رہتی تو کوئی غم نہ تھا۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ انتہا پسندوں نے موقع غنیمت جان کر اس قصے یا قضیے میں ''جہادِ محبت‘‘ کی بھی انٹری ڈال دی ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کا استدلال ہے کہ مسلم نوجوان چکنی چپڑی باتوں سے ہندو لڑکیوں کو بہلا پُھسلاکر اُن سے شادی کرتے ہیں تو یہ بھی جہاد ہی کی ایک شکل ہے اور یہ جہاد چونکہ براستہ محبت ہے اِس لیے اِسے ''جہادِ محبت‘‘ کہیے!
''جہادِ محبت‘‘ کے خلاف ماحول تیار کرنے کی غرض سے انتہا پسندوں نے کہا ہے کہ سیف علی خان کی کرینہ کپور سے اور عامر خان کی کرن راؤ سے شادی محبت نہیں بلکہ جہادِ محبت کا نتیجہ ہے اور یہ کہ سب کچھ ایک خاص ''مشن‘‘ کے تحت کیا گیا ہے! دونوں، بلکہ چاروں حیران ہیں کہ ''پدماوتی‘‘ سے شروع ہونے والا معاملہ اُن کے گھروں تک کیسے پہنچ گیا! سیدھی سی بات ہے، دھرم کو سنکٹ سے بچانے والوں کو بھی تو گھر چلانا ہے، چولھا جلتا رکھنا ہے۔ ایسا سنہرا موقع وہ بھلا کیسے ضائع کرسکتے تھے؟ سیف علی خان اور عامر خان کے ساتھ ساتھ سلمان خان اور شاہ رخ خان بھی لپیٹے میں آسکتے ہیں۔ شاہ رخ نے بھی ہندو گوری سے شادی کی ہے اور سلمان خان کی والدہ ہندو تھیں، اسلام قبول کرکے سلیم خان کے نکاح میں آئیں۔ ممکن ہے ارشد وارثی، عرفان خان اور ایوب خان بھی اپنی ہندو بیویوں کے باعث ''جہادِ محبت‘‘ کے ''سپاہی‘‘ کہلائیں! چراغ سے چراغ جلانا اِسی کو تو کہتے ہیں یعنی ایک تنازع سَر اٹھائے تو اُس کے دم توڑنے سے پہلے اُسی کی مدد سے دوسرا قضیہ کھڑا کرو اور اُس کے بعد تیسرا، چوتھا، پانچوں ... علیٰ ہٰذ القیاس!