کراچی دو سال پہلے تک ایک ایسے جنگل کی صورت اختیار کر چکا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خونخوار جانوروں اور درندوں نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسانوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔ تب کراچی بابا لاڈلا، رحمان ڈکیت اور ارشد پپو جیسے خون خوار بھیڑیوں سے اَٹ چکا تھا۔ گھر سے نکلنے والا ہر فرد یہی سوچتا تھا کہ نہ جانے کب، کہاں سے کوئی گولی آ کر اس کے سینے میں گھس جائے اور نہ جانے کب نامعلوم افراد کی گولیوں کی بوچھاڑ کے بعد کاروبارِ حیات چلانے کے لئے کھولی گئی دکانیں نامعلوم عرصہ تک بند کرا دی جائیں۔ کسی بھی وقت کوئی موٹر سائیکل سوار گولی میں لپٹی ہوئی بھتہ کی پرچی دے کر چلا جائے گا۔ کسی بھی وقت بھتہ نہ دینے پر اس کے گھر، دفتر، فیکٹری یا دکان پر کوئی دستی بم پھینک دے گا۔ ابھی کوئی راہ چلتی بس کو روک کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد مہاجر اور غیر مہاجر کے نام پر لوگوں کو نیچے اتار کر گولیوں کی بارش کرے گا اور بے گناہ اور معصوم انسانوں کے جسموں کو چھلنی کردے گا۔ یہ وہی وقت تھا جب روشنیوں کا شہر کراچی 'نو گو ایریاز‘ کی صورت میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بٹ چکا تھا۔
کراچی کے اس جنگل میں تین برس پہلے تک رینجرز کو چوکوں اور چوراہوں پر ٹریفک درست کرنے کے فرائض انجام دینے کے لئے کھڑا تو ضرور کیا جاتا تھا جہاں انہیں یہ حکم تھا کہ یہ دس لاکھ تم دیکھ سکتے ہو، گن سکتے ہو لیکن انہیں خرچ نہیں کر سکتے۔ وہاں انہیں کبھی جلسہ گاہوں، پارکوں کے باہر تو کبھی سڑکوں پر لوگوں کے ہاتھوں دھکے کھاتے دیکھا جاتا تھا۔ کراچی آنے اور جانے والی اور ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو تحفظ اور پروٹوکول دینے کے احکامات تھے تو ساتھ ہی انہیں سیاسی اور مذہبی جلسوں اور جلوسوں کو سکیورٹی دینے کا حکم بھی دیا جانے لگا۔ لیکن جب درندے جنگلوں سے نکل کر گھروں میں کودنے لگے،
جب کاروبار حیات ٹھپ ہو کر رہ گیا، جب انسانی جان کی قیمت ٹی ٹی پستول کی ایک گولی کے برابر رہ گئی، جب ہر جانب آگ اوردھوئیں کے بادل چھانے لگے، جب ہر گلی سے روزانہ کسی نہ کسی بے گناہ کی لاش اُٹھنے لگی، جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام سول ادارے بے بس اور اپاہج ہو کر رہ گئے، جب پولیس کے اندر سے ہی اپنے اپنے سر پرستوں کو پہنچائی جانے والی مخبریاں عروج پر پہنچ گئیں تو پھر پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے تحفظ کی قسم کھانے والی فوج کے سپہ سالار‘ جنرل راحیل شریف اور ان کی جگہ لینے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ رینجرز کو کراچی کو امن کا گہوارا بنانے کا ٹاسک دیا۔ اس قوت شہر میں جہاں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ دندناتے پھر رہے تھے، القاعدہ، داعش اور تحریکِ طالبان پاکستان کے مختلف گروپوں کے بین الاقوامی دہشت گردوں نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ ٹارگٹ کلرز اپنے اہداف کو چن چن کر بے خوفی سے قتل کر رہے تھے۔ چائنا کٹنگ اور خطرناک ہتھیاروں کی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر تھا۔ شہر کے تمام کاروباری مراکز مفلوج ہو چکے تھے۔ صنعت کار اپنا مال و متاع بچانے کے لئے ایک ایک کرکے بنگلہ دیش، ملائیشیا، دبئی، سنگاپور اور سری لنکا جانا شروع ہو چکے تھے اور اجڑی ہوئی دلہنوں کی طرح‘ کراچی میں ان کی بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے ویران پڑے تھے۔
سپہ سالار کا حکم ملتے ہی سندھ رینجرز نے اپنے سینکڑوں افسروں ا ور جوانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے کراچی کا امن اس طرح بحال کیا کہ آج اس کی چکا چوند ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اب کراچی کے شہری رات گئے تک اپنی فیملیوں کے ساتھ بے خوفی سے ہر جگہ آزادانہ گھوم سکتے تھے۔ کراچی کا ہر بزنس مین شکر بجا لا رہا تھا کہ جبری ہڑتال قصہ پارینہ بن چکی ہے لیکن... اس طرز کا پُرامن کراچی دشمن کے سینے پر مونگ دل رہا تھا وہ اندر ہی اندر رینجرز پر کھول رہا تھا۔ رینجرز کی فعال اور ناقابل یقین کارکردگی نے دشمن کی نیندوں کوحرام کر رکھا تھا اور جیسے ہی فاروق ستار اور مصطفی کمال کے دھڑے ایک دوسرے کے مقابل آنا شروع ہوئے تو کراچی سمیت سندھ کے امن کی بحالی کا بیڑہ اٹھانے والی رینجرز کو آگے بڑھ کر ان دونوں کو سمجھانا پڑا کہ اس طرح کوئی تیسرا گروپ آپ کی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سب کو راہ سے ہٹادے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اپنی سیاسی لڑائیوں کو اس حد تک لے جانے سے گریز کیا جائے کہ کراچی ایک بار پھر آگ اور خون کا دریا بن کر رہ جائے... لیکن دشمن ملک کی ایجنسیوں اور ان کی ہدایت پر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران نے سندھ رینجرز کے اس اقدام پر یہ کہتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ'' سیاسی جماعتیں تیار کی جا رہی ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا چند گھنٹوں بعد ہی دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کر رہی ہوتیں؟
فاروق ستار اور مصطفی کمال کی ملاقات سے پیدا ہونے والے تاثر پر ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز میجر جنرل محمد سعید کا ملک کے سب سے معروف اور مقبول اینکر کامران خان کو دیا گیا انٹرویو ایسے لوگوں کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہیں تھا جو ریاست مخالف خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر پاکستان کی سیاست اور دفاع سے متعلق اداروں اور افراد کے درمیان تفرقہ اور نفرت پیدا کرنے کا مشن لئے ہوئے ہیں۔ رینجرز اور قانون نافذکرنے والے دوسرے اداروں کی ایک ہی ذمہ داری ہے کہ وہ کراچی کے امن کو ہر حال میں قائم رکھیں۔ اگر کراچی کے امن و امان میں ذرا سا بھی فرق آتا ہے تو کراچی پولیس اور رینجرز کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں کی قربانیاں رائیگاں جا سکتی ہیں اور کراچی‘ جو پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ترین شہر ہے، ایک بار پھر سے درندوں کی شکار گاہ کے لئے جنگل بن سکتا ہے۔ یاد رکھیے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کو کراچی سے الگ نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ دونوں جگہوں پر موجود دہشت گردی کے تانے بانے ایک دوسرے سے ملتے ہیں جسے کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیانات میں تفصیل سے بتا دیا تھا۔ کراچی کے قبرستانوں، مختلف عمارتوں اور میدانوں سے اسلحہ کے لاتعداد ڈپو رینجرز نے خفیہ معلومات پر دریافت کئے ہیں۔ اب بھی نہ جانے کتنی تعداد میں اسلحہ مختلف جگہوں پر دفن ہے۔
میجر جنرل محمد سعید جیسے سادہ سے سپاہی نے کامران خان سے اپنے انٹرویو میں جو کچھ کہا‘ اسے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ اس وقت فیض آباد (اسلام آباد) کے دھرنے سے نمٹنے کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کی بار بار منتیں اور ان سے بار بار ملاقاتیں کیوں کر رہی ہیں؟ کیا اس لئے نہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے امن و امان کے لئے کوئی خطرناک صورت حال نہ پیدا ہو جائے؟ یہی کچھ سوچتے ہوئے کراچی کے ان دونوں دھڑوں کے ایک ساتھ بیٹھنے پر رینجرز نے خوش آمدید کہا کیونکہ ڈی جی رینجرزکے پاس مستند اطلاعات ہیں کہ جس طرح بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کرانے کے لئے کراچی میں ایک دن تشیع تو اگلے دن سنی رہنما کو شہید کرایا جاتا تھا، بالکل اسی طرح سے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کے کارکنوں کو فہرستیں بھی بن چکی تھیں اور حیدر آباد میں تو ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کارکن قتل بھی کر دیئے گئے تھے۔ اس فہرست میں دونوں مہاجر دھڑوں کی اعلیٰ قیا دت کے لوگوں کے نام بھی شامل تھے۔ ایسی صورت میں کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سربراہ کا‘ جس کے پاس ٹھوس خفیہ اطلاعات موجود ہوں، دونوں سیاسی دھڑوں کے لیڈران کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے اختلافات ختم کرنے کی درخواست کرنا کس طرح غلط کہا جا سکتا ہے؟ اب تک ڈی جی رینجرز سندھ نے جتنے بھی ضمنی انتخابات کرائے ہیں وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ کراچی کے داخلی معاملات میں رینجرز مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔۔۔!!