ایک نوجوان نے کسی دیوار پر عامل بابا کا اشتہار دیکھا، فون نمبر نوٹ کیا اور اُن سے رابطہ کیا۔ بابا جی نے فون اٹھایا۔ علیک سلیک کے بعد نوجوان نے مسئلہ بیان کیا کہ وہ ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا مگر اُس کی شادی ہوگئی ہے۔ بابا جی نے کہا کوئی بات نہیں۔ ایک بھرپور وظیفہ اور عمل کرنا پڑے گا جس کے لیے آٹھ ہزار روپے درکار ہوں گے۔ رقم لے کر آجاؤ، مسئلہ دو دن میں حل ہوجائے گا، لڑکی قدموں میں آ گرے گی۔
نوجوان نے مسئلے کی وضاحت کی ''جناب، میں جس لڑکی سے محبت کرتا تھا وہی اب میری بیوی ہے اور میں اُس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں!‘‘ راوی بیان کرتا ہے کہ یہ سننے کے بعد بابا جی کے چراغوں میں روشنی نہ رہی، موبائل فون ہاتھ سے گرگیا اور وہ خود کرسی پر ڈھیر ہوگئے!
انسان معاشرتی حیوان ہے یعنی مل کر رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جو ماحول چل رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ''بابائی‘‘ حیوان ہے! ایک زمانہ تھا کہ لوگ ہر معاملے میں شارٹ کٹ تلاش کیا کرتے تھے۔ آج ہر شخص ایسا short cut چاہتا ہے جو shortest ہو! اِسی چکر میں لوگ عاملوں اور باباؤں کے چکر میں پڑتے ہیں۔ اور پھر جو کچھ ہوتا ہے اُسے دیکھ کر صرف یہی کہا جاسکتا ہے ع
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کردی!
یعنی عامل بابا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو اُن کی وساطت سے زندگی کا ہر مسئلہ راتوں رات حل کرنے کے خواہش مند دس آگے چلے جاتے ہیں۔ جو کچھ بھی عامل بابا کو وظیفے کے لیے درکار ہو وہ کسی نہ کسی طرح، کہیں نہ کہیں سے لاکر اُن کے قدموں میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر بابا جی ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سَر سے سینگ!
آپ کو یاد ہوگا کہ 2 اپریل 2017 کو سرگودھا کے نواحی علاقے چک نمبر 95 میں علی محمد گجر کے مزار کے متولی عبدالوحید نے روحانی علاج کے نام پر تشدد کرکے 20 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ طریقِ واردات یہ تھا کہ پہلے تمام متعقدین کو نشہ آور مشروب پلایا گیا۔ اور جب وہ مدہوش ہوگئے تو اُنہیں ڈنڈوں سے وحشیانہ طور پر پیٹا گیا۔ عبدالوحید نے عدالت میں پیشی کے موقع پر کہا ''جن لوگوں کو میں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے اُن سب کو زندہ کرسکتا ہوں۔‘‘ جب کہا گیا کہ دیر کس بات کی ہے، زندہ کر دکھاؤ تو ملزم نے کہا کہ پہلے میرے ہاتھ کھول دو!
یہ ہے کہ نام نہاد عاملوں اور باباؤں کی حقیقت۔ دعویٰ کیا جارہا ہے موت کی وادی میں قدم جمالینے والوں کو واپس لانے کا ... اور ہتھکڑی کھولنے کا وظیفہ بھی نہیں آتا!
معلوم ہوا ہے سفلی علوم کے ماہرین یعنی عامل اور جعلی پیر اب لائن پر آگئے ہیں۔ نہیں نہیں، آپ غلط اندازہ نہ لگائیں۔ لائن پر آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سُدھر گئے ہیں۔ وہ نہ سُدھرنے کے مشن کے ساتھ اِس دنیا میں آئے ہیں! لائن پر آنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ اب آن لائن ہوگئے ہیں! یہ تبدیلی نظریۂ ضرورت کے تحت ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ پولیس، سول سوسائٹی، سماجی تنظیموں اور میڈیا نے مل کر عاملوں اور جعلی پیروں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ ایسے میں طریقِ واردات تبدیل کرنے کے سوا ان کے پاس چارہ نہ تھا۔ روزنامہ دنیا کراچی کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عاملوں اور باباؤں نے چھاپوں سے بچنے کے لیے اب جدید ترین کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ معروف و مستقل ٹھکانے چھوڑ کر اب یہ بھی، اپنے موکلوں کی طرح، نامعلوم مقامات سے آپریٹ کر رہے ہیں! ''سائلین‘‘ فون پر رابطہ کرتے ہیں اور اُنہیں فون ہی پر مشوروں سے نوازا جاتا ہے۔ وصولی بھی فون ہی کے ذریعے کی جاتی ہے۔
جدید ترین کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اپنے مسائل فوری طور پر حل کرانے کے لیے عامل بابا سے رجوع کرنے والے اُن کے نائب یا اسسٹنٹ سے مسئلہ بیان کرتے ہیں اور وہ مسئلہ عامل بابا کو اُسی وقت معلوم ہو جاتا ہے!
اور بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہمارے حلق سے اتر نہیں رہی کہ عامل اگر سچے عامل ہیں اور ان کے موکل بھی ہیں تو اُن کے لیے چھاپے کیا، کارروائی کیا؟ جب وہ سنگ دل محبوب کو قدموں میں ڈال سکتے ہیں، شادی کو ناکام یا کامیاب بناسکتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کے سفارت خانوں کو ویزا جاری کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں تو پولیس یا میڈیا کو جُل کیوں نہیں دے سکتے؟
میڈیا کا معاملہ تو کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ میڈیا والوں کی صفوں میں بڑے بڑے ''عامل‘‘ صحافی اور ''جِنّاتی‘‘ قسم کے اینکرز اور تجزیہ کار پائے جاتے ہیں اور اس مخلوق سے اقتدار کے کوہ قاف میں براجمان جِنّات بھی بہت حد تک پناہ مانگتے ہیں!
پولیس کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے غُچّہ دینا زیادہ مشکل نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خود ہی موقع پر تاخیر سے پہنچنے کی قائل ہے۔ ایسے میں اُس سے بچ نکلنا کون سا مشکل کام ٹھہرا؟ اور پھر یہ بات بھی ہے سیٹنگ ذرا ڈھنگ سے کی جائے تو وہ موقع پر اور بھی دیر سے پہنچنے پر آمادہ ہوسکتی ہے! ایسی صورت میں عاملوں اور باباؤں کو اِدھر اُدھر چُھپتے پھرنے سے بھی نجات مل جائے گی اور وہ ''مشتاقانِ دید‘‘ کو ''رخِ روشن‘‘ کی ''تابانی‘‘ سے محروم رکھنے کے گناہ سے بھی بچ سکیں گے!
ویسے عاملوں اور باباؤں کو آپ چاہے جس قدر ناکام قرار دیں، ایک معاملے میں تو وہ بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہیں۔ یہ معاملہ ہے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور ٹھوس جواز پیش کرکے بچ نکلنے کا۔ وظیفہ ناکام نکلنے پر آپ شکایت کیجیے تو کہیں سے کہیں سے کوئی جواز پیدا کرکے اِس طرح بیان کیا جائے گا کہ آپ عامل بابا کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
ایک صاحب کو کسی لڑکی سے محبت ہوگئی۔ ایک زمانے تک معاملہ ون وے ٹریفک والا رہا یعنی اِدھر سے مکمل اقرار اور اُدھر سے مکمل انکار تھا۔ بہت کوشش کی مگر مسئلہ حل نہ ہوسکا یعنی محترمہ آمادہ بہ التفات اور مائل بہ کرم نہ ہوئیں۔ اُن صاحب نے تھک ہار کر ایک مشہور بنگالی عامل سے رابطہ کیا۔ یہ عامل بھی دیگر تمام عاملوں کی طرح سنگ دل محبوب کو قدموں میں لا پھینکنے کا ماہر تصور کیا جاتا تھا۔ عامل نے کیس سُنا اور اُن صاحب کی باتوں سے ٹپکنے والی بے تابی کو ذہن نشین رکھتے ہوئے حساب کتاب لگاکر بتایا کہ کام تو ہو جائے گا مگر خرچ ذرا زیادہ آئے گا۔ وہ صاحب بولے کام ہونا چاہیے، پیسے کی پروا کس کو ہے؟ عامل نے بیس ہزار طلب کیے اور ضمانت دی کہ تیسرے ہی دن سنگ دل محبوب قدموں میں دکھائی دے گا۔ رقم ادا کردی گئی۔ تین دن گزر گئے، کام نہ بنا۔ اُن صاحب نے آستانے پر پہنچ کر عامل سے ملنا چاہا تو معلوم ہوا کہ بابا جی تو پاکستان کے ٹور پر نکل گئے ہیں! نمبر ڈائل کیا تو بابا جی نے کال اٹینڈ کی اور وضاحت پیش کی ''ہمارا وظیفہ ناکام نہیں ہوا۔ محبوب کو ہم اب بھی لاکر آپ کے قدموں میں پھینک سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ سنگ دل ہو۔ رحم دل محبوب پر ہمارا وظیفہ اثر نہیں کرتا۔ ہمارا علم بتاتا ہے کہ آپ کا محبوب سنگ دل نہیں کیونکہ وہ روزانہ گلی کے کتوں، بلیوں کو کلیجی اور پھیپھڑا کھلاتا ہے!‘‘