جب بھی کوئی تکلیف دہ واقعہ پیش آتا ہے تو لاشعوری طور پر میرا دماغ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس میں خدا کی کیا مصلحت کارفرما ہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، پانچ چھ سال پہلے جب ہم نئے گھر میں منتقل ہو ئے تھے ۔ چالیس پینتالیس سال کی وہ خاتون صفائی اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے ہمارے گھر آیا کرتی۔ اس کا خاندان بہت تکلیف دہ حالات میں زندگی گزار رہاتھا۔ وہ ایک زیرِ تعمیر مکان میں رہائش پذیر تھے ۔ مالک مکان نے مکان مکمل ہونے تک انہیں وہاں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ سٹرکچر بن چکا تھا اور اب پلستر ہو رہا تھا۔ شدیدسردیوں کے دن تھے ۔دروازے اور کھڑکیاں ابھی تک نہیں لگے تھے ۔ اس کا شوہر مرگی کا مریض تھا ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ دوروں کی وجہ سے ہمیشہ اسے نوکری سے جواب مل جاتا ہے ۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں میرا دل پسیج گیا۔ میں اسے ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے پاس لے گیا۔ انہوںنے پہلا سوال یہ پوچھا کہ کیا اس کے سر پہ چوٹ لگی تھی ؟ اس نے کہا، جی ہاں ۔ انہوں نے دوالکھی۔ کہا، آئندہ تمہیں دورہ نہیں پڑے گا۔ پھر پوچھا : کام کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا: جب صحت یاب ہو جائوں گا تو پھر کام کروں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا : ایسے بھی لوگ ہیں، جنہیں روز دورہ پڑتا ہے لیکن وہ کام کرتے ہیں ۔
اس کے بعد اسے دورہ نہیں پڑا ۔دوا البتہ ساری زندگی جاری رہنا تھی ۔ میں نے اسے کہا : تم گوشت کاٹنا سیکھ لو ۔ قریب کی مارکیٹ میں گوشت کی کوئی دکان نہیں ۔ ہم وہاں یہ کام شروع کریں گے ۔ میں نے کہا : سوچو کہ تم خود کرائے پر فلیٹ لے کر رہ سکو، گھر میں ہیٹر اور گیزر لگے ہوں تو کتنا اچھا ہو۔ اس نے حامی بھر لی ۔ پھردو تین ماہ وہ مجھے نظرہی نہیں آیا۔ ایک دن جب ملا تومیں نے پوچھاکہ اس نے کیا سیکھا ہے ؟ اس نے کہا: میں نے بہت سوچا اور اس نتیجے پرپہنچا کہ اس کام میں ہمیں نقصان ہو جائے گا ؛لہٰذا یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ میںنے کہا کہ نقصان ہو جائے گا تو میں برداشت کر لوں گا ۔ وہ خاموش رہا۔ میں بھی چپ ہو رہا۔ میں خود بھی معاشی جدوجہد کے دور سے گزر رہا ہوں ۔ وہ جس برادری سے تعلق رکھتا تھا، اس میں عورتیں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں ۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں اور وہ اتنی ہی باعزت ہیں ، جتنی پڑھ لکھ کر دفتروں میں نوکریاں کرنے والی۔
میں نے ایک نیا کام شروع کرنے کا تجربہ کیا۔ گھروں میں اس کے پمفلٹ پھینکنے کے لیے دو لڑکوں کی ضرورت تھی ۔ میں نے اس کے دو بھانجوں کو اس کام پر لگایا۔ ایک پورا مہینہ میں ان سے پمفلٹ پھینکواتا رہا ۔بعد میں ان میں سے ایک کو میں نے اپنے فارم سے دودھ گھر پر پہنچانے کی ذمہ داری سونپی۔ میں نے اسے کہا کہ وہ محنت سے کام کرے ۔ اگر وہ گوشت کاٹنا سیکھ لے تو میں اس کی تنخواہ میں تین ہزار روپے کا اضافہ کر دوں گا۔ اگر وہ دودھ دوہنا سیکھ لے تو مزید تین ہزار روپے بڑھا دوں گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ پہلا مہینہ جیسے ہی شروع ہوا ، اس لڑکے نے اپنی تنخواہ میں سے پیسے مانگنا شروع کر دئیے۔ دس دن کے اندر وہ اپنی دو تہائی تنخواہ لے چکا تھا۔ہر وقت وہ موبائل پر مصروف رہتا ۔ فارم سے موٹر سائیکل پر دودھ لے کر چلتا تو دو گھنٹے بعد گھر پہنچتا ۔ پھر اس نے کہا کہ اسے میلہ دیکھنے اپنے گائوں جانا ہے ۔ میں اسے تین دن کی چھٹی دوں ۔ میں نے ایک چھٹی دی ۔ اس نے پھر کچھ پیسے مانگے اور میں نے دے دیئے۔ پھر تین دن بعد اس نے گائوں سے فون کیا کہ میلے میں اس کی جیب کٹ گئی ہے ۔ میں مزید کچھ رقم اسے موبائل پیسہ سے بھجوا دوں ۔آخر مجھے کہنا پڑا کہ ہمیں فی الحال تمہاری ضرورت نہیں ۔
کچھ عرصے بعد ان میں سے دوسرے لڑکے کا فون آیا۔ ایک حادثے میں اس کی آنکھ کو کچھ نقصان پہنچ گیا تھا۔ ڈاکٹر ڈیڑھ لاکھ روپے لاگت سے آپریشن کا کہہ رہے تھے ۔ اس کے بھائی کے ہاتھ میں نے کرائے کے لیے کچھ رقم دی اور ایک کاغذ پرشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال اور ایل آر بی ٹی کا پتہ اور فون نمبر لکھ کر دیا ۔ میں نے اسے کہا کہ اسے خود وہاں جانا ہوگا۔ بھاگ دوڑ کرنا ہوگی ۔ آپ لوگ یقین نہیں کریں گے کہ پھر دوبارہ اس نے مجھ سے چار ماہ کے بعد رابطہ کیا ۔اس نے یہ کہا: میں میڈیا ٹائون پہنچ گیا ہوں ۔ اب آگے کیا کرنا ہے ؟ میں نے پوچھا کہ تم ان فلاحی اداروں میں گئے ہو؟ اس نے کہا، نہیں ۔ اندازہ لگائیں کہ جس شخص کی آنکھ دائو پر لگی ہو، چار ماہ کے بعد وہ مجھے یہ اطلاع دے رہا تھا کہ وہ میرے گھر کے پاس پہنچ گیا ہے اور اب آگے کیا کرنا ہے ؟
میرا بھائی گھر بنا کر بیچتا ہے ۔ اپنے ایک مکان پر اسے ایک چوکیدار کی ضرورت تھی ۔ انہی لڑکوں کے ایک رشتے دار کو موقع دیا گیا ۔ تین چار دن کے بعد ہی وہ یہ کہہ کر رخصت ہو ا کہ گائوںمیں کوئی مسئلہ ہے اور اس کا وہاں پہنچنا ضروری ہے ۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے ۔ اس کی عمر پچاس سال کے قریب ہے لیکن وہ اس قدر کمزورنظر آتی ہے ، جیسے ہڈیوں پر کھال چڑھی ہو ۔ گوشت کا نام و نشان تک نہیں ۔ اس کے شوہر یعنی لڑکے کے باپ نے اس کی ماں کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لی تھی ۔یہ لڑکا اب بال بچے دار تھا لیکن مکمل طور پر اپنی ماں پر منحصر تھا ۔
ان چند سالوں میں ، میں نے یہ دیکھا کہ ان کے مردوں میں سے کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ شوبز کے بعد یہ دوسری برادری میں نے دیکھی، جن میں طلاقیں ، دوسری اور تیسری شادیاں بے حد عام تھیں ۔ وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ مثلاً جس مرگی والے کاعلاج کرایا گیا ، وہ بعد میں پمفلٹ پھینکنے والوں پرغصہ کرتا رہا (وہ ایک ساتھ رہائش پذیر تھے)۔ اسے اس بات کا غصہ تھا کہ اس کی بجائے میں نے انہیں یہ کام کیوں سونپا۔ پمفلٹ پھینکنے والے چوکیدار کی بوڑھی کمزور ماں کو کام سے نکلوانے کی کوشش کیا کرتے۔ ان کادعویٰ یہ تھا کہ وہ جادو کراتی ہے اور اس نے جادو کراکے ان کی ماں یعنی اپنی سوکن کو مار دیا تھا ۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ بیمار عورت ہے۔ اسے گھرمیں کام کے لیے نہ رکھیں ۔
مجھے دو بہنوں کا قصہ یا د آیا ۔ ایک کے شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی اور پہلی بیوی سے اس کا روّیہ انتہائی ظالمانہ تھا۔ وہ وونوں بہنیں اکثر اکٹھی بیٹھ کر رویا کرتیں۔ پھر بعد میں ایک نے اپنی بیٹی کی شادی دوسری کے بیٹے سے کی۔ اس کے بعد بیٹی والی نے بیٹے والی کے ساتھ اس قدر زیادتی کی کہ اسے اپنا شوہر بھول گیا ۔ مظلوم ظالم میں بدل گیا۔ لوگ دیکھتے رہ گئے ۔
ان حالات میں ، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے جیسے کچھ لوگوں کی تکالیف کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ہم راحت پالیں تو دوسروں کے لیے تکلیف تخلیق کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے ۔