تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-11-2017

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے!

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
کسی کو قانون کا ڈر نہیں رہا۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔ ہر طرف طاقت کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے۔ ریاست کا کنٹرول اپنے عوام پر کم ہو گیا ہے۔ سیاستدانوں سے لے کر فوجی حکمرانوں تک سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دھیرے دھیرے خوف ختم ہوا ہے۔ سب کو محسوس ہوا کہ جو جتنا طاقتور ہے، جس کے پاس لوگ ہیں، ڈنڈے ہیں، بندوقیں ہیں، وہ سڑک پر آ سکتے ہیں، ان سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔ جس کا دل چاہتا ہے وہ ریاست کو جھکا دیتا ہے۔
سوچتا ہوں ہزاروں سال پہلے غاروں کے باسیوں کا دل شاید اندھیروں، تنہائیوں اور خاموشی سے اکتا گیا ہو گا تو انہوں نے سوچا ہو گا کہیں چل کر اکٹھے رہتے ہیں۔ حالات سے لڑتے ہیں۔ نئی بستیاں آباد کرتے ہیں۔ نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔ نئی منزلوں کے مسافر بنتے ہیں‘ اور پھر انسانی تہذیب کا وہ سفر شروع ہوا‘ جس نے آج انسان کو موجودہ منزل تک پہنچایا ہے۔
ایک مشترکہ معاشرہ تشکیل دینا یقینا ایک مشکل کام تھا۔ مختلف خیالات، مذاہب‘ اپروچ اور نسل کے انسانوں کا ایک ساتھ رہنا آسان نہیں تھا۔ وحشت کا یہ سفر شروع ہوا تو کئی مشکلات درپیش آئیں۔ انسانی تاریخ میں بربریت کی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں‘یقین نہیں آتا کہ انسان اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ قبیلوں کی لڑائی سے شروع ہونے والے خونیں تصادم عظیم جنگوں‘ اور تہذیبوں کے ٹکرائو تک جا پہنچے۔ قبیلے کے سرداروں نے سب سے پہلے پگ باندھی۔ سردار غائب ہوئے تو بادشاہوں کا عروج ہوا‘ پھر شہنشاہ ابھرے۔ پھر پوپ اور مذہبی لوگوں نے طاقت پکڑ لی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مذہبی قوتوں اور بادشاہوں نے ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے ایکا کرکے انسانوں پر حکومت کی۔ یورپ میں پرنٹنگ پریس آیا تو شعور کا سفر شروع ہوا۔ ہر انقلاب میں جہاں خون بہا‘ وہاں شعور بھی ملا۔ یوں دھیرے دھیرے بادشاہوں کا دور ختم ہونے لگا۔ یورپ میں مذہب پیچھے جانے لگا۔ لوگوں کو اپنے حقوق کا احساس ہوا۔ قبیلوں کے سرداروں نے انسانوں پر حکومت کرکے دیکھ لی۔ حملہ آوروں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر دیکھ لیے۔ فاتحین نے لہو بہا کر دیکھ لیا۔ مذہبی طاقتوں نے بھی اپنا زور لگا لیا‘ لیکن انسان اب بھی اندر سے وحشی ہے۔ 
پھر طے ہوا کہ سب کو آزما لیا تو کیوں نہ اب انسان خود حکمرانی کرکے دیکھ لے۔ طے ہوا کہ مشترکہ کوڈ بنا لیتے ہیں۔ کوئی جھگڑا ہو، بات بڑھ جائے تو پھر اس کوڈ کو فالو کر لیا جائے۔ یوں جمہوریت کی بنیاد پڑی۔ اس جمہوریت کا بنیادی اصول یہ طے پایا کہ قانون کی رو سے سب ریاست اور اس کے اداروں کو جواب دہ اور آپس میں برابر ہوں گے۔ عوام پارلیمنٹ بنائیں گے۔ پارلیمنٹ ادارے بنائے گی۔ ان اداروں کا کام لوگوں کو سروس دینا، اچھی زندگی گزارنے میں مدد دینا اور انصاف دینا ہو گا۔ یوں یورپ میں جمہوریت چل پڑی اور خوب چلی‘ اور آج تک چل رہی ہے۔ 
یورپ والوں کا خیال تھا کہ یہ وہ ماڈل ہے‘ جو انسانوں کی ترقی کا ضامن ہے‘ لہٰذا گورے جہاں گئے‘ انہوں نے وہاں ادارے بنانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ یورپ کی طرح ہندوستان بھی جمہوریت کی مدد سے بہتر مستقبل پائے گا۔ لوگ خود حکومت کرینگے۔ لہٰذا انہوں نے ہزاروں سال سے جاری بادشاہت ختم کرکے ہندوستانیوں کو تیار کیا کہ وہ خود پر خود حکومت کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کے باسیوں میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ خود پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔ یوں جب جنگ عظیم دوم کے بعد سلطنت برطانیہ کا سورج ڈوبنے لگا تو وہ اچانک ہندوستان اور پاکستان کو ان کے حال پر چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل گئے۔ ان کا خیال تھا کہ الیکشنوں کے نتیجے میں بننی والی حکومتیں اس خطے کے لوگوں کو اچھا جمہوریت پسند بنا چکی ہوں گی۔ اب انہیں پتہ چل چکا ہو گا کہ خود پر کیسے حکومت کرنی ہے۔ 
لیکن آج ستر سال بعد دیکھتے ہیں کہ انگریز کی یہ سوچ کتنی غلط نکلی ہے۔ اس خطے کے لوگوں کے لئے بادشاہوں اور مذہبی لوگوں کا رومانس، گرفت اور غلامی کا چسکا اتنا شدید تھا کہ ستر سال میں بھی ختم نہ ہو سکا۔ جمہوریت صرف پاکستان میں ہی ناکام نہیں ہو رہی بلکہ ہندوستان میں بھی ہو رہی ہے۔ اگر آج پاکستان میں سڑکوں پر مذہبی لوگ ہنگامے کر رہے ہیں تو ہندوستان میں بھی پچھلے دنوں ایک مذہبی گرو کی وجہ سے تیس سے زائد لوگ مارے گئے تھے‘ جب ان کو عدالت نے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر سزا سنائی۔ ہمارے ہاں بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوتے رہے تو بھارت کی کئی ریاستوں میں بھی فوجی آپریشن ہوئے۔ انگریزوں پر الزام لگتا تھا کہ وہ فورس استعمال کرتے تھے تو پاکستان اور بھارت بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ جمہوریت کے بنیادی فلسفے کی سب نے خلاف ورزی کی‘ جس سے جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ہے۔ وہ فلسفہ ہَوا ہوا کہ جو جتنی بڑی کرسی پر بیٹھا ہو گا‘ اس کا احتساب اتنا ہی کڑا ہو گا۔
یہیں ہم سے بنیادی غلطیاں ہوئیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہی ریاست کی رٹ اور عدالتوں کو چیلنج کیا۔ دوسری طرف نظام عدل بھی توقعات پر پورا نہیں اترا‘ جس سے اس کا احترام اور خوف کم ہوا۔ لیڈروں نے ریاست کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ سب نے اپنا فائدہ دیکھا۔ سب کے اندر سے خوف‘ ڈر ختم ہوتا چلا گیا۔ یوں ریاست کا ڈھانچہ کمزور ہوا۔ ہر ایک نے سڑک کی راہ لی۔ پولیس اور بیوروکریسی کو یہی سیاستدان اور سول‘ ملٹری حکمران پہلے ہی کمزور کر چکے تھے‘ جن کا کام تھا کہ وہ سروسز فراہم کرکے لوگوں کو انصاف کے حصول میں مدد دیں اور ان کی زندگیاں بہتر بنائیں۔ بیورو کریٹس، سول و فوجی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوا کر جائیدادیں اکٹھی کرنے اور مال بنانے پر لگا دیا۔ جو بیرون ملک رہنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے‘ انہوں نے ملک کے اندر ہی مختلف تعلیمی نظام شروع کر دیے۔ سرکاری سکولوں کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ پرائیویٹ سکول کلچر نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ غریب کے بچے کو آخر متبادل تعلیمی نظام میں پناہ ملی جہاں اسے مخالف سے نفرت سکھائی گئی۔ حکمرانوں کو ایک ہی غرض تھی کہ یہ لوگ پانی بھی پئیں تو اس پر ٹیکس دیں‘ جس پر وہ عیاشی کریں۔ یوں ٹیکسوں کا پیسہ‘ جو ان غریب لوگوں کی تعلیم، سمجھ اور بہتر معیار زندگی پر لگنا تھا‘ وہ سول ملٹری بیوروکریسی اور سیاستدانوں پر لگنا شروع ہو گیا۔ سب نے اس لوٹ مار میں اپنا پنا حصہ لینا شروع کیا۔
جن حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کو بہتر نظام تعلیم دیتے، انہیں ایک روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرتے‘ انہیں ایک تابناک مستقبل دیتے‘ الٹا ان امیروں نے اپنے گھروں کے کچن بھی غریبوں کے پیسے سے چلانا شروع کر دیے۔ ایلیٹ کا آپس میں اتحاد ہو گیا۔ حکمرانوں نے ریاست پر قبضہ کرکے اپنے ذاتی کاروبار شروع کر دیے۔ یہ ملک کے وزیر اعظم لگ گئے‘ لیکن دوبئی میں نوکری بھی کرتے رہے۔ وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ لگ کر بھی دوبئی کی نوکری کا پرمٹ جیب میں رکھا۔ رحمن ملک اور چوہدری نثار کی طرح بچوں کو برطانوی امریکی شہری بنوا کر یہاں حکومت کی۔ یہ رواج پورے معاشرے میں عام ہوا۔ دوبئی‘ لندن ‘پاناما جائیدادیں خرید لیں جبکہ غریبوں کو مدرسوں کا نظام دے دیا گیا۔ امریکہ اور جنرل ضیاء نے کھل کر ان کو پروموٹ کیا۔ غریبوں کے بچوں کو استعمال کر کے عالمی جنگیں لڑیں۔
پھر ایک روز ہم پوری دنیا فتح کرنے نکل پڑے۔ آج پتہ چلا کہ ہم سے تو اپنا گھر نہیں چل رہا۔ بیس کروڑ کی آبادی میں دس کروڑ لوگ غریب ہیں‘ یا خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بیروزگاری کرپشن کی طرح عام ہے۔ شہر ختم ہو رہے ہیں۔ اسی ارب ڈالرز کا قرضہ لے چکے۔ واپسی کے لیے اس سال بیس ارب ڈالرز دینا ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کہاں سے ادا ہوں گے۔ رہ گئے عوام تو وہ سڑکوں پر پولیس سے لڑ رہے ہیں۔ پولیس انہیں مار رہی ہے اور وہ پولیس والوں کو مار رہے ہیں۔
ریاست کا ایک خوف تھا‘ اداروں کا خوف تھا‘ وہ نہ رہا۔ جب تین دفعہ وزیر اعظم بننے والا عدالت کا احترام نہیں کرے گا تو پھر ان سے کیا گلہ‘ جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا کر پولیس سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ 
ہمارے سیانے دنیا فتح کرنے نکلے تھے اور اپنا گھر تباہ کروا بیٹھے۔
جان کی امان پائوں تو کہہ دوں: لوٹ کے بدھو گھر کو آئے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved