تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-11-2017

اشبیلیہ‘ قرطبہ اور قرمونہ

مالاگا کے پہاڑی پر موجود قدیم قلعے تک جانے اور آنے میں جو مشقت ہوئی تھی اس نے دوبارہ سے ٹخنوں کے Tendons کا حال خراب کر دیا تھا۔ رات درد کشا گولیاں کھا کر سویا۔ صبح اٹھا تو درد قدرے ٹھیک تھا۔ اب اشبیلیہ کا سفر درکار تھا مگر یہ کونسا پیدل کرنا تھا؟ میاں طیب نے گاڑی چلانی تھی اور ہم نے صرف باتیں بگھارنی تھیں۔ اگر اشبیلیہ کا پروگرام نہ ہوتا تو ہم صبح ذرا آرام سے اٹھتے مگر اب قرطبہ براستہ اشبیلیہ کا قصد تھا لہٰذا صبح جلدی اٹھے‘ ناشتہ کیا اور روانگی ڈال دی۔ چار چھ چکر دینے کے بعد جی پی آر ایس نے ہمیں موٹروے پر ڈال دیا۔ مالاگا سے شہر کے ساتھ ہی موٹروے ہے اور تقریباً چالیس پچاس کلومیٹر تک یہ موٹروے اشبیلیہ‘ غرناطہ تک مشترکہ ہے۔ پھر ایک اشارہ آتا ہے دائیں طرف ایگزٹ سے نکلیں اور اس موٹروے کے اوپر سے گزرتے ہوئے بائیں طرف والی موٹروے پر چڑھ جائیں۔ ادھر اشبیلیہ ہے۔ اشبیلیہ مالاگا سے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سپین کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ اشبیلیہ صوبے کا نام بھی ہے اور یہ اس کا دارالحکومت بھی ہے۔ جو اندلسی ریجن میں ہے اور اندلسیہ کا دارالسلطنت بھی۔
اشبیلیہ اوّلاً 712ء میں مسلمانوں کے زیر قبضہ آیا۔ یہ ایک نہایت قدیم شہر ہے اور قبل از مسیح سے آباد ہے۔ اسے یونانیوں نے آباد کیا۔ مسلمانوں کے زیر نگیں آتے ہی اس شہر کی قسمت بدل گئی اور یہ اس علاقے کا نہایت پررونق‘ خوشحال اور شاندار شہر بن گیا۔ 929ء تک یہ مختلف مسلمان حکمرانوں کے زیرِ انتظام رہا؛ تاہم اس کو عروج اموی دورِ حکومت میں نصیب ہوا۔ عبدالرحمن اوّل سے لے کر عبدالرحمن سوم سے پہلے تک‘ مسلمان حکمران خلیفہ کا لقب استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ امیر کا لقب استعمال کرتے تھے۔ عبدالرحمن سوم نے پہلے پہل خلیفہ کا لقب استعمال کیا۔ اس کے بعد سے 1031ء تک خلافت اندلس کے خاتمے تک‘ اندلس کے حکمران اپنے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کرتے رہے۔ خلافت اور امارت‘ کل ملا کر اموی خاندان نے اندلس پر 269 سال حکومت کی۔ آخری اموی خلیفہ ہشام سوم تھا۔ ہشام سوم کے ساتھ ہی خلافت ختم ہوئی۔ سلطنت چھوٹی چھوٹی طائفہ ریاستوں میں منقسم ہو گئی۔ 1031ء کے بعد اشبیلیہ بھی ایک خود مختار طائفہ ریاست میں بدل گیا۔ یہ چھوٹی سی ریاست مزید دو سو سترہ سال قائم رہی۔ اشبیلیہ پر اس دوران پہلے الموارد خاندان کی حکومت رہی اور بعد ازاں الموحد اس پر حکمرانی کرتے رہے۔ ان دو سو سترہ سال میں اشبیلیہ کی خوبصورتی‘ رونق اور خوشحالی میں تو کچھ خاص فرق نہ آیا مگر مرکزی خلافت کے ختم ہوتے ہی اشبیلیہ کی حکومت کا وہ دبدبہ نہ رہا جو 1031ء تک تھا۔
ہم باتیں کرتے دن بارہ بجے کے لگ بھگ اشبیلیہ پہنچ گئے۔ جی پی آر ایس پر جیرالڈا ڈالا ہوا تھا۔ پندرہ بیس منٹ تک تنگ گلیوں میں سے گھماتے پھراتے اس نے ہمیں ایک چھوٹے سے میدان میں پہنچا دیا جس کے درمیان میں فوارہ تھا اور سامنے جیرالڈا تھا۔ اشبیلیہ میں مسلمانوں کی سب سے بلند و بالا یادگار اور اس شہر کی پہچان‘ تقریباً سومیٹر بلند چوکور مینار ہے۔ اس مینار کی چوٹی پر ہوا کا رُخ بتانے والا بادنما لگا ہوا ہے۔ اسے جیرالڈا کہتے ہیں اور اسی کے نام پر مینار کا نام پڑ گیا ہے۔ یہ ایک ایسا شاندار مینار ہے جسے صرف انسانی آنکھ سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سیدھا چوکور پتھر سے بنا ہوا بلند و بالا مینار‘ جس کے نچلے حصے میں صرف چھوٹی چھوٹی محراب نما کھڑکیاں ہیں۔ درمیانی حصے میں جالی اور دریچے ہیں۔ اوپر والے حصے میں بیس طاق ہیں (ہر طرف پانچ طاق) اوپر ایک پتلا مینار ہے‘ جس میں اب چرچ کی گھنٹی لگی ہوئی ہے اور سب سے اوپر بادنما لگا ہوا ہے۔
جیرالڈا اب دنیا کے چند سب سے بڑے گرجا گھروں میں سے ایک ''سیویلی کیتھڈرل‘‘ کا بیل ٹاور یعنی گھنٹی والا مینار ہے۔ کبھی یہ اشبیلیہ کی مسجد کا مینار تھا۔ اس موجودہ مینار کا دو تہائی ابھی تک اپنی اصل شکل میں برقرار ہے جبکہ اوپر والا ایک تہائی بعد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اوپر والا حصہ 1356ء کے زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا۔ یہ مینار دراصل مراکش میں قطیبیہ مسجد کے مینار کی زیادہ شاندار اور بڑی مثال ہے۔ اس مینار کی تعمیر الموحد خاندان کے دور میں 1184ء میں شروع ہوئی اور 1198ء میں یعنی چودہ سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔ اس کے ساتھ کبھی مسجد تھی‘ اب گرجا گھر ہے۔ اس کا ڈیزائن احمد بن باسو نے بنایا۔ اس کے ساتھ جابر ابن افلاح نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ عامر اور میں نے چرچ کے گرد گھومتے ہوئے جیرالڈا کے دائیں طرف والی دیوار میں محرابیں دیکھیں جنہیں اندر کی طرف سے دیوار بنا کر بند کر دیا گیا تھا۔ عامر پوچھنے لگا کہ یہ محرابیں کیوں باقی رہنے دی گئی ہیں؟ میں نے کہا اس سے دو مقاصد حاصل کرنا مقصود تھا۔ ایک یہ کہ ہمیں تمہیں دکھایا جا سکے کہ یہ چرچ جہاں بنایا گیا ہے وہاں کبھی مسجد تھی۔ دوسرا یہ کہ باقی دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم نے مسجد کے آثار بالکل ختم نہیں کئے بلکہ باقی رہنے دیئے ہیں تاکہ یہ باور کروایا جائے کہ ہم نے بہرحال مسجد کی باقیات کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ یعنی ہمیں بھی پیغام دے دیا اور اپنی وسیع القلبی کا ثبوت بھی دے دیا۔
ہم شہر کی گلیوں کی طرف جانے کے بجائے کیتھڈرل کے پہلو میں بنے محراب نما دروازے سے گزر کر ایک دلان میں داخل ہو گئے۔ آگے ایک تنگ دروازہ تھا۔ اس کے پار نکلے تو پرانی تنگ گلیاں تھیں۔ دائیں طرف ایک قدیم فصیل تھی۔ فصیل کے ساتھ ساتھ چلتے گئے تو آگے دائیں طرف ایک خوبصورت باغ تھا۔ اس باغ سے گزر کر‘ اسی فصیل کے ساتھ ساتھ چلتے دوبارہ دائیں طرف مڑے تو سامنے پرانی عمارتیں تھیں۔ اس فصیل کے اندر بھی ایک عدد Alcazar تھا۔ یعنی ''القصر‘‘۔ یہ القصر بھی اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ چکر خاصا لمبا ہو گیا تھا اور امجد اسلام امجد صاحب تھک گئے تھے۔ یہ سارا میرا قصور تھا کہ میں ہی ان سب کو پیدل ایک لمبے راستے سے لے کر چل پڑا تھا۔ میں دل ہی دل میں شرمندہ تھا۔ عامر وغیرہ کا خیال تھا کہ میں ان کو غلط راستے پر لے آیا ہوں۔ میرا اصرار تھا کہ میرا جی پی آر ایس خراب نہیں ہو سکتا۔ ہم ابھی واپس جیرالڈا کے پاس پہنچ جائیں گے۔ بہرحال میں نے امجد صاحب اور عامر کو ایک بنچ پر بٹھایا اور خود آگے جا کر راستہ دیکھنے لگ گیا۔ موڑ مڑتے ہی سامنے جیرالڈا آ گیا۔ میں نے واپس آ کر امجد صاحب اور عامر کو لیا اور جبرالڈا والے فوارے پر پہنچ گیا۔
وہاں بگھی نما تانگے کھڑے تھے۔ ہم نے ایک بگھی کرائے پر لی اور شہر کا چکر لگانے کے لیے بھائو تائو شروع کر دیا۔ پوستی شکل و صورت کے کوچوان نے شہر کے چکر کے 45 یورو طے کئے اور ہمیں لے کر چل پڑا۔ دریا کے کنارے مسلمانوں کا بنا ہوا خوبصورت گول مینار‘ ہسپانوی عمارتیں اور سب سے بڑھ کر پرانی تنگ گلیوں میں گھوڑے کی ٹاپیں۔ میں نے موبائل فون پر ریکارڈنگ کا بٹن دبایا اور گلیوں میں گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ریکارڈ کرنا شروع کر دی۔ ایک طویل عرصے کے بعد گھوڑے کی ٹاپیں سننا نصیب ہوئیں۔ واپس اسی میدان میں آ کر گھوڑے سے اترے اور کچھ پیٹ پوجا کا سوچنا شروع کیا۔ میرے دل میں تھا کہ زیادہ دیر نہ لگائی جائے اور اب فوراً نکلا جائے تاکہ رات ہونے سے پہلے پہلے راستے میں قرمونہ کے قصبے میں ایک آدھ گھنٹہ لگا لیا جائے۔ قرمونہ جہاںجیرالڈا جیسا ہی نسبتاً چھوٹا ایک اور مینار ہے۔ پرانے قلعے کے آثار ہیں اور پرانے شہر کی باقیات ہیں۔ قرمونہ کی اندلس کی تاریخ میں ایک بڑی حیثیت ہے۔ جب بغداد کے عباسی خلیفہ نے ''مفرور‘‘ اموی شہزادے عبدالرحمان کی سرکوبی کے لیے فوج بھجوائی تو اس لشکر نے قرمونہ کے قلعے میں عبدالرحمان اوّل کو محاصرے میں لے لیا۔ لیکن چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ سردیاں آتے ہی دن چھوٹے ہو گئے ہیں۔ جب ہم قرمونہ کے پاس سے گزرے تو باقاعدہ اندھیرا ہو چکا تھا اور سب کو قرطبہ پہنچنے کی جلدی تھی۔ سو میں خاموش رہا۔ قرمونہ ابھی میری اس فہرست میں ہے‘ جہاں میں نے جانا ہے۔ بشرطِ زندگی۔ ایسی ساری چیزوں کا تعلق زندگی سے ہے اور اس جیسی ناپائیدار چیز کم ہی دیکھی ہے۔ کیسے کیسے چہرے تھے جو اب خواب و خیال ہو گئے ہیں۔ سو فی الحال قرطبہ۔ قرمونہ کہیں درمیان میں ہی رہ گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved