تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-11-2017

’’گاندھی کے چیلے‘‘

ضروری نوٹ: اس کتاب کے حوالے سے جو میرا کالم اگلے روز شائع ہوا ہے‘ وہ دراصل اس موضوع پر لکھی گئی دوسری قسط تھی جو پہلے چھپنے سے رہ گئی۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے‘ وہ اس طرح سے شروع ہوتی ہے:
آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی دو سو صفحات کو محیط یہ کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل (لاہور) نے چھاپی اور اس کی قیمت 800 روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل پر فاضل مصنف کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر درج ہے:
گاندھی کے پائوں دھونے والے‘ سابق صوبہ سرحد کے سُرخ پوش‘ غفار خان‘ ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب اور بیٹے ولی خان کی پاکستان دشمنی اور انگریز اور ہندو کے ایجنٹ ہونے کی خوفناک داستان۔ پس سرورق مصنف کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے۔ اندرون سرورق کے دوسرے حصے میں مصنف کی تصانیف کی فہرست درج ہے‘ جو اس طرح سے ہے :
1۔جنگ عظیم کی کہانیاں 2۔خوفناک کہانیاں 3۔عقابوں کا نشیمن 4۔جمعہ بخیر 5۔پاکستان کے خلاف سازش 6۔قائداعظم: زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات 7۔باتیں سیاست دانوں کی 8۔امی جان 9۔قلم چہرے 10۔یہ فلم والے 11۔نور جہاں اور دلیپ کمار۔ زیر نظر کتاب کے علاوہ مصنف کی کچھ کتابیں زیر طباعت ہیں۔ انشاء اللہ وہ بھی عنقریب قارئین کے ہاتھوں میں ہوں گی۔
آغاز میں کتاب کے عنوان کے نیچے تحریر کچھ اس طرح سے ہے (اے این پی کی طرف سے پختون خوا یا پشتونستان کے مطالبے پر چھپنے والے سلسلے وار مضامین ''ولی خاں جواب دیں‘‘ کا مجموعہ)
کتاب کا انتساب اجمل خٹک کے نام ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:خیبر پختونخوا کے معروف صحافی اور سیاستدان اجمل خٹک زندگی بھر خدائی خدمتگار رہے۔ نیپ کے سیکرٹری جنرل بنے جبکہ صدر سرحدی گاندھی عبدالغفار کے صاحبزادے ولی خاں تھے۔ برسوں کابل میں بیٹھ کر حکومت پاکستان کے خلاف پختونستان تحریک کی حمایت کرتے رہے۔ نیپ کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا تو دلائل اور ثبوتوں میں سب سے زیادہ اجمل خٹک کے بیانات اور تحریریں تھیں۔ تاریخ کا پہیہ چلتا رہا اور وہی اجمل خٹک مسلم لیگ نون کے اتحادی اور نواز شریف صاحب کے حامی بن گئے اور نیپ کے بعد اے این پی کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ پھر اُن کے ساتھ تحریکِ نجات میں مسلسل سفر کا موقع ملا۔ بعدازاں ان سے بیشمار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وہ لاہور میں میرے گھر اور میں خیبر پختونخوا میں ان کے گھر بہت مرتبہ گیا۔ ان کی علالت کے دنوں میں تیمارداری کے لیے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ایسی ہی ایک شام وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور میں کرسی پر ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ضیاء شاہد میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کیا‘ اس پر میں بہت شرمسار ہوں اور گزشتہ کئی برسوں سے اپنی غلطیوں کی تلافی میں مضبوط اور مستحکم پاکستان کی خاطر سیاسی جدوجہد کر رہا ہوں۔ کبھی موقع ملے تو اپنے اس بوڑھے دوست کے بارے میں یہ لکھیے گا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میں نے اپنی غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔
میں اس کتاب کو اس بوڑھے انقلابی کے نام منسوب کرتا ہوں جو عمر کے آخری دور میں نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے تھے بلکہ پاکستان کی وحدت‘ استحکام اور مختلف صوبوں اور قومیتوں کے مابین محبت اور پیار کا پرچار کرنے کے سوا ان کا کوئی مشن نہ تھا۔ شاید سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان اور ان کے بیٹے خان عبدالولی خان کی سوچ سے انہوں نے یکسر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ (اس کے بعد میں نے کتاب میں شائع کی جانے والی تصاویر کی فہرست اور کتاب میں موجود مضامین کی فہرست دی تھی۔ جس کے بعد میرے کالم کا آخری حصہ کچھ اس طرح سے تھا)
مواد کے علاوہ میں نے اس کتاب کی کم و بیش ساری تفصیلات عرض کر دی ہیں۔ مزید برآں میں اس کتاب پر تبصرہ کرنے کا اپنے آپ کو اہل بھی نہیں سمجھتا۔ اور‘ چونکہ بزدل آدمی ہوں اس لیے میں اس کتاب کو پڑھنے سے بھی معذور رہا ہوں۔ اس لیے اپنے ذاتی اور ناقص خیالات ہی پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ انگریز سے آزادی کی تحریک میں خان عبدالغفار خان‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ گاندھی‘ قائداعظم محمد علی جناح‘ سرسید اور علی برادران سمیت کئی اور ہستیاں بھی تھیں۔ پاکستان کا سوال تو بہت بعد میں پیدا ہوا جس کے بارے قائداعظم کو چھوڑ کر سبھی حضرات ایک جیسے ہی تھے اور یہ ایک قدرتی بات تھی کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ملک تقسیم ہو کر اتنی جلدی اور آسانی سے پاکستان بن جائے گا۔ یہ سبھی آزادی کے عظیم ہیرو تھے۔ مولانا مودودی بھی پاکستان کے حق میں نہیں تھے لیکن یہاں آ کر مولانا کے خیالات تبدیل ہو گئے۔ اسی طرح نہ صرف خان عبدالغفار خان نے 1947ء کی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھایا بلکہ مولانا محمود مفتی کے اس بیان کے باوجود کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘ آئین پاکستان کی دستاویز پر مولانا مفتی محمود اور خان عبدالولی خان کے دستخط موجود ہیں۔ نیز اگر اجمل خٹک کی ساری خطائیں معاف ہو گئی ہیں تو ولی خاں وغیرہ کی کیوں نہیں جو قومی دھارے میں شامل ہو گئے تھے۔ قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت پاکستان کو آج ہے‘ شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ادھر جہاں بلوچستان میں جنگجو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں وہاں اس قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی کوئی گنجائش ہرگز موجود نہیں ہے۔ وما علینا الا البلاغ 
اور اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل
آسمان و زمیں تو میں بھی ہوں 
یعنی اپنے تئیں تو میں بھی ہوں 
تیرے ہونے سے ہے مرا ہونا
تُو اگر ہے کہیں تو میں بھی ہوں 
کچھ توجہ نہیں ابھی مجھ پر 
بزم میں جاگزیں تو میں بھی ہوں 
ہنستا رہتا بھی ہوں بہت‘ لیکن 
اِس قدر خوش نہیں تو میں بھی ہوں 
خاک اُڑاتا ہوں اپنے اندر کی 
ایک صحرا نشیں تو میں بھی ہوں 
جہاں میرے سمیت کوئی نہیں 
اس طرح سے وہیں تو میں بھی ہوں 
دل میں خالی جگہ نہیں‘ ورنہ 
اس مکاں کا مکیں تو میں بھی ہوں 
ابھی نام و نشاں نہیں میرا
اور پھر بعد ازیں تو میں بھی ہوں
بے خبر ایک دوسرے سے، ظفرؔ 
ہے اگر تُو یہیں تو میں بھی ہوں 
............
آج کا مطلع 
جوانی نہ خوابِ جوانی ہے یہ 
کوئی اور ہی سرگرانی ہے یہ

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved