تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     26-11-2017

پنجاب یونیورسٹی کی ایک تقریب

پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی ایک ممتاز درس گاہ ہے جس میں سائنسی اور غیر سائنسی مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پورے پاکستان سے طالب علم رجوع کرتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں جہاں پر طلبہ کو بہت اچھے انداز میں تعلیم دی جاتی ہے وہیں پر غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے بھی طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جن میں مختلف علوم کے ماہرین کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ بحیثیت طالب علم پنجاب یونیورسٹی سے میری ایک لمبا عرصہ وابستگی رہی۔ میں نے یہاںسے ریگولر طالب علم کی حیثیت سے ابلاغیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے علاوہ بھی کئی اور مضامین میں پرائیوٹ طالب علم کی حیثیت سے ماسٹر ڈگریز حاصل کیں۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں مرتب ہونے والے پروگراموں میں بڑے ذوق وشوق سے شریک ہوتا رہا اور مختلف دینی سکالرز ا ور دیگر علوم کے ماہرین سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ شعبۂ ابلاغیات کے چیئرمین ڈاکٹر مسکین علی حجازی، ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر اے آر خالد، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، مجاہد منصوری ، وقار ملک، ڈاکٹر احسن اختر ناز خود بھی علم ودانش کے اعتبار سے ملک کی ممتاز شخصیات تھیں۔ ان تمام اساتذہ کے ساتھ کلاسز کے دوران اور کلاسز کے بعد‘ تبادلۂ خیال کرنے کا موقع میسر آتا رہا۔ شعبۂ ابلاغیات میں ملک بھر سے آنے والے دیگر ماہرین تعلیم کی بہترین مؤثر اور جچی تلی آراء سے بھی رہنمائی حاصل کرنے کا موقع میسر آتا رہا۔ زمانۂ طالب علمی میں مجھے خود بھی اسلامیات اور دینیات کے حوالے سے بعض ہوسٹلز اور ڈیپارٹمنٹس میں اظہار خیال کرنے کا موقع ملا۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد بھی گاہے گاہے اسلامی جمعیت طلباء کے رہنما مجھ سے رابطے میں رہے اور مجھے پنجاب یونیورسٹی میں مختلف عناوین پر گفتگو کرنے کا موقع ملتا رہا۔
چند ہفتے قبل ایک مرتبہ پھر اسلامی جمعیت طلباء کے رہنما اسامہ اعجاز نے مجھ سے تین روزہ درسِ قرآن کورس میں شمولیت کے لیے رابطہ کیا۔ نوجوان طلباء کے ذوق و شوق اور علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے میں نے ہمیشہ طلبہ کی دعوت کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ چنانچہ اس دفعہ بھی میں نوجوان دوستوں کی دعوت کو فی الفور قبول کر لیا۔
22 نومبر کو ''حیا اور پاک دامنی ‘‘کے عنوان پر پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل گراؤنڈ میں ایک بہت بڑے اور پر وقار اجتماع کا انعقاد ہوا، جس میں ہزاروں کی تعدا میں طلبہ اور پردے میں‘ سینکڑوں طالبات نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں جہاں مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی کی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع ملا وہیں پر میں نے بے راہ روی اور بے حیائی کے انسداد کے حوالے سے نوجوانوں کے سامنے قرآن وسنت کی روشنی میں بعض نکات کو رکھا جنہیں میں قارئین کے گوش گزار بھی کرنا چاہتا ہوں:
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘ جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں پر عقائد، عبادات، معیشت اور معاشرت کے حوالے سے اہل اسلام کی مکمل رہنمائی کی ہے وہیں پر بے راہ روی اور فحاشی کے انسداد کے لیے بھی اسلام کی تعلیم بالکل واضح ہیں۔ فحاشی اور برائی سے بچاؤ کے لیے ہمارے معاشرے میں بسنے والے نوجوان لڑکے، لڑکیوں، ان کے والدین اور سرپرستوں کو مندرجہ ذیل تجاویز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1۔ اچھی صحبت کا انتخاب: اچھی صحبت دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زخرف کی آیت نمبر 67 میں اس امر کا اعلان فرمایا ''سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 27-28 میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا اے کاش میں رسول اللہﷺ کا راستہ اختیار کرتا‘ ہائے بربادی، کاش میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا‘‘۔ بُری صحبت سے اجتناب کے ساتھ ساتھ اچھی صحبت کے اختیار کرنے کے حوالے سے سورہ کہف کی آیت نمبر 28 میں اس امر کا اعلان ہوا کہ ''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ‘ جو صبح و شام اپنے رب کو پکارنے والے ہیں‘‘۔ انسان جب بری صحبت میں بیٹھتا ہے تو لا محالہ اس کے منفی اثرات اس کی شخصیت پر بھی مرتب ہوتے ہیں چنانچہ انسان کو بری صحبت کو اختیار کرنے کی بجائے اہلِ ایمان، اہلِ تقویٰ، فحاشی اور عریانی سے دور رہنے والے پاک دامن اور اچھے کردار کے لوگوں کے ساتھ رفاقت کو اختیار کرنا چاہیے۔
2۔ نمازوں میں دوامت: انسان کو اچھی صحبت کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ احکم الحاکمین کی بارگاہ میں آکر باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ نماز کو ادا کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بارگاہ میں پانچ وقت کی حاضری انسان کو فحاشی اور عریانی سے دور لے جاتی ہے۔ چنانچہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 45 میں اس امر کا اعلان ہوا: ''بے شک نماز فحاشی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ ایک نماز کو ادا کرنے کے بعد دوسری نماز کی ادائیگی کا پختہ ارادہ اور جذبہ انسان کے ذہن میں ایک احتساب کی کیفیت کو پیدا کرتا ہے اور عقل مند اور باشعور انسان اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں آنے سے پہلے یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے اپنے سیرت و کردار کو آلودہ کیا تو کس منہ سے اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہو گا۔
3۔ پردے کا اہتمام اور اختلاط سے بچاؤ: یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد و زن میں ایک دوسرے کے لیے ایک فطری کشش موجود ہے۔ چنانچہ اس فطری کشش کے منفی اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے اللہ احکم الحاکمین نے مرد و زن کو نظریں جھکانے، عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بہترین ٹھکانہ ان کے گھروں کو قرار دیا۔ چنانچہ معاشرے کو بے حیائی اور بدکرداری سے بچانے کے لیے جہاں پر دیگر اقدامات کو کرنا ضروری ہے وہیں پر پردے داری اور اختلاط سے بچاؤ کا التزام اور اہتمام کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کو تعلیم اور مختلف شعبوں میں شمولیت سے روکا جائے بلکہ ان کو ایسا ماحول کو فراہم کیا جائے جہاں پر وہ اختلاط سے بچ کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں بھر پور طریقے سے حصہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی آبرو کا بھی تحفظ کر سکیں۔
4۔ نکاح: اللہ احکم الحاکمین نے مرد و زن کے مابین پائی جانے والی فطری کشش کو خوبصورت انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نکاح کا خوبصورت اور مقدس طریقہ انسانوں کے سامنے رکھا ہے۔ نکاح میں غیر ضروری تاخیر کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہو جانے کے بعد جلد ازجلد ان کا نکاح کر دینا چاہیے۔ بعض لوگ اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اس وجہ سے کئی مرتبہ نکاح کو مؤخر کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کردار میں مختلف طرح کے سقم پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ انسان کو اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی پاک دامنی کے تحفظ کے لیے اوّلین فرصت میں نکاح کر لینا چاہیے۔
5۔ والدین اور اولاد کے درمیان ہم آہنگی: اپنے کردار کو بہتر بنانے کے لیے والدین کو بچوں کی مشغولیات سے اچھی طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ بچوںکی مشغولیات پر نظر رکھنے میں کوئی قباحت نہیں اور اس امر کو بد اعتمادی اور شک کے سبب چھوڑنا درست نہیں۔ والدین کو اپنی معاشی مصروفیات میں ہمہ وقت الجھے رہنے کی بجائے بچوں کے معمولات، ان کی کارکردگی، دلچسپیوں اور رجحانات پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ پاک اور صاف زندگی گزار سکیں۔
6۔ دعا: مذکورہ بالا تمام امور پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کی اصلاح کے لیے اللہ احکم الحاکمین سے دعا کا مانگنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت لوط علیہ السلام نے جہاں پر ہم جنس پرستی اور لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف آنے کی دعوت دی، وہیں پر ان کی بد عملی سے نجات اور بچاؤ کے لیے اللہ سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے دعا بھی مانگی۔ چنانچہ ہمیں بھی اپنے اور اپنے اہل خانہ کو صحیح راستے پر رکھنے کے لیے اللہ رب العالمین سے دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔
اگر ہمارے معاشرے میں شرم وحیا، عفت وعصمت اور پاک دامنی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تو معاشرے میں موجود نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھر پور طریقے سے استفادہ کرکے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حیا اور پاک دامنی والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved