تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-11-2017

مفہوم کی موت

ہر لفظ ایک خاص تصور اور تاثر پیدا کرتا ہے۔ جب بھی ہم کوئی لفظ سنتے ہیں تو ذہن میں ایک خاص تصویر بنتی ہے، ایک منفرد تصور ابھرتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ ہر لفظ کسی نہ کسی تصویر یا تصور ہی کو پیش کرتا ہے۔ یہ تو لفظ کی ابتدائی منزل ہے۔ کوئی بھی لفظ جب اپنے مفہوم یا تصور کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو بہت سے معاملات اُس سے جڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل لفظ کی معنویت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اُس کے دامن کو بھی وسیع کرتا ہے اور پھر یہ ہوتا ہے کہ محض ایک لفظ ہمیں ایک الگ ہی دنیا کی سیر کراتا ہے۔ 
لفظ اپنے بنیادی مفہوم سے ہٹ کر بھی بہت کچھ بتا رہا ہوتا ہے۔ کوئی ایک لفظ بہت سے معاملات سے جُڑا ہوا ہوتا ہے اور جب بھی ہم وہ لفظ سُنتے ہیں تو ذہن میں کئی گھنٹیاں ایک ساتھ بج اٹھتی ہیں۔ ''آس‘‘ ہی کو لیجیے۔ جب ہم یہ لفظ سُنتے ہیں تو ایک طرف اُس آس کے بارے میں سوچتے ہیں‘ جو دل کسی معاملے میں کسی سے لگائے رہتا ہے‘ اور دوسری طرف فلم ''آس‘‘ بھی ذہن کے پردے پر اُبھرتی ہے‘ جسے باکمال موسیقار نثار بزمی مرحوم نے شاہکار دُھنوں اور محمد علی مرحوم و شبنم نے شاندار اداکاری سے سجایا تھا۔ لفظ ''آگ‘‘ پڑھیے تو ذہن میں شعلے سے لپکتے محسوس ہوتے ہیں اور ''دریا‘‘ کانوں میں پڑے تو دور تک پانی دکھائی دینے لگتا ہے۔ اور اگر ''آگ کا دریا‘‘ کہیے تو قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول اور محمد علی و شمیم آراء کی یادگار فلم کے ساتھ ساتھ ذہن کے پردے پر جگرؔ مراد آبادی کا شاہکار شعر بھی ع 
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
لفظ کے ہجے تبدیل نہیں ہوتے مگر تلفظ اور تصور دونوں ہی تبدیلی کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں۔ بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو گزرتے زمانوں کے اثرات قبول کرتے ہوئے کئی مفاہیم اور تصورات اپنے اندر سموتے جاتے ہیں۔ انقلاب کہنے کو ایک لفظ ہے مگر اس چھ حرفی لفظ سے اتنے واقعات جُڑے ہوئے ہیں کہ جب بھی یہ کان میں پڑتا ہے، ذہن کے پردے پر خدا جانے کتنے ہی واقعات ابھرنے لگتے ہیں۔ ڈھائی ہزار سال کی تاریخ میں سب کچھ پلٹنے کے حوالے سے اتنا کچھ کیا جا چکا ہے کہ جیسے ہی لفظ انقلاب کانوں میں پڑتا ہے کئی زمانے دل و دماغ میں طوفان برپا کرنے لگتے ہیں۔ 
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر دل و دماغ پر زیادہ جھٹکے اس وقت لگتے ہیں جب کسی لفظ کو اس کے حقیقی مفہوم، تناظر، تصور سیاق و سباق سے الگ کرکے کسی بے وقعت سے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر کسی معمولی سے واقعے کی بنیاد پر رونما ہونے والی دو ٹکے کی تبدیلی کو انقلاب کہا جائے تو اس جلالی لفظ کا سارا جاہ و جلال دم توڑنے لگتا ہے، اس کے ہر مفہوم، تناظر اور سیاق و سباق کی رگوں میں اندھیرا چھانے لگتا ہے! 
مظلوم ترین الفاظ کی فہرست مرتب کیجیے تو صفِ اول میں ''فلسفہ‘‘ بھی دکھائی دے گا۔ اس لفظ کو یاروں نے اتنا رگڑا دیا ہے کہ اب تو وہ تصورات شرمندگی سی محسوس کرنے لگے ہیں جنہیں فی الواقع بلا خوفِ تردید فلسفہ کہا جا سکتا ہے اور کہا جانا چاہیے۔ ایک دور تھا کہ لوگ زندگی بھر سوچتے رہتے تھے اور جب اپنی مربوط آراء کو ایک پلیٹ فارم پر لاتے تھے تو اُسے فلسفہ قرار دیا جاتا تھا۔ مثلاً سقراط کا فلسفہ، ارسطو کا فلسفہ، افلاطون کا فلسفہ وغیرہ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی کچھ دن تک تھوڑی بہت بک بک کرتا ہے اور پھر کسی نہ کسی طور کسی چینل پر جگہ حاصل کرکے اپنی جہالت سے لوگوں کا دماغ چاٹتا ہے اور پھر کچھ ہی مدت بعد سُننے میں آتا ہے کہ اُس کے الل ٹپ خیالات کو اُس کا فلسفہ قرار دیا جا رہا ہے! جس پِدّی اور اُس کے شوربے کو صدیوں سے مطعون کیا جا رہا ہے اُس کی بھی شاید کچھ وقعت ہو گی اور قدرت نے کوئی مصرف رکھا ہو گا مگر حق یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر بولنے اور لوگوں کا لہو پینے والے کسی کام کے نہیں۔ اب کیا کیجیے کہ اُن کی لایعنی باتوں کو فلسفہ قرار دے کر اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھانے والے گھامڑ بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں! 
''طریقِ زندگی‘‘ سے کھلواڑ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ یہ دونوں الفاظ لوگوں کی زبان پر اس قدر رہنے لگے ہیں کہ اہلِ دانش حیران ہیں کہ ہر معاملہ ''طریقِ زندگی‘‘ کے زمرے میں درج اور شامل کیے جانے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟ اگر کسی کو اُس کی کسی اُول جَلول قسم کی حرکت کی طرف متوجہ کیجیے تو جواب ملتا ہے ''میری تو یہی 'وے آف لائف‘ ہے!‘‘ اب آپ کی مرضی ہے کہ صبر و خون کے گھونٹ پی کر رہ جائیے یا دیوار سے (اپنا) سَر ٹکرائیے! 
گزشتہ دنوں جب نواز شریف نے ایبٹ آباد کے جلسے میں کہا کہ میں ایک نظریہ ہوں اور مریم نواز نے بھی ''تصدیق‘‘ کی کہ ان کے والد اب نظریے میں تبدیل ہو چکے ہیں تو دل و دماغ میں گھنٹے بج اٹھے! میاں صاحب تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے تین مرتبہ ملنے والی وزارتِ عظمٰی کا حق حقیقی معنوں میں ادا کیا یا نہیں یہ ایک الگ اور طویل بحث کا موضوع ہے مگر جو کچھ کہ اُن کی سوچ ہے اور جو کچھ وہ اب تک بیان کرتے رہے ہیں اُسے نظریہ قرار دینا‘ استحقاق سے کچھ زیادہ کی بات ہے۔ ملک کے لیے اُن کے جذبات کیسے ہی خالص ہوں اور ان کے اعمال اگر نیک نیتی ہی پر مبنی رہے ہوں تب بھی اُن کی اب تک کی سوچ کو باضابطہ نظریہ قرار دینے کے لیے جگر نہیں، جگرا درکار ہے۔ 
انصاف کی بات یہ ہے کہ فکر و عمل کے اعتبار سے خاصے طبّاع اور ندرت پسند ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی مجموعی سوچ کو بھی باضابطہ نظریہ قرار دینا ایسی بات ہے جو دھکّے دے کر حلق سے نیچے اتاری جائے تو اور بات ہے، خود سے تو یہ اُتر نہیں سکتی! 
ایم کیو ایم تین عشروں سے جو کچھ کہتی آئی ہے وہ بھی محض ایک نقطۂ نظر یا پھر موقف ہے۔ اردو بولنے والے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے کہی جانے والی تمام باتوں کو مجموعی طور پر نظریہ قرار دینا استحقاق سے زیادہ اور معقولیت سے کچھ پرے کی منزل ہی سمجھا جائے گا! 
کسی بھی معاملے کو نظریہ قرار دینا اُسی وقت ممکن ہے جب اُس کے حوالے سے درجنوں ٹھوس آراء اور دلائل پائے جاتے ہوں اور کسی بھی فورم پر کھل کر بحث کرتے ہوئے اُسے ثابت کرنے کی کوشش سے بھی گریز نہ کیا جاتا ہو۔ نظریات پیش کرنے والی شخصیات زندگی بھر سوچتی رہتی ہیں اور جو کچھ سوچتی ہیں اسے مبسوط و منظم انداز سے پیش کرتی ہیں تب کہیں جا کر دنیا اُسے نظریہ قرار دینے پر آمادہ ہوتی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اپنی سوچ کو یہ شخصیات خود نظریہ قرار نہیں دیتیں۔ یہ کام دوسروں کا ہے۔ اچھا ہے کہ دوسروں کو اُن کا کام کرنے دیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved