دنیا کے کئی دوسرے خطوں کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی مذہبی جنونیت زیادہ پر تشدد ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی سیاست دان لالو پرساد یادیو کے مطابق ''پہلے لوگ شیر سے ڈرتے تھے، اب گائے سے ڈرنے لگے ہیں‘‘۔ اپنی پارٹی راشٹریہ جنتا دَل کی ایک میٹنگ میں لالو جی نے کہا کہ بہار کے سارن ضلع میں سون پور کا میلہ ایشیا کا سب سے بڑا میلہ مویشیاں ہوا کرتا تھا لیکن اب مویشیوں کے ساتھ دیکھے جانے کے ڈر سے اس میلے میں مویشی نظر ہی نہیں آتے۔ لوگ گایوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ آر جے ڈی کے سربراہ نے کہا کہ 2014ء کے چنائو کے تین برس بعد مودی سرکار ''پوری طرح ناکام‘‘ ہو چکی ہے اور جنتا کی بھاری اکثریت کے حالات میں کوئی سدھار نہیں آیا۔
اپوزیشن میں بیٹھی بھارت کی برائے نام لبرل اور ترقی پسند پارٹیوں کی سیکولر ازم اور جمہوریت کے حق میں نعرہ بازی کے باوجود آر ایس ایس کے مذہبی جنونی‘ وزیراعظم کی قیادت میں ہندوتوا بنیاد پرستی کے مظالم بھر پور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سنجے لیلا بھنسالی کی نئی فلم ''پدماوتی‘‘ ہے جس نے ہندو بنیاد پرستوں کو ایک نئے جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔ مذہبی منافرت اور خون خرابے کو بھڑکانے کے لیے وہ ہمیشہ ایسے بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بی جے پی کے مدھیا پردیش کے وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ اگر سنسر بورڈ اسے پاس بھی کر دے تو ان کی ریاست میں اس فلم پر پابندی عائد ہو گی۔
چند ایک سماجی کارکنوں اور فلم انڈسٹری کے افراد کے علاوہ کوئی بھی بڑی پارٹی سنجے لیلا بھنسالی کے ایک فن پارہ تخلیق کرنے کے حق میں کھل کر سامنے نہیں آئی۔ نریندر مودی کی جانب سے ہندو بنیاد پرستوں کی پشت پناہی میں اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ مذہبی جنون کو ابھارنے کے لیے بس ایک افواہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر یہ جنونی ہندو مسلمانوں پر گائے ذبح کرنے کے جھوٹے الزام لگا کر مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کرتے ہیں۔ اب اس فلم کو استعمال کر کے پیٹی بورژوا عوام میں رجعتی جنون کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ فلم میں دکھائی گئی ماضی بعید کی افسانوی داستان کو تاریخی شواہد اور سائنسی بنیاد پر نہ ہی ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے۔
بابری مسجد کو گرانے کے 25 سال پورے ہونے پر وشوا ہندو پریشد کے یوتھ ونگ بجرنگ دَل نے نئے نوجوانوں کو تنظیم میں شامل کرنے کی مہم شروع کی ہے جو 6 دسمبر تک جاری رہے گی۔ 1992ء میں اسی روز ہندوتوا کے جنونیوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کیا تھا اور وہ اسے ''شوریا دیواس‘‘ ( بہادری کے دن) کے طور پر مناتے ہیں۔ اس سال وہ ''سلور جوبلی‘‘ منانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ بجرنگ دل کی ریکروٹمنٹ مہم کے اعلانیہ نعروں اور مقاصد میں ''ہندو قوم کا اتحاد‘‘، ''ہندو مت اور مندر کی حفاظت‘‘، ''گائو ماتا کا تحفظ‘‘، ''بہنوں کو 'محبت کے جہاد‘ سے بچانا‘‘، ''نئی نسل میں 'ہندو مت کے جذبات‘ جگانا‘‘ اور ''ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر‘‘ شامل ہیں۔ ایودھیا میں متنازع جگہ کے قریب ان کے ممبران کی مسلح ٹریننگ کی ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر پھیل چکی ہے۔ مودی کے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد سے ہندو بنیاد پرستوں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں، مظلوم ذاتوں اور غریب عوام کے خلاف تشدد میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ مودی کی نیو لبرل معاشی یلغار نے عوام کو اور بھی مجروح کر دیا ہے۔ 'نوٹ بندی‘ جیسی مہم جوئی سے بھی سماج کی غریب ترین اور مفلوک الحال پرتیں ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
پاکستان میں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایک مذہبی جماعت کے دھرنے کے خلاف آپریشن سے حکومت کی نااہلی اور ریاست کی بے حسی واضح ہو چکی ہے۔ لیکن یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ اقلیتوں، خواتین اور مظلوم طبقات کے خلاف معاشرتی جبر ایک سماجی اور ثقافتی معمول بن چکا ہے۔ دوسری جانب محنت کش طبقے اور غریب عوام کے خلاف ہولناک سماجی اور معاشی 'دہشت گردی‘ جاری ہے۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی قومی بورژوا حکومت بنگالی قوم پرستی کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی بنیاد پرستوں اور نام نہاد سیکولر قوم پرستوں کے درمیان ایک تصادم پیدا کر رہی ہے۔ اس طرح وہ بنگلہ دیش میں سرمایہ داری کے بحران سے جنم لینے والے طبقاتی تضادات کو دبانا اور زائل کرنا چاہتی ہے۔ قومی آزادی سے محنت کشوں بالخصوص خواتین محنت کشوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی اور یہ 'نوزائیدہ‘ بورژوازی ان محنت کشوں کو بیگار جیسی کیفیت میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس آزادی کی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ حکمران مشرقی اور مغربی بنگال کی تقسیم کو بھی ختم نہیں کر پائے۔ ملائوں کے ابھرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ بنگالی بورژوازی حکومت بنگالی عوام کو ذلت محرومی اور استحصال سے نجات دلانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
سری لنکا میںتامل ہندوئوں اور بودھ اسٹ سنہالی ریاست کے مابین مذہبی تصادم اور خونریز خانہ جنگی نے سماج کو برباد کر دیا ہے۔ اب وہاں قبرستان کا سا امن ہے۔ نیو لبرل حکومتوں میں سماجی و معاشی گراوٹ سے سری لنکا کے عام شہریوں کی زندگیاں بدتر ہوئی ہیں۔ ان حالات میں بھلا زخم کیسے بھر سکتے ہیں۔ برما ایک وقت میں متحدہ ہندوستان کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے بعد میں انگریز سامراج نے الگ کر دیا۔ وہاں بھی ایسا ہی مذہبی جبر و تشدد جاری ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کی تازہ ترین لہر روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی اور نسل کشی ہے اور یہ سب مغرب کی ہیروئن اور امن کا نوبیل انعام پانے والی آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت میں ہو رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد متحدہ بر صغیر کے ٹکڑے کر کے ان ممالک کو مسخ شدہ آزادی دی گئی۔ تب سے مظلوم طبقات کی اذیتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بنیاد پرست قوتوں کے ابھار کی بڑی وجہ نئی قومی بورژوازی کی ریاست اور سماج کو ترقی دینے میں ناکامی ہے۔ آبادی کی وسیع اکثریت کا مستقبل تاریک ہے اور نوجوانوں کو امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ جب عوامی تحریکیں موجود نہ ہوں تو ان ادوار میں امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔ اس مایوسی سے نوجوان، بالخصوص درمیانے طبقے کے نوجوان نصابی کتابوں اور عوامی نفسیات پر ریاست اور کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے مسلط کردہ 'عظمت رفتہ‘ کی داستانوں کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ آگے چل کر دہشت گردی، تعصب، مذہبی منافرت اور رجعتی ذہنیت کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ لیکن ان تمام خطوں میں انقلابی تحریکوں اور طبقاتی جدوجہد کی شاندار روایات موجود ہیں۔ طبقاتی تضادات ایک مرتبہ پھر سے پھٹیں گے۔ ایک انقلابی تحریک کو اس نظام اور اس کے ڈھانچوں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو اس دنیا کی انتہائی مالا مال تہذیبوں کے مسکن کو تاراج کر رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد متحدہ بر صغیر کے ٹکڑے کر کے ان ممالک کو مسخ شدہ آزادی دی گئی۔ تب سے مظلوم طبقات کی اذیتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بنیاد پرست قوتوں کے ابھار کی بڑی وجہ نئی قومی بورژوازی کی ریاست اور سماج کو ترقی دینے میں ناکامی ہے۔ آبادی کی وسیع اکثریت کا مستقبل تاریک ہے اور نوجوانوں کو امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ جب عوامی تحریکیں موجود نہ ہوں تو ان ادوار میں امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔