تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-11-2017

علی اکبر ناطق کے افسانے

''شاہ محمد کا تانگہ‘‘ یہ شاعر‘ نقاد اور فکشن رائٹر علی اکبر ناطق کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے جسے سانجھ لاہور نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب سید گلزار حسین کے نام سے ہے جو اوکاڑہ ہی کے ایک ممتاز فکشن رائٹر اور سفر نامہ نویس ہیں۔ پس سرورق مصنف کی تصویر ہے اور مختصر تعارف جس میں مصنف لکھتے ہیں:
''احباب‘ اپنے افسانوں کے بارے میں کیا لکھوں! ہاں‘ یہ ضرور ہے کہ کچھ عرصہ پہلے افتخار عارف نے مجھے ''اکادمی ادبیات‘‘ میں اپنے زیر سایہ لیا تو میری خوش بختی کا آغاز ہو گیا۔ 2010ء میں شاعری کی پہلی کتاب ''بے یقین بستیوں میں‘‘ چھپی۔ قائم دین (افسانے) 2014ء میں ''نولکھی کوٹھی‘‘ (ناول) اور اب ''شاہ محمد کا تانگہ‘‘ (افسانے) آپ کے سامنے ہے۔ مجموعی طور پر یہ میری ساتویں کتاب ہے۔ یہ کیسی ہے اور میں کہاں تک کامیابی کی سفر کو برقرار رکھ سکا ہوں‘ یہ فیصلہ آپ کریں گے‘‘۔
فکشن ایک عرصے سے میری چائے کی پیالی نہیں ہے لیکن علی اکبر اتنا چالاک آدمی ہے کہ پہلے اس نے بہلا پھسلا کر مجھے کوئی تین چار سو صفحات پر مشتمل ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ مجھے پڑھوا دیا اور اب یہ افسانے‘ لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے فکشن بھی پڑھنی چاہیے ورنہ میں نے شاید آخرمیں ناول انتظار حسین کا ''آگے سمندر ہے‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا ''بہائو‘‘ پڑھا تھا اور اب مجھے مزید فکشن پڑھنی پڑے گی۔ یعنی ؎
دیں ہم اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر
اس سمارٹ سے مجموعے میں 13 افسانے شامل ہیں۔ اگرچہ 13کا عدد منحوس شمار کیا جاتا ہے لیکن یہاں آ کر یہ خاصا مبارک محسوس ہو رہا ہے کیونکہ اس میں سات آٹھ بے حد عمدہ افسانے موجود ہیں جن میں ''کت‘ جیرے کی روانگی‘ الہ دین کی چارپائی‘ زیارت کا کمرہ‘ پانڈو کے‘ گرو‘ سیاہ ٹھپہ اورتحفہ‘‘۔
سعادت حسن منٹو سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ افسانے کیسے لکھتے ہیں تو منٹو نے جواب دیا کہ افسانہ تو میری جیب میں ہوتا ہے۔ پس میں نے اسے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ یہی بات نظم یا غزل کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ البتہ شاعری کا تعلق زیادہ تر جذبات کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ افسانے کا بنیادی طور پر تعلق مشاہدے سے ہے کیونکہ افسانے آپ کے چاروں طرف بکھرے ہوتے ہیں اور افسانہ نگار کو اپنا مواد اپنے اردگرد سے بھی مل جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کا مشاہدہ کس قدر گہرا اور تیز ہے۔
یہاں فرداً فرداً افسانوں کا تجزیہ یا جائزہ لینا مشکل ہے‘ ماسوائے اس کے کہ مصنف کے مشاہدے کی صورتحال کیا ہے اور اس میں بیان کرنے کی طاقت اور صلاحیت کس حد تک ہے۔ علی اکبر ناطق کو جہاں زبان پر خاصا عبور حاصل ہے وہاں ان کا طرز بیان بھی عام فہم اور دلکش ہے اور قاری آخر تک افسانے کی گرفت میں رہتا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ کہانی تجرید کی بھول بھلیوں سے نکل آئی ہے اور اس میں کہانی پن عود کر آیا ہے اور قاری افسانے سے باقاعدہ لطف اندوز ہونے لگا ہے بشرطیکہ یہ پھر اسی طرف واپس چلی جائے۔
افسانہ ''شاہ محمد کا تانگہ‘‘ بدلتی ہوئی سماجی صورتحال کو پیش کرتا ہے جہاں رکشے تانگوں کی جگہ لے لیتے ہیں اور ایک بہت پرانا نہ کلچر صرف تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ ہم اس سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ ''کت‘‘ میں ایک منفی جذبے کو مثبت جذبے میں بڑی مہارت سے تبدیل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کتاب کا سب سے موثر اور بڑا افسانہ ''زیارت کا کمرہ‘‘ ہے جو یقینا دنیا کے بڑے افسانوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے اور فرقہ بندی ملک عزیز میں کہاں کہاں اور کس حد تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ علی اکبر ناطق اس افسانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ افسانے کا بیانیہ مصنف کے اپنے نظریے سے متصادم ہے لیکن اس کے باوجود نہایت دلیری کے ساتھ ایک ایسا افسانہ تخلیق کیا گیا ہے جو اپنی جگہ پر ایک شاہکار حیثیت رکھتا ہے۔
اس افسانے میں ایک پیغام بھی ہے کہ فرقہ واریت کے نقصانات سے بچنا کس قدر ضروری ہے جو جسد قوم کو گھٹن کی طرح کھائے چلا جا رہا ہے اور ادب کے ذریعے معاشرے میں خاصی حد تک مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور افادی ادب کا ایک خوبصورت رخ یہ بھی ہے اور ملکی ادیبوں کیلئے یہ افسانہ ایک دعوت فکر بھی ہے کیونکہ ادب جس حد تک بھی برائے ادب کیوں نہ ہو‘ اس کی مقصدیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
علی اکبر ناطق نے جس مختصر عرصے میں اپنی پہچان قائم کی ہے اور بڑے بڑوں سے اپنا اعتراف کروایا ہے وہ خوش آئند بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اوکاڑہ ہی کے ایک اور سپوت محمد حنیف فکشن میں غیر ملکی سطح پر بھی اپنا دھاک بٹھاچکے ہیں۔ ان کے انگریزی ناول بین الاقوامی سطح پر اپنا ڈنکابجا چکے ہیں بلکہ نیویارک ٹائمز وغیرہ میں ان کے فکر انگیز تجزیے بجائے خود ایک قابل فخر کارنامے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ سید گلزار حسنین کا تعلق بھی اوکاڑہ ہی سے ہے‘ ملکی سطح پر جن کا اعتراف کیا جاچکا ہے اور اوکاڑہ ان تینوں پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہے!
پاکستان میں شاعری کے حوالے سے معاملات اوپر نیچے رہتے ہیں اور اپنے پائوں پر بھی کھڑے ہوتے نظر آتے ہیں‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ز یادہ تر منظر فکشن نے سنبھال رکھا ہے اور اس کتاب کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سعیٔ مسعود پر میں اس نوجوان کو مبارکباد پیش کرنے میں کوتاہی نہیں کرنا چاہتا ۔ ؎
ایں کاراز تو آیدو مرداں چنیں کنند
آج کا مطلع
ہم تو جو ہیں‘ جہاں سے آئے ہیں
آپ لیکن کہاں سے آئے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved