دنیا پل پل بدل رہی ہے۔ اور تبدیلی کا عمل کچھ ایسے انوکھے انداز سے جاری ہے کہ اپنے ارد گرد طرح طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا کہ واقعی سب کچھ بدلتا جارہا ہے۔ تبدیلیوں کے رونما ہوتے رہنے ہی کا یہ ''کمال‘‘ ہے کہ صحیح اب غلط اور غلط صحیح میں تبدیل ہوچکا ہے اور تقریباً سب نے اِس حقیقت کو تسلیم اور ہضم بھی کرلیا ہے۔
کل تک جن باتوںکو یکسر ناقابل قبول قرار دے کر مسترد کردیا جاتا تھا وہی تمام باتیں اب زندگی کا حصہ ہیں کیونکہ جدت، جدت پسندی اور فیشن کا یہی تقاضا ہے۔ کھانے پینے ہی کے معاملات کو لیجیے۔ جن بے ڈھنگی چیزوں کو کل کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا تھا وہ اب فیشن میں شامل ہوکر بڑی شان کے ساتھ دستر خوان کی زینت ہیں۔ دنیا بھر میں کچھ بھی بخوشی کھانے کا رواج بہت تیزی سے فیشن کا درجہ حاصل کرتا جارہا ہے۔
فن لینڈ کی ایک فوڈ کمپنی نے بہت جلد ایسی ڈبل روٹی متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جس میں ''جھینگر کا گوشت‘‘ شامل ہوگا۔ یہ جھینگر بریڈ خاصی مہنگی ہوگی یعنی چار یورو تک میں دستیاب ہوگی۔ ایک بریڈ کے پیڑے میں کم و بیش 70 بُھنے ہوئے جھینگروں کا پاؤڈر ملایا جائے گا۔ متعلقہ فوڈ کمپنی کا کہنا ہے جھینگر والی بریڈ ذائقے میں منفرد اور غذائیت کے اعتبار سے بلند تر معیار کی حامل ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ اس بریڈ کے ذریعے لوگوں کو کیڑوں مکوڑوں کے لحمیاتی اجزاء والی اشیائے خور و نوش کی طرف متوجہ ہونے کی تحریک بھی ملے گی۔
کیڑوں سے ''مزیّن و آراستہ‘‘ خوراک تیار اور فروخت کرنے والے یورپی ممالک میں فن لینڈ چھٹا ہوگا۔ برطانیہ، ہالینڈ، بیلجیم، آسٹریا اور ڈنمارک میں کیڑوں مکوڑوں کے ''لحمیاتی اجزائ‘‘ کی حامل اشیائے خور و نوش آسانی سے دستیاب ہیں۔
انٹ شنٹ اشیاء کھانے کے معاملے میں مشرقِ بعید کے ممالک کے معاشروں کا کوئی جواب نہیں۔ سانپ، چوہے، بندر، کتے، بلی، لال بیگ، جھینگر، ٹڈی ... سبھی کچھ چٹ کر جانے کے معاملے میں مشرقِ بعید کے معاشروں کا کوئی جواب نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں مچھلی، جھینگے وغیرہ سُکھاکر فروخت کیے جاتے ہیں بالکل اُسی طور چین، جاپان، کمبوڈیا، ویتنام، لاؤس، تھائی لینڈ اور دیگر بہت سے ممالک میں بُھنے ہوئے لال بیگ، جھینگر وغیرہ آسانی سے دستیاب ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ لال بیگ، جھینگر، ٹڈی وغیرہ میں لحمیات غیر معمولی حد تک پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو یہ چیزیں کھائے گا وہ زیادہ طاقت پائے گا۔ یہ نکتہ مشرقِ بعید کے لوگوں نے دانتوں سے پکڑ لیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سانپ، بندر، چوہے، کتے یا بلی کے گوشت میں بھی زیادہ غذائیت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ مگر بہر حال یہ تمام بے زبان بھی کھانے پینے کے فیشن میں نمایاں طور پر in ہیں۔
فن لینڈ میں جھینگروں کو زیادہ باقاعدگی اور حُسن انتظام کے ساتھ خوراک کا حصہ بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ جھینگر والی ڈبل روٹی تیارکرنے کا عمل چونکہ ''آئی ایس او سرٹیفکیشن‘‘ کی چھتری تلے ہے اس لیے معیاری کہلائے گا اور واہ واہ بھی سمیٹے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک زمانے سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے مگر چونکہ ہمیں ''پریزنٹیشن‘‘ کا ہنر نہیں آتا اس لیے دنیا ہمارے ''کمالات‘‘ سے واقف ہی نہیں! دنیا بھر میں لایعنی چیزیں کھانے کا رواج تیزی سے پنپ رہا ہے۔ کئی زمانوں سے ہم بھی اِسی روش پر گامزن ہیں اور بہت سے معاملات میں تو pioneer کا درجہ رکھتے ہیں مگر ہم بتائیں گے تبھی تو دنیا کو پتا چلے گا۔ پاکستانیوں کو ایسی اشیاء کھاتے اور پیتے زمانے گزر چکے ہیں جن میں حشرات الارض کے اجزاء اِس طور شامل ہوتے ہیں کہ اُنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے ہاں کسی ڈبل روٹی یا کیک سے ایک آدھ کیڑے مکوڑے کی باقیات نکل آئیں تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ اور دوسری طرف فن لینڈ والوں کا فن دیکھیے کہ ڈبل روٹی میں باضابطہ طور پر 70 جھینگروں کا پاؤڈر شامل کیا جائے گا اور لوگ بخوشی کھائیں گے! سچ ہے جناب کہ بڑوں کی ہر بات بڑی۔ کوئی تسلیم شدہ استاد اگر ذرا سا بے سُرا بھی گا بیٹھے تو لوگ بے سُرے پن کو بھی سراہتے ہیں! بھرپور ایڈوانٹیج والی پوزیشن میں ہونے کا یہی تو سب سے بڑا فائدہ ہوا کرتا ہے کہ غلط کو بھی لوگ غلط قرار دینے سے ڈرتے ہیں!
ہمارا ایک کمال البتہ لاجواب ہے۔ یہ کہ کسی بھی معاملے میں دلیل اور جواز پیش کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اُدھر کسی نے کوئی اعتراض داغا اور اِدھر دلیل حاضر ہے۔ مثلاً ایک صاحب نے پانی کے محکمے کے افسر سے کہا کہ ہمارے علاقے میں صحت کا ستیاناس کرنے والا پانی فراہم کیا جارہا ہے، اُس میں کیڑوں کی بہتات ہے۔ جواب ملا کہ جس پانی میں کیڑے پروان چڑھ کر صحت مند ہوتے جارہے ہیں وہ مُضر کیسے ہوسکتا ہے! ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی!
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ کوئی ایسی ویسی چیز لوگوں کو کھلائی دی جائے تو زندگی اور موت کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ اُدھر مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کیڑوں مکوڑوں کو یومیہ خوراک کا حصہ بنانے پر کمر بستہ ہیں اور اُنہیں سراہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہم بھی ایک زمانے سے یہی کچھ کر رہے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ ''اسٹینڈرڈ پروسیجر‘‘ کو فالو نہیں کر رہے اِس لیے کوئی ہماری طرف دیکھنے ماننے اور سراہنے کو تیار نہیں! سارا کھیل اسٹینڈرڈائزیشن، پریزنٹیشن اور سرٹیفکیشن کا ہے۔ زمانہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ جو کچھ بھی جی آئے کیجیے، بصد شوق کیجیے مگر صرف ایک بات کا دھیان رکھیے ... یہ کہ سب کچھ طے اور تسلیم شدہ طریق کار کے مطابق ہو۔ مال کیسا ہی اچھا ہو، اگر پیکنگ یا پیکیجنگ ڈھنگ کی نہ ہو تو لوگ دوسری نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں کھلانے والے کھانے پینے کی اشیاء میں کیڑے مکوڑے اور پتا نہیں کیا کیا الا بلا ملاتے رہے ہیں اور کھانے والے کھاتے رہے ہیں۔ مگر یہ پورا عمل داد اور ستائش سے یکسر محروم ہے۔ کیوں نہ ہو؟ اسٹینڈرڈ طریقہ جو نہیں اپنایا جارہا!
پیٹ بھرنے کے لیے الّم غلّم یعنی کچھ بھی کھانے کا معاملہ ہمارے ہاں بہت حد تک تسلیم شدہ طریق کار رہا ہے یعنی اِسے غیر اعلانیہ طور پر ''اسٹینڈرڈ پروسیجر‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ کسر صرف اتنی رہ گئی ہے کہ ہم نے اپنی دکان سجانے پر توجہ نہیں دی اس لیے گاہک آتے نہیں اور سراہتے نہیں۔ لوگ جھینگر والی ڈبل روٹی بنانے اور کھلانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں اور ایک ہم ہیںکہ یہی سب کچھ کھاتے ہوئے بھی اب تک ''نیک نامی‘‘ کی منزل سے بہت دور ہیں۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے!
کہانی صرف اتنی ہے کہ اگر کچھ غلط بھی کرنا ہے تو دنیا کے تسلیم شدہ راستے پر چلتے ہوئے کیجیے ورنہ آپ تسلیم کیے جانے کی منزل سے بہت دور رہیں گے۔ اگر ایسا نہیں کرنا یعنی غلط کو درست تسلیم نہیں کرانا تو پھر غلط کو ترک کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ مفت کی بدنامی مول لینے سے فائدہ؟