تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-11-2017

دریائے وادی الکبیر کے کنارے پر ٹھہرا ہوا وقت

قرمونہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے‘ لیکن اندلس کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل۔ عبدالرحمان الداخل 731ء میں دمشق میں پیدا ہوا۔ وہ اموی خلیفہ ہشام ابن عبدالمالک کا پوتا تھا۔ 748ء میں ہونے والے عباسی انقلاب میں سارا اموی حکمران خاندان مارا گیا۔ عبدالرحمان‘ اس کا بھائی یحییٰ اور بہنیں کسی طرح بچ گئیں۔ عباسیوں نے بچے کھچے امویوں کو قتل کرنے کے لئے دستے بنا کر سلطنت میں چاروں طرف پھیلا رکھے تھے‘ جو ہر اس شخص کو نہایت بے دردی سے قتل کر رہے تھے‘ جن کا اموی حکمران خاندان سے تھوڑا بہت بھی تعلق تھا۔ عبدالرحمان اپنے بھائی‘ چار سالہ بیٹے سلیمان اور وفادار ملازم بدر کے ساتھ اپنی بیوی‘ بہنوں کو اور خاندان کی دیگر خواتین کو لے کر دریائے فرات کے ساتھ ساتھ چھپ کر سفر کر رہا تھا۔ اسے پتہ چلا کہ کچھ قاتلوں نے ان کا سراغ لگا لیا ہے۔ وہ خواتین کو ایک محفوظ مقام پر چھپا کر اپنے بھائی اور ملازم بدر کے ساتھ نکلا ہی تھا کہ انہیں عباسیوں کے ایک فوجی دستے نے آ لیا۔ عبدالرحمان‘ یحییٰ اور بدر نے دریائے فرات میں چھلانگ لگا دی۔ کنارے پر کھڑے عباسی فوجی دستے نے انہیں واپس آنے کیلئے کہا‘ اور جان بخشی کا وعدہ کیا۔ یحییٰ چھوٹا تھا‘ ڈوبنے کے خوف سے واپس جانے لگا۔ عبدالرحمان نے اپنے بھائی کو روکا اور کہا کہ یہ لوگ تمہیں قتل کر دیں گے مگر یحییٰ کا سانس پھول چکا تھا۔ وہ واپس چلا گیا‘ جہاں فوجیوں نے اس کا سر فوری طور پر قلم کر دیا‘ سر اپنے ساتھ لیا تاکہ اسے دکھا کر انعام حاصل کریں‘ اور جسم وہیں دریا کے کنارے چھوڑ گئے۔
عبدالرحمان کسی طرح چھپتا چھپاتا افریقہ پہنچ گیا اور اپنی ماں کے بربر قبیلے نفضہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر اندلس جا پہنچا۔ تب عبدالرحمان کی عمر 20 برس تھی۔ اگلے چار برس بڑے کٹھن تھے۔ اس نے ان چار برسوں میں مالاگا فتح کیا‘ اشبیلیہ پر قبضہ کیا‘ اور بالآخر قرطبہ پر اپنا قبضہ مستحکم کیا۔ ان چار سالوں میں وہ مسلسل قرطبہ کے حکمران یوسف ابن عبدالرحمان الفہری سے نبرد آزما رہا۔ بالآخر ٹولیڈو کی جنگ میں یوسف مارا گیا۔ اس کا سر قلم کرکے دریا کے پل پر لٹکا دیا گیا۔ مئی 756ء میں عبدالرحمان نے امیر کا لقب اختیار کیا اور اندلس کی سلطنت کا مالک بن گیا۔ یہ چیز عباسی خلیفہ المنصور کیلئے ناقابل برداشت تھی۔ اس نے عبدالرحمان کی سرکوبی کیلئے افریقہ کے گورنر الاعلیٰ ابن مغیث کو اندلس بھجوا دیا۔ سات ہزار کے لشکر کے ساتھ ابن مغیث اندلس پہنچا اور عبدالرحمان کو قرمونہ کے قلعے میں گھیر لیا۔ محاصرہ دو ماہ جاری رہا۔ اس دوران قلعے میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ فوج میں بے دلی پھیلتی اور بھوک پیاس شروع ہو جاتی‘ عبدالرحمان نے سات سو چنیدہ سپاہیوں کے ساتھ باہر نکل کر عباسی فوج پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ دو ماہ سے محاصرے میں رہنے والی عبدالرحمان کی فوج سے کسی کو امید ہی نہ تھی کہ وہ باہر نکل کر اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر پر حملہ آور ہو سکتی ہے‘ مگر ایسا ہوا۔ عباسی فوج اس اچانک حملے کیلئے تیار نہ تھی؛ چنانچہ اس حملے نے نہ صرف ان کے پائوں اکھاڑ دیے بلکہ بیشتر فوج لڑے بغیر افراتفری میں ہی ماری گئی۔ عبدالرحمان نے عباسی فوج کے سرداروں کے سر کٹوائے‘ انہیں نمک لگا کر محفوظ کیا‘ ان کے کانوں کے ساتھ ناموں کی پرچیاں لگا کر انہیں تھیلے میں ڈلوایا اور حج پر مکہ آئے ہوئے خلیفہ المنصور کے محل کے باہر پھینکوا دیا۔ ان سروں کو دیکھ کر المنصور کو یوسف کی فوج کی شکست‘ اور فوج کے سرداروں کا حال معلوم ہو گیا۔ خوفزدہ منصور کے منہ سے ایک جملہ نکلا‘ جو اس کے ڈر کا مظہر تھا۔ یہ جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس نے کہا ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرے اور اندلس کے عقاب کے درمیان سمندر حائل کر رکھا ہے‘‘۔ قرمونہ میں عبدالرحمان کی فتح نے اس کی اندلس کی امارت پر مہر ثبت کر دی۔ عبدالرحمان نے اگلے بتیس سال اور اس کی آئندہ نسل نے 1031ء تک اندلس پر حکومت کی۔ یہ کل 275 سال بنتے ہیں‘ مگر امویوں نے 756ء سے لے کر 1031ء تک 269 سال حکومت کی۔ 1017ء سے لے کر 1023ء تک کے چھ سال حمودی خاندان نے قرطبہ کی امارت پر قبضہ کر لیا‘ جو عبدالرحمان چہارم نے واپس حاصل کر لیا‘ مگر یہ سب کچھ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور اموی خلافت دوبارہ حاصل کرنے کے محض آٹھ سال بعد 1031ء میں نہ صرف ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی۔ قرطبہ کی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی اندلس پر مسلمانوں کی ایک حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ پورا اندلس چھوٹی چھوٹی طائفہ ریاستوں میں تقسیم ہو گیا اور 1492ء میں یہ اقتدار غرناطہ کے سقوط کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچا‘ اور اندلس پر مسلمانوںکے اقتدار کے 786 سال کی کہانی ختم ہوئی۔
اب باقی صرف آثار ہیں۔ مسجد قرطبہ‘ جو اب کیتھیڈرل ہے۔ القصر‘ جو ٹکٹ دے کر دیکھا جا سکتا ہے۔ قرطبہ کا شاہی اصطبل‘ جس میں گھوڑوں کا تھان مفت دیکھا جا سکتا ہے‘ باقی عمارت پر ٹکٹ ہے۔ قرطبہ سے تیس میل دور ایک پہاڑی پر ''المدور‘‘ نام کا قلعہ موجود ہے‘ جو کسی نے خرید لیا ہے‘ اور اس پر بھی ٹکٹ ہے۔ شہر سے پانچ سات میل دور ''مدینۃ الزہرا‘‘ کے کھنڈرات ہیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں اسلام آباد جیسا شہر بسانے کا خواب‘ جس میں حکمران رہیں اور ان کے ملازمین۔ عام آدمی قرطبہ میں رہے۔ حکمرانوں کو اس شہر میں چار دن بھی رہنا نصیب نہ ہوا۔ بربروں نے اس شہر کو لوٹا اور آگ لگا دی۔ مالاگا کا قلعہ ہے‘ جو آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اشبیلیہ کا جیرالڈا ہے اور گول سا مینار جسے ہسپانوی میں Torre del oro اور انگریزی میں Tower of Gold کہتے ہیں۔ یہ درحقیقت گول نہیں‘ بارہ پہلو پر مشتمل واچ ٹاور ہے جو الموحد خاندان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ دریائے وادی الکبیر کے کنارے ہے۔ اس کے ساتھ آٹھ پہلوئوں والا Torre de la plata یعنی Tower of Silver ہے‘ جو اسی دور میں بنا۔ اشبیلیہ کا ''القصر‘‘ ہے۔ القصر نامی عمارت تو بہت سے شہروں میں باقی ہے۔ المیریا میں‘ میریڈا میں‘ ایلی کانٹے میں‘ باداجوز میں‘ جیریز ڈی لا فرونٹیرا میں۔ ساراگوسا میں الجعفریہ محل۔
مالاگا میں جبل الفارو کا قلعہ۔ انٹی کویرا کا قلعہ۔ رونڈا کا محل۔ کاسٹیلوڈی سانٹا کاٹالینا۔ جین سٹی کا محل اور دیگر بے شمار عمارتیں جو اب بپتسمہ دے کر عیسائی بنا دی گئی ہیں۔ سب پر ٹکٹ ہے۔ دنیا بھر سے سیاح وہاں آتے ہیں۔ سیاحت اب سپین کی بہت بڑی انڈسٹری اور ذریعہ آمدنی ہے۔
دن ڈھلے ہم قرطبہ پہنچے تو فیاض بٹ ہمارا منتظر تھا۔ سامان ہوٹل میں رکھا‘ نہا کر تازہ دم ہوئے اور شہر کو چل پڑے۔ میرے لئے اس شہر کی سب سے بڑی کشش مسجد قرطبہ ہے مگر اب وہ بند ہو چکی تھی۔ سو شہر کا چکر لگانے کا ارادہ کیا اور چل پڑے۔ سب سے پہلے پرانے شہر کے آثار کے ساتھ ابن حزم کا مجسمہ تھا۔ ابو محمد علی ابن احمد ابن سعید ابن حزم۔ شاعر‘ تاریخ دان‘ قانون دان‘ فلاسفر‘ عالم دین اور بلند پایہ دانشور۔ ساتھ ایک پرانے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو جدید طرز کے مکانات تھے۔ ان میں ایک گھر کے ''پاتیو‘‘ کو دیکھا۔ پاتیو گھروں کے اندر چھوٹی سی جگہ میں دیوار کے ساتھ لگائے گئے پودوں اور دیواروں پر لٹکائے گئے گملوں سے بنایا جانے والا باغیچہ ہے۔ قرطبہ میں مسلمانوں کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ ایک اندھیرے سے باغ میں لگا ہوا الحکم اول کا مجسمہ دیکھا۔ ایک گلی میں مشہور یہودی طبیب المیمون کا مجسمہ اور القصر کی دیوار کے ساتھ نسبتاً پُررونق جگہ پر لگا ہوا‘ سفید پتھر سے بنا ہوا ابن رشد کا مجسمہ۔ ساتھ ہی ایک کیفے تھا۔ وہاں بیٹھ کر کافی پی اور اندلس کے سنہرے دور کو یاد کیا۔ نتیجہ یہی نکلا کہ جب مسلمان دنیاوی علوم میں دنیا کی قیادت کرتے تھے تب ہی وہ حکمرانی بھی کرتے تھے اور جیسے جیسے دنیاوی علوم میں‘ سائنس میں‘ تعلیم میں اور عمل میں پیچھے ہٹتے گئے‘ سب کچھ ہاتھ سے نکلتا گیا۔ اسی اندلس میں عباس ابن فرناس تھا۔ ال زرقلی تھا۔ الزہروی‘ ابن شہید‘ ابن زہر‘ ابن الخاطب‘ ابن رشد‘ ابوبکر محمد ابن الولیدالطرطوشی‘ علی ابن حزم‘ ابوالحسن ابن علی القلاساوی اور بے شمار دیگر سائنسدان‘ ماہر نجوم‘ ریاضی دان‘ ماہر کیمیا‘ ماہر طبعیات‘ ماہر طب‘ فلاسفر اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ تب حکومت بھی تھی اور علمی امامت بھی۔ دریائے وادی الکبیر کے پار سے رومی پل کے دوسرے سرے پر کھڑے ہو کر پیلی روشنی میں اداس کھڑی مسجد قرطبہ پر نظر پڑی۔ دل اداس ہو گیا۔ ویسی ہی اداسی جیسی دس بارہ سال پہلے دل میں سے اٹھی تھی۔ دس بارہ سال میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ دریائے وادی الکبیر کی روانی۔ نہ مسجد کی اداسی اور نہ دل کی۔ وقت جیسے ٹھہر سا گیا ہے۔ لیکن وقت بھلا کب ٹھہرتا ہے؟ جب ہم اور وقت ایک رفتار سے چلتے ہیں تو وقت ٹھہرا سا لگتا ہے۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے اور صرف اسی تک کیوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved