انگریز حکمرانوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں مقامی آبادی کو جس بے رحمانہ طریقے سے کچلا‘ اس کی کہانیاں آج کی نسلوں کو یاد نہیں۔کیونکہ گورے حکمران‘ خود مقامی لوگوں پر ظلم نہیں کرتے تھے۔ چھوٹی موٹی ٹھوکر لگانا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی کو کچلنے‘ مار نے یا قتل کرنے کی سزا پر عملدرآمد کرانا مقصود ہوتا تو یہ بے ہودہ کام‘ پسماندہ مقامی قبیلوں سے لیا جاتا۔ ہندو سیٹھوں اور زمینداروں کو دیہی علاقوں میں من مانیاں کرنے کی آزادی تھی۔ ان کے نوکر چاکر‘ مسلمانوں اور دلت قوم سے تعلق رکھنے والوں کو‘ اکثر اوقات بے رحمانہ سزائیں بھی دیتے۔ یہی حال اچھوتوں کا تھا اور ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اتنی رعایت ضرور تھی کہ انہیں محنت مزدوری یا کاشت کاری کے کام دے دئیے جاتے لیکن دلت عورتوں اور مردوں کو اپنی پیٹھ سے بندھے‘ جھاڑو دیتے ہوئے گلیوں سے گزرنا پڑتا۔ جیسے ہی وہ چلتے‘ گلی میں جھاڑو پھرتا جاتا۔ آج ہمیں اپنی شہری آبادی بظاہر محفوظ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ سندھ‘ بلوچستان اور کے پی میں غریبوں پر جو گزرتی ہے‘ اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ جن علاقوں کا میں نے ذکر کیا‘ ان میں جنوبی پنجاب بھی شامل ہے۔ حال میں ایک خبر آئی کہ ایک غریب لڑکی کو اٹھا کر‘ اوباش غنڈوں نے اپنے عشرت کدے میں قید کیا اور قریباً تین ماہ کے بعد‘ دل بھر گیا تو گائوں کے قریب چھوڑ آئے۔
مختاراں مائی کا قصہ تو ملکی اور عالمی میڈیا میں نمایاں طور سے شائع ہوا۔ پسماندہ دیہات میں‘ یہ رواج عام ہے کہ کسی غریب کے گھر جوان بچی دکھائی دے جائے تو اسے جبراً اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا غنڈوں اور بدمعاشوں کے جرائم میں شامل ہے۔ اجتماعی طور سے لڑکیوں پر جو ظلم ڈھائے جاتے ہیں‘ ان کی پوری تفصیل سننا عام آدمی کے اختیار میں نہیں۔ غریب اور مظلوم لڑکیوں پر ہونے والے مظالم دیکھ کرکلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے پسماندہ علاقوں میں اگر جاگیرداروں اور وڈیروں کے لڑکے‘ کسی نوجوان لڑکی کو زبردستی اپنے گھر میں رکھنے کا فیصلہ کر لیں تو بعد میںغریب والدین کے گھر رشتہ بھیجا جاتا ہے۔ اگر والدین انکار کر دیں تو پھر وڈیروں کا بھرتی کیا ہوا‘ بدمعاشو ں کا گروہ‘ زبردستی دن دہاڑے لڑکی کو اٹھا لاتا ہے اور جب تک دل نہ بھر جائے اسے واپس نہیں کیا جاتا۔ جب پنجاب ‘ سندھ اور بلوچستان میں غنڈہ گردی اور زبردستی نہیں پائی جاتی تھی‘ اس وقت تک وَنی‘ شرافت اور روایات کے پردے میں چھپا ہوا ہتھیار تھا۔ مذکورہ صوبوں میں اس قدیم رسم کو خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان دشمنی اور کشیدگی ختم کرنے کے لئے‘ پنچایت یا جرگہ کی آڑ میں‘ کم سن
لڑکیوں کو اپنے گھر لے جانے کے لئے رشتہ مانگ لیا جاتا۔ لیکن یہ ''مانگنا‘‘ محض ایک رسم ہے جو پرانے دور میں قدرے رکھ رکھائو سے‘ پوری کی جاتی اور آج کل وہی ہوتا ہے جو مختاراں مائی کے ساتھ ہوا۔ ورنہ عام طور پر باہمی دشمنی ختم کرنے کے لئے‘ کمزور قبیلے کی کم سن لڑکیاں‘ بڑی عمر کے لوگوں سے بیاہ دی جاتیں۔ یہی اصل ونی ہوتی ہے۔ بعض اوقات دو خاندانوں کی باہمی رنجش''دور‘‘ اور بھائی چارہ ''قائم‘‘ کرنے کے لئے‘ کمزور قبیلے کی لڑکی کا ''رشتہ‘‘ طاقت کی نمائش کر کے مانگ لیا جاتا اور پھر انکار ہونے پر اسے زبردستی اٹھا لیا جاتا۔
پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی رسمیں کم و بیش ملتی جلتی ہیں۔ کے پی میں یہی رسم ''سوارہ ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں رقم کا لین دین بھی ہوتا تھا مگر اب ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ روایت ہے کہ مغل بادشاہ‘ جلال الدین اکبر کے عہد میں‘ مسلمانوں کی ونی‘ سوارہ اور ہندوئوں کی ستی رسم کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہ ملی۔ یہ فرسودہ رسمیں کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہیں۔ انگریز بھی اپنے زمانے میں غلام داری یا لڑکیوں کی خرید و فروخت کو کافی حد تک روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جو غیر انسانی رسوم و رواج صدیوں سے چلے آ رہے تھے‘ انہیں نہ مسلمان حکمران ختم کر پائے اور نہ مہذب طبقوں سے تعلق رکھنے والے انگریز۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم زمانوں کی وہ رسوم جو پسماندہ طبقوں میں آج بھی پائی جاتی ہیں‘ ان سے ابھی تک نجات نہیں مل پائی۔ کہنے کو پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں جمہوری نظام پائے جاتے ہیں لیکن مساوات‘ برابری‘ انسانی حقوق‘ تہذیب و تمدن اور ''آزادی‘‘ کے نام‘ رسماً تو استعمال ہوتے ہیں لیکن عملی زندگی میں محض دکھاوے کی چیزیں ہیں۔ پورے برصغیر میں ہر طاقتور‘ بدتمیز بھی ہوتا ہے‘ بے رحم بھی اور انسان دشمن بھی۔
سچی بات ہے ‘دنیا کے ہر مذہب‘ ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں‘ کسی نہ کسی انداز ا سے انسان دشمن رویے ضرور ملتے ہیں۔ کہنے کو ہمارا ملک بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن عملاً ہم اپنی زندگی میں نہ تو غنڈہ گردی ختم کر پائے‘ نہ خواتین کو برابری کے حقوق دے سکے اور نہ ہی بچوں کی پرورش کا اچھا ماحول پیدا کر پائے۔ فیض آباد میں جمع ہونے والے تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ کے کارکنوں پر‘ ہمارے باریش وزیر داخلہ‘ جناب احسن اقبال کے حکم سے کھانا پینا بند کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم‘ مسلمانوں کے تمام فرقوں سے مذاکرات کر کے جو متفقہ ہدایات‘ آئین کا حصہ بنائی تھیں‘ ان میں پھر سے جاہلانہ ترمیم کرنے کی کوشش ہوئی اور آخر میں وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ آج کل یہ بات چل رہی ہے ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ جبکہ فیض آباد دھرنے کے بعد‘ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ ''پیغمبر اسلامﷺ کو خدا کا آخری نبی ماننے والوں کو ''لاٹھیاں کیوں ماریں؟، کیوں پیٹا؟ جیلوں میں کیوں ڈالا؟ کھانا پینا کیوں بند کیا؟‘‘