آج سے سات سال پہلے جب دستور میں اٹھارہویں ترمیم کا ڈول ڈالا گیا تو اس کی ذمہ داری جس پارلیمانی کمیٹی پر تھی اس نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ اس کمیٹی کی کارروائی عوام سے پوشیدہ رکھی جائے گی۔ اس کمیٹی میں یوں تو بہت سے پارلیمنٹیرین شامل تھے‘ لیکن بنیادی کردار پیپلز پارٹی کی طرف سے رضا ربانی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے اسحٰق ڈار ادا کر رہے تھے۔ کمیٹی کی کارروائی خفیہ رکھنے کا فیصلہ بھی دراصل انہی دونوں نے کیا تھا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ اگر اس ترمیم کی ایک ایک شق پر میڈیا میں بحث شروع ہو گئی تو پھر اس پر اتفاقِ رائے مشکل ہو جائے گا‘ لہٰذا اس ترمیم پر پراسرار انداز میں کام ہوتا رہا‘ اور کبھی کوئی بات پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر نکل بھی آتی تو اس پر تھوڑی بہت بحث ہوتی مگر کمیٹی میں شامل ہر رکن اس بحث میں شمولیت سے گریز کرتا۔ اس کمیٹی کی ان گنت بیٹھکوں کے بعد ان رہنماؤں کے غور و فکر کا نتیجہ سامنے آیا تو پتا چلا کہ رضا ربانی اور اسحٰق ڈار جیسے دستور سازوں کو دستوری ترامیم کی الف بے بھی معلوم نہیں، یہ لوگ دستور کو سمجھتے ہیں نہ پاکستان کی ضروریات کو۔ انہیں بس کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی راستہ بنانا آتا ہے اور بند کمروں میں بیٹھ کر ان لوگوں نے یہی کچھ کیا۔ یہ ترمیم دراصل اس وقت کے حالات کے مطابق کیا گیا ایک سیاسی معاہدہ تھا جسے دستور پر تھونپ کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ اس ترمیم نے پاکستان میں طے شدہ امور کو اس طرح چھیڑ دیا کہ وہ آج تک سمٹنے میں ہی نہیں آ رہے۔ اسی ترمیم کا حاصل ہے کہ ملک بھر کے سرکاری تعلیمی ادارے اجڑ رہے ہیں، صوبوں میں کرپشن اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، وقتاً فوقتاً سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے وفاقی اداروں کی صوبوں میں اتھارٹی ختم کرنے کے درپے ہو جاتی ہیں اور صوبوں پر وہ انتظامی بوجھ ڈال دیا گیا ہے جسے وہ اٹھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے‘ مگر رضا ربانی اور اسحٰق ڈار جیسے ''ماہرینِ دستور‘‘ کا بھلا ہو جو آج بھی ان کو اپنا کارنامہ گردانتے ہیں۔
اسی طرح اسحٰق ڈار کی سربراہی میں دو ڈھائی برس پہلے جب الیکشن اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنی تو خاکسار کو ایک ہزار فیصد یقین تھا کہ اس کمیٹی سے خیر کی کوئی توقع رکھنا عبث ہے‘ کیونکہ خود کو ہر صورت اور ہر وقت درست سمجھنے والا شخص سوائے غلطی کے کچھ نہیں کر سکتا۔ بہرحال اسحٰق ڈار نے اس کمیٹی کا کام ایک ذیلی کمیٹی کو سونپا‘ جس کے سربرہ زاہد حامد منتخب ہوئے۔ اس کمیٹی میں بھی تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اپنی اپنی تجاویز دینا شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ الیکشن لڑ کر منتخب ہونے والے یہ قانون ساز انتخابی نظام کو بہتر بنانے کی بجائے صرف اس فکر میں مبتلا ہیں کہ کاغذاتِ نامزدگی میں انہیں اپنے مالی اور تعلیمی معاملات کے بارے میں کم سے کم معلومات دینا پڑیں۔ ذیلی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہی ایک خاتون رکنِ اسمبلی نے فرمایا ''پہلے تو ان گوشواروں سے جان چھڑاؤ‘ جن میں میک اپ کے سامان کا بھی حساب دینا پڑتا ہے‘‘۔ اس فقرے پر ایک زور دار قہقہہ لگا اور کاغذات نامزدگی کے گوشواروں کو حلف نامے کی بجائے اقرار نامے سے بدل دیا گیا۔ مالیاتی گوشواروں سے ہر وہ شق نکال دی گئی جس کے تحت اراکین اسمبلی کو جوابدہ ہونا پڑ سکتا تھا۔ یہ تبدیلی کرتے ہوئے تحریک انصاف کی شفافیت آڑے آئی نہ پیپلز پارٹی عوام دوستی، مسلم لیگ ن کا ضمیر جاگا نہ جماعت اسلامی کو اسلام خطرے میں نظر آیا‘ اور ہنستے کھیلتے اس پر اتفاق رائے ہو گیا۔ اسی کمیٹی میں یہ بھی طے ہوا کہ ختم نبوتﷺ کے معاملے کو بھی حلف سے بدل کر اقرار کر دیا جائے، جماعت اسلامی نے اس کی مخالفت کی مگر مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی عددی اکثریت کے سامنے یہ مخالفت کچھ نہ کر سکی۔ اس ذیلی کمیٹی میں شامل ایک رکن کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ مالیاتی گوشواروں میں سے حلف کا لفظ جہاں جہاں ہے نکال دے۔ اس معزز رکن نے یہ کام اپنے ایک معاون کو سونپا جس نے حلف کا لفظ ہر جگہ اقرار سے بدل ڈالا اور یہی کاغذات قانونی مسودے کا حصہ بن گئے۔
جب یہ قانون سینیٹ میں آیا تو اس وقت ایک سینیٹر‘ جنہیں کمیٹی کی کارروائی کی سن گن تھی، زاہد حامدکے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ انتخابی گوشوارے انہیں دکھائے جائیں۔ انہوں نے یہ درخواست مسترد کر دی اور تلخی سے کہا کہ گوشوارے بنانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے‘ اس لیے وہ اس قانون میں شامل نہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے زاہد حامد کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں جب گوشواروں کی تبدیلیوں پر بحث ہو رہی تھی تو اتفاق سے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے عوام کے نمائندوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ گوشوارے قانون کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے تحت آتے ہیں‘ اس لیے ان میں کوئی تبدیلی کی جائے‘ نہ انہیں قانون میں شامل کیا جائے۔ اس اجلاس میں اتفاقِ رائے سے الیکشن کمیشن کی تجویز رد کر دی گئی اور گوشواروں کو قانون کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ مستقبل میں الیکشن کمیشن بھی انہیں تبدیل نہ کر سکے۔ اس پس منظر کا حصہ ہونے کے باوجود زاہد حامد نے سینیٹ کے ایک رکن سے یہ غلط بیانی کیوں کی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ بعد میں حافظ حمداللہ نے ختم نبوتﷺ کے گوشوارے پر اعتراض کیا تو زاہد حامد نے اس میں ترمیم کا عندیہ دیا‘ جس پر یقین کرتے ہوئے وہ خاموش ہو گئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سینیٹ نے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کر لیا‘ مگر زاہد حامد وعدے کے باوجود اس میں متعلقہ ترمیم نہیں لے کر آئے۔ بعد میں وہی اقرار نامے انہوں نے ٹی وی پر لہرائے اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ ''صرف لفظ ''حلف‘‘ کی جگہ ''اقرار‘‘ ہے اور مسلمان کے لیے اصل بات تو اقرار ہی ہے‘‘۔
زاہد حامد الیکشن اصلاحات میں ترامیم کے بنیادی محرک ہونے کے باوجود اس کے تنہا ذمہ دار نہیں تھے۔ جب یہ اصلاحات اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو رہی تھیں تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بخوبی علم تھا کہ وہ کیا منظور کر رہے ہیں۔ جب ان قانونی ترامیم کے خلاف دھرنے تک بات پہنچی تو حزبِ اختلاف میں ہونے کا فائدہ اٹھا کر یہ دونوں جماعتیں ایک طرف ہو گئیں اور ذمہ داری کا بوجھ مکمل طور پر مسلم لیگ ن اور مجاز وزیر ہونے کے ناتے زاہد حامد پر آن پڑا۔ مسلم لیگ ن نے دھرنے کی صورت میں اپنے کیے کا پھل پایا‘ اور زاہد حامد نے وزارت کھو کر اس کی قیمت ادا کی۔ انتخابی اصلاحات کرنے والی اس کمیٹی میں شامل دیگر جماعتیں اور اراکین تو آرام سے بچ نکلے مگر یہ طے ہو گیا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے یہ بزرجمہر کسی نہ کسی طریقے سے منتخب تو ہو گئے ہیں‘ لیکن پاکستان کے عوام کے بنیادی عقائد، سماجی خواہشات اور معاشرتی فکر سے ان کو کوئی واسطہ نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے عوام کے بچوں کے ساتھ نہیں پڑھتے، یہ لوگ علاج کے لیے وہاں نہیں جاتے جہاں عوام جاتے ہیں، یہ ان بازاروں میں نہیں جاتے جہاں عوام روزمرہ کی خریداری کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے کاروبار، گھر بار اور رشتے دار عوام کی نظروں سے دور کہیں دوسرے ملکوں میں ہیں۔ ان لوگو ں کی تجویز کردہ انتخابی اصلاحات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ ہمارے ووٹ تو لے لیتے ہیں مگر ہم سے ان کو کوئی واسطہ نہیں۔ اگر عوام سے ان کا کوئی واسطہ ہوتا تو یہ ایسی گھٹیا قانون سازی ہرگز نہ کرتے۔ یہ قانون کو بدلتے نہیں بلکہ توڑتے مروڑتے ہیں، انہیں عوام کا خیال نہیں بس اپنے مفاد کا دھیان ہے۔ یہ ہمیں کچھ بتاتے بھی ہیں تو اصل بات چھپا جاتے ہیں۔ دھرنا تو ان کے اس طرزِ عمل کی بہت چھوٹی سی سزا ہے۔