معاہدہ افسوسناک‘ اس پر فخر نہیں کیا جا سکتا: احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''معاہدہ افسوسناک ہے‘ اس پر فخر نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ ہمارا تو خیال تھا کہ بات بہت بڑھ جائے گی کیونکہ دھرنے والوں کو پورے پروٹوکول کے ساتھ لاہور سے روانہ کیا تھا اور اسلام آباد داخل ہونے پر بھی پولیس نے انہیں خوش آمدید کہا تھا اور جُملہ سہولتیں بھی بہم پہنچائی تھیں جبکہ میں بھی آپریشن سے لاتعلق بلکہ لاپتا ہو گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہمیں تھکا تھکا کر مارنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج اور سیاستدان ایک دوسرے کا متبادل نہیں‘‘ بلکہ فوج ہی فوج ہے‘ ہمارا تو بس ایک جعلی سا رُولا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کو جمہوریت نے نہیں‘ مارشل لاء نے نقصان پہنچایا‘‘ کیونکہ جمہوریت میں تو شرفا نے اپنی نیک کمائی ہی باہر بھجوائی تھی تاکہ باہر کے بینکوں میں بھی ہماری دھاک بیٹھ سکے جو نہ صرف بیٹھ گئی ہے بلکہ پوری طرح لیٹ گئی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
تحریک نظام مصطفی کا نام لے کر بھی لوگوں کو اُبھارا گیا : جاوید لطیف
مسلم لیگ نون کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''دھرنے والوں نے تحریک نظام مصطفی کا نام لے کر بھی لوگوں کو اُبھارا گیا‘‘ حالانکہ لوگوں کو اُبھارنے کے لیے ہماری کارگزاریوں کا ذکر خیر ہی کافی تھا اور اُلٹا زدوکوب کر کے ظالموں نے میرا سر پھاڑ دیا حالانکہ جیسا کہ میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا ہے کہ ان کے لئے کھانا وغیرہ بھی میرے غریب خانے سے جایا کرتا تھا اور میں فقط گفت و شنید کے لیے ان کے پاس گیا تھا اور اگر ان کا گفت و شنید کا مُوڈ نہیں تھا تو صاف بتا دیتے‘ دراز دستی اور ہاتھ چالاکی کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نیکی برباد‘ گناہ لازم۔ انہوں نے کہا کہ ''غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک ہونا چاہیے‘‘ جن کا رانا ثناء اللہ خاص طور پر خیال رکھتے ہیں اور اب اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں اور ان کے خلاف لاہور میں دھرنا ابھی تک لگا ہوا ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ زاہد حامد کی طرح استعفیٰ دے کر وہ بھی اپنی جان چھڑا لیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی نیوز پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
دھرنا ختم کرانے میں آرمی چیف ثالث نہیںبنے : رانا ثناء اللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''دھرنا ختم کرانے میں آرمی چیف ثالث نہیں بنے ‘‘ بلکہ انہوں نے تو بس زور سے پھونک ہی مار دی تھی کیونکہ کچھ بھی کرنا ہو‘ وہ دور دور سے چھوٹی موٹی پھونک ہی مار دیتے ہیں اور سارا کام ہو جاتا ہے کیونکہ جب سے حکومت کی رٹ ختم ہو گئی ہے سب کچھ پھونکوں کی مدد ہی سے ہو رہا ہے۔ اُمید ہے کہ لاہور میں ابھی تک دھرنا جاری رکھنے والوں کو بھی کوئی چھوٹی موٹی سی پھونک مار دیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
قومی اور عوامی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے: حمزہ شہباز
رُکن قومی اسمبلی اور نون لیگ کے ممتاز رہنما حمزہ شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قومی اور عوامی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ یہ سمجھوتے ہم پہلے ہی کافی حد تک اور مقدار میں کر چکے ہیں کہ کئی نسلوں کے لیے کافی ہیں‘ نیز اب ایسے سمجھوتوں کی گنجائش ہی کہاں رہ گئی ہے کیونکہ حدیبیہ پیپلز ملز کیس بس کھلنے ہی والا ہے اور سارا کھوتا بلکہ سارے کھوتے ہی کھوہ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ جس سے عوام کھوتے کے گوشت کو بھی ترس جائیں گے۔ جس کا انہوں نے بڑی کوشش سے ٹیسٹ ڈویلپ کیا تھا جبکہ کھوتا ایسی خالص چیز ہے کہ اپنی جملہ صفات کو تادیر برقرار رکھتا ہے‘ جبھی تو شاعر نے بھی کہہ رکھا ہے کہ ؎
خرِ عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود
تا بیاید ہنوز خر باشد
اس کا بُرا نہ مانیں کیونکہ تایا جان اور ابا جان کی طرح مجھے بھی شعر و شاعری کی عادت پڑ گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ملتان میں بلاول کا جلسہ بھٹو کے جلسوں
کی یاد تازہ کر دے گا: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''ملتان میں بلاول کا جلسہ بھٹو کے جلسوں کی یاد تازہ کر دے گا‘‘ جس میں وہ بھٹو کی طرح عوام کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کریں گے اور اس کے نعرے بھی لگوائیں گے اور اس طرح خود بخود ہی بھٹو کے جلسوں کی یاد تازہ ہو جائے گی جو اب تک خاصی حد تک باسی ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ایک تاریخی جلسہ ہو گا‘‘ کیونکہ یہ اپنی مقررہ تاریخ پر ہی منعقد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کی سیاست میثاق جمہوریت پر عمل پیرا نہیں ہو سکی‘‘ حالانکہ دونوں‘ پارٹیاں اب تک اس کی کمائی کھاتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ناقص پالیسی کے باعث نواز شریف کے ساتھی انہیں چھوڑ رہے ہیں‘‘ اگرچہ ہماری پالیسی ناقص نہ ہونے کے باوجود لوگ ہمیں چھوڑتے چلے جا رہے ہیں، اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ اب ناقص پالیسی کو آزما کر دیکھیں گے؛ اگرچہ عوام کی خدمت اس کا بھی طرۂ امتیاز ہو گا۔ آپ اگلے روز ملتان میں مختلف کنونشنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں گل فراز کے بھیجے ہوئے کچھ اشعار۔ بھیجے ہوئے اس لیے کہ نیٹ پر انہوں نے اپنے نام سے جو اشعار دیئے ہیں‘ ان کے ساتھ ہی میرے اشعار بھی لگا رکھے ہیں جن پر میرا نام نہیں دیا گیا۔ اب یہ وضاحت اُنہی کے ذمے ہے کہ ان اشعار کے خالق وہی ہیں!
ذرا سا زخم تھا‘ ویسے بھی لا علاج نہ تھا
تمہارے بعد مگر احتیاط بھی نہ ہوئی
............
وہ مضطرب تھا عشق میں نقصان کچھ نہ ہو
ہم مطمئن کہ جاں کا خسارہ ہے اور بس
............
اے عشق تیرے ساتھ ہیں سارے معاملات
ایسا نہیں کہ تجھ سے محبت ہے اور بس
............
مجھ سے‘ باتیں کر کے دیکھیں
میں باتوں میں آ جاتا ہوں
............
اُسی جگہ پہ ہے جس کو جہاں نہ ہونا تھا
ہمارے پاس کوئی اور ہے‘ جُدا کوئی اور
............
جیسا وہ سمجھتا ہے ویسا بھی نہیں ہوں میں
جتنا نظر آتا ہوں‘ اُتنا بھی نہیں ہوں میں
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دُنیا میں رہتا ہوں
مگرمچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں