تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-11-2017

پولیس کی ٹریجڈی

''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘۔ یہ نعرہ آپ نے ضرور سنا ہو گا۔ پولیس سے مدد چاہنا بہت اچھی بات ہے کہ یہ محکمہ ہماری ہی خدمت کے لیے معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔ اور پولیس بھی چاہتی ہے کہ عوام کی مدد کرے کیونکہ یہی اُس کا ''مقصدِ تخلیق‘‘ ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ جب بھی عوام پولیس سے مدد لینے کا سوچتے ہیں‘ مصیبت میں پڑ جاتے ہیں اور دوسری طرف پولیس اگر نیک نیتی کے ساتھ عوام کی مدد کرے تو دونوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں یعنی عوام مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور پولیس کو مجرم تو نہیں البتہ احساسِ جرم ضرور گھیر لیتا ہے۔
پولیس کا علاقائی مزاج ایک سا ہے۔ پولیس پاکستان کی ہو، بھارت کی یا پھر بنگلہ دیش کی... سبھی کا اندازِ فکر و عمل کم و بیش یکساں ہے۔ بھارت سے خبر آئی ہے کہ وہاں شمالی ریاست اُتر پردیش کے شہر کنوج میں شادی کے حوالے سے حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔ یہ بات ہمیں کچھ زائد از ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اِس خطے میں شادی بجائے خود کئی عجیب و غریب واقعات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے! 
خیر، واقعہ کنّوج شہر کا ہے۔ شادی کا مَنڈپ سجا تھا۔ دونوں طرف کے مہمان آ چکے تھے۔ پھیروں کی تیاری تھی کہ کسی بات پر فریقین میں جھگڑا ہوگیا۔ بات تُو تُو مَیں مَیں کی منزل سے ہوتی ہوئی مغلظات کے مرحلے میں داخل ہوئی اور پھر نوبت ہاتھ پائی تک جا پہنچی۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ اِتنا بڑھا کہ لڑکی اور لڑکے کے گھر والے لاؤ لشکر کے ساتھ پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔ پولیس والے اِتنی ساری سجی سجائی، چمکیلے کپڑوں میں ملبوس ''اسامیاں‘‘ دیکھ کر خوشی اور حیرت کے مارے گھبرا گئے!
ایس ایچ او نے پورا معاملہ سُنا۔ اور پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ عام طور پر پولیس والے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے مگر اِس ایس ایچ او نے دماغ سے کام لینے کی کوشش کی اور خدا کی قدرت دیکھیے کہ یہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی! 
ایس ایچ او نے پہلے تو لڑکی اور لڑکے کے والدین اور بزرگانِ خاندان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لڑنے کے لیے اتنی محنت جو کی تھی، ایسی آسانی سے کیسے مان جاتے بھلا! سب اپنی اپنی انا کے خمار میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اِس طرف سے مایوس ہوکر ایس ایچ او نے دولہا اور دلہن کو اپنے کمرے میں طلب کیا۔ اِس مرحلے میں کوئی چوتھا شخص مشاورتی عمل کا حصہ نہیں تھا۔ ایس ایچ او نے دونوں کو بہت سُکون سے سمجھایا کہ اِتنا سارا خرچہ ہوا ہے۔ مہمان بھی آچکے ہیں۔ ایسے میں بدشگونی اچھی بات نہیں۔ معاملہ ذرا بھی آگے بڑھا تو خاتمے کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ ایسے میں قرینِ عقل بات یہ ہے کہ مقدس اگنی کے گرد پھیرے لے لیے جائیں، گھر بسا لیا جائے۔
یہ بات تو حیرت انگیز تھی ہی کہ پولیس کسی کو یوں سمجھائے مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اپنے اپنے خاندان و برادری کا اشتعال بھلا کر دولہا اور دلہن پھیرے لینے پر راضی ہوگئے۔ پولیس سٹیشن کی انتظامیہ نے وہیں یعنی پولیس سٹیشن کی حدود میں اگنی کا بندوبست کیا تاکہ ''تھانہ حدود‘‘ کا جھگڑا بھی نہ رہے! پنڈت جی وہیں موجود تھے۔ چوکھٹا لگا کر آگ جلائی گئی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں طرف کے مہمان تھانے کے آنگن میں جمع ہوئے اور دولہا دلہن نے اگنی کے گرد پھیرے لے کر ایک دوسرے کے حق میں سات جنم تک ساتھ نبھانے کی پیار بھر ایف آئی آر کاٹ دی! اس موقع پر پولیس اہلکاروں کی خوشی بھی قابلِ دید تھی۔ اُنہوں نے اگنی کے گرد پھیرے لیتے ہوئے جوڑے پر پھول بھی برسائے اور رقص بھی کیا۔ پولیس والے رقص کریں اور باراتی صرف تماشا دیکھیں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ سبھی ناچنے لگے اور پولیس سٹیشن کچھ دیر کے لیے ڈسکوتھیک میں تبدیل ہوگیا!
یہ بھی خوب رہی۔ گئے تھے کس کام کے لیے اور ہوا کیا! اِس خطے کی پولیس کا بھی کوئی طے شدہ قبلہ ہے نہ دین ایمان۔ اگر ضد پر آئے تو بسا بسایا گھر بھی اُجاڑ دے اور اگر بسانے پر آئے تو ہزار برس کے ویرانے کو بھی ایسا بسائے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ اب یہی دیکھیے کہ شادی کے شامیانے سے جو لوگ لڑتے لڑاتے پولیس سٹیشن تک پہنچے تھے‘ اُن کے درمیان پایا جانے والا من مُٹاؤ ختم کرا کے پولیس اہلکاروں نے سبھی کو ملاپ کی منزل تک پہنچا دیا۔
پولیس کا ایسا چہرہ کم ہی دیکھا گیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ لوگ لڑتے ہوئے آئیں اور تھانے میں ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔ اگر ہماری پولیس بھی ایسا ہی طرزِ فکر و عمل اختیار کر لے تو معاشرے سے خرابیاں کتنی تیزی سے اور کتنی بڑی تعداد میں ختم ہو جائیں۔
ہم نے کنّوج کے تھانے میں انجام پانے والی شادی کی خبر مرزا تنقید بیگ کے گوش گزار کی اور پولیس کے حُسنِ کردار کی داد چاہی تو خاصے بھڑک کر بولے ''پولیس کو وہی کام کرنا چاہیے جس کا اُسے مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ اگر وہ اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کچھ کرے گی تو صرف خرابیاں پیدا کرے گی‘‘۔
ہم نے یاد دلایا کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ اور یہ نعرہ عوام نے نہیں لگایا، خود پولیس نے لگایا ہے۔ سال میں ایک آدھ مرتبہ ہفتۂ خوش اخلاقی منا کر پولیس عوام کو یاد بھی دلاتی ہے کہ اُسے لوگوں کی مدد کا مینڈیٹ دیا گیا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ لوگ مدد چاہیں اور پائیں۔
ہماری بات سن کر مرزا تنک کر بولے ''ارے کہاںکی ہانک رہے ہو؟ پولیس کو جرائم کی بیخ کنی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ معاشرے سے شر پسندی ختم ہو اِس بات کو یقینی بنانا پولیس کا فرض ہے۔ پولیس کو میل ملاپ کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی‘‘۔
ہم نے عجز و انکسار کے ساتھ عرض کیا کہ پولیس نے شر پسندی ہی تو ختم کی یعنی جو لوگ لڑتے ہوئے پولیس سٹیشن تک آئے تھے اُنہیں ایک کر دیا، شادی کرا دی، دولہا دلہن پر پھول بھی برسائے اور رقص کرکے حقیقی مسرّت کا اظہار بھی کیا۔
یہ سُن کر مرزا مزید تنک کر بولے ''میاں، یہ سب دکھاوا ہے۔ پولیس کو شر پسندی ختم کرنے کا کہا گیا ہے، بڑھانے کا نہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پولیس نے میل ملاپ کرا دیا، شادی کرا دی۔ ایس ایچ او چالاک تھا۔ اُس نے سوچا فریقین کی ایف آئی آر کاٹ دی تو اُنہیں ذرا سی سزائے قید ملے گی اور تھوڑا سا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اُس کے شرارتی ذہن نے سوچا کیوں نہ اِس جھگڑے کو مستقل شکل دے دی جائے۔ لہٰذا شادی کرا کے اُس نے کئی عشروں تک کے فساد کی بنیاد ڈال دی! اگر ایس ایچ او مخلص ہوتا تو ایف آئی آر کاٹ کر 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول کے تحت معاملہ ختم کرا دیتا۔ اُس نے شادی کرا کے دونوں برادریوں کے لیے لڑتے رہنے کا مستقل بندوبست کر دیا‘‘!
مرزا بولتے ہی رہے، ہم نے البتہ سُننے کا سلسلہ روک دیا۔ مرزا کی تو خیر عادت ہے کہ ہر چیز میں کوئی اور چیز ڈھونڈتے ہیں اور پا بھی لیتے ہیں مگر اس خطے کی پولیس کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اگر کچھ اچھا بھی کرے تو لوگ اُس میں کہیں نہ کہیں سے خرابی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved