30 نومبر 1967ء کو مغربی پاکستان کے دارالحکومت لاہور میں بائیں بازو کے تقریباً تین سو سیاسی کارکنان نے ایک نئی سیاسی جماعت کا تاسیسی کنونشن منعقد کیا۔ اِن میں سے زیادہ تر طلبہ تھے‘ جن کے ارادے بلند تھے اور سینوں میں اِس جبر و استحصال کے نظام کو اکھاڑ پھینک کر سماج کو یکسر بدل ڈالنے کا عزم تھا۔ ایوب خان کی آمریت اب سویلین لبادے میں تھی، لیکن ریاستی جبر بے رحم اور وحشی تھا۔ ریاستی میڈیا نے اِس کنونشن کے مضحکہ خیز ہونے کا تاثر دیا اور اِسے سبوتاژ کرنے کے لئے کئی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ بہرحال موسمِ خزاں کی اُس تاریخ ساز صبح کو آج سے کہیں کم آلودہ لاہور میں کنونشن کا آغاز ہوا۔ دو دن کے تند و تیز مباحث اور سوچ بچار کے بعد 'پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ پارٹی کے منتخب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کنونشن کا اختتام انقلابی جذبات پر مبنی ولولہ انگیز تقریر پر کیا۔ کنونشن میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی پارٹی کی تاسیسی دستاویز اپنے بنیادی نظریات، مقاصد اور لائحہ عمل کے لحاظ سے بعد از تقسیم کے جنوبی ایشیا میں شاید سب سے زیادہ ریڈیکل تھی۔ بعد کی پارٹی قیادتوں نے اِس بنیادی پروگرام کو اگرچہ اوجھل کرکے ترک کر دیا، لیکن نئی نسل کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ اِس سرزمین کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے بدل ڈالنے والی یہ تاسیسی دستاویز کیا تھی‘ کیونکہ یہی وہ دستاویز تھی جس نے پیپلز پارٹی کو چند مہینوں میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی بنا دیا تھا۔ ذیل میں بنیادی پارٹی پروگرام کے کلیدی نکات اصل تاسیسی دستاویز سے نقل کئے گئے ہیں:
٭پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور باقی پارٹیوں کی طرح فرسودہ نہیں ہے۔ یہ عوام سے کیا گیا عہد و پیمان ہے کہ پارٹی‘ ہر انتخابی یا غیر انتخابی طریقے سے اِس میں درج پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرے گی۔
٭پارٹی کی پالیسی کا حتمی مقصد ایک غیر طبقاتی سماج کا حصول ہے جو عہدِ حاضر میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔
٭ملک کو درپیش مسائل مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی ہیں، کیونکہ استحصالی اور استحصال زدہ طبقات کا مذہب ایک ہی ہے۔ دونوں مسلمان ہیں۔
٭براہِ راست نو آبادیاتی اقتدار نے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ وراثت میں چھوڑا ہے جسے 'جاگیردارانہ فوجی بیوروکریٹک‘ کہا جا سکتا ہے۔ تب سے آج تک ہونے والی تمام ترقی اِس ڈھانچے کی ایک اپاہج سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیلی پر مبنی ہے۔
٭دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر مغربی نوآبادیاتی طاقتوں نے محکوم عوام پر براہِ راست حکومت ختم کر دی مگر سابقہ نوآبادیاں معاشی، سیاسی اور عسکری مجبوریوں کی زنجیروں سے سابقہ حکمرانوں کے چنگل میں ہی گرفتار رہیں۔
٭یہ بات قابل غور ہے کہ سرکار اور سرکاری ملازمین کی کرپشن بیماری کی وجہ نہیں بلکہ علامت ہے۔
٭بحران اِس گلے سڑے نظام کے رگ و پے میں رچا بسا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پروگرام ذرائع پیداوار، جو مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں آ کر ذرائع استحصال بن چکے ہیں، کو قبضے میں لے کر بذات خود نظام کا ہی خاتمہ کر دے گا۔
٭محض جمہوری شکل کا آئین ہی اِس ملک کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک اِسے یوں تشکیل نہ دیا جائے کہ یہ معاشی اور سماجی نظام میں تبدیلیوں کی نہ صرف اجازت دے بلکہ ان کا آغاز بھی کرے۔ سرمایہ دار اور صاحب ملکیت طبقات کے مفادات جب تک بے لگام رہیں گے تب تک آئین بھی ناگزیر طور پر انہی کے مطابق تشکیل پاتا رہے گا۔
٭حقیقی حل ایک سوشلسٹ پروگرام اپنانے سے ہی ممکن ہے، جیسا کہ اِس منشور میں واضح کیا گیا ہے کہ استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے اور سرمایہ دارانہ مداخلت کے بغیر ملک کو ترقی دینے کے لئے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سارے ملک کی معیشت میں تبدیلی لائی جائے۔
تمام دولت انسانی محنت سے پیدا ہوتی ہے... تمام بڑی صنعتیں قومی تحویل میں لی جائیں گی... تمام بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو نیشنلائز کیا جائے گا... ایک سوشلسٹ نظام اس بنیاد کو تبدیل کرے گا جو دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث ہے۔
٭تعلیم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو نہ صرف کائنات کو سمجھنے بلکہ اسے تبدیل کرنے کے لئے تیار کیا جائے۔ انہیں سماجی تبدیلی اور تاریخ کے ناگزیر عمل کے کردار کو گہرائی میں سمجھنا ہو گا... ایک پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے اختتام تک تمام ضروری سکول تعمیر کئے جائیں گے... یونیورسٹیوں کی سماجی زندگی سے علیحدگی کو ختم کیا جائے گا... نصاب پر بھرپور نظر ثانی ہو گی... تعلیمی اداروں سے سامراجی اور نوآبادیاتی اثرات کا خاتمہ کرنا ہو گا... ان طبقات کی طرف سے قوم کی آنکھوں پر علمی پٹی باندھی گئی ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ لوگ خود اپنے طور پر سوچنے لگیں۔
٭پارٹی جاگیرداری کا خاتمہ اور سوشلسٹ اصولوں کے مطابق کسانوں کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔
صنعتوں کے نظم و نسق میں مزدوروں اور تکنیکی ماہرین کی شمولیت کو بتدریج متعارف کروایا جائے گا۔
٭سوشلسٹ حکومت کو انتظامیہ کا ایک مختلف ڈھانچہ درکار ہو گا‘ اور سوشلسٹ سماج اپنے قیام کے ساتھ اِن ڈھانچوں کو خود ہی پیدا کرے گا۔
صحت کے پروگرام میں ہسپتالوں کا قیام اور ان کی بہتری، شہر و دیہات میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات، ضروری ادویات کی اندرونِ ملک تیاری، سکول کے بچوں کو صحت کی سہولیات اور متوازن خوراک کی فراہمی شامل ہو گی۔
٭ملک کے تمام علاقوں میں ایک 'عوامی فوج‘ بنائی جائے گی... عوامی فوج کا وجود ہی بیرونی جارحیت کے خلاف بہترین ہتھیار ہے۔
٭مروجہ انتخابی نظام‘ صاحب جائیداد طبقات کو پارلیمان میں برتری دینے کا انتہائی کارگر طریقہ کار ہے۔ الیکشن لڑنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی غریب امیدوار برداشت نہیں کر سکتا۔
٭پارٹی سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔ پاکستان کے عوام اور صرف عوام ہی اِس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اسی لئے پارٹی کا نعرہ ہے: طاقت کا سرچشمہ عوام!
آج پچاسویں سالگرہ پر اِس بنیادی پروگرام سے پارٹی قیادت کے کھلے انحراف کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ غور و خوض کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کی پارٹی نے پچاس سال قبل معرض وجود میں آنے والی پارٹی سے ہر تنظیمی اور نظریاتی رشتہ منقطع کر دیا ہے۔ اِس کے رہنما 'پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے نام پر سامراجی سرمایہ کاری اور نجکاری کے علمبردار ہیں۔ استحصالی نظام کو 'جمہوریت‘ کے نام پر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پارٹی پر مسلط 'الیکٹ ایبل‘ زیادہ تر کالے دھن کے ان داتا ہیں۔ پارٹی کی فیصلہ سازی میں کسی حد تک جاگیردار حاوی ہیں‘ لیکن زیادہ اہم کردار اُن نودولتیے سرمایہ داروں کا ہے جنہوں نے ریئل اسٹیٹ، بینکنگ اور دوسرے کاروباروں میں بے دردی سے عام لوگوں کو لوٹا ہے۔ انقلابی سوشلزم آج پارٹی میں ایک ممنوعہ اصطلاح ہے۔
لیکن یہ پارٹی کا تاسیسی پروگرام ہی تھا جس نے پاکستان کے محکوم طبقات کو ایک امید اور ذوالفقار علی بھٹو کو مقبولیت بخشی تھی۔ یہی وہ نظریاتی بنیاد تھی جس نے پارٹی اور بھٹو کو 1968-69ء کی انقلابی تحریک کی قیادت عطا کی تھی۔ بعد کی قیادتوں کی اِن بنیادی نظریات سے غداری پارٹی کی موجودہ دگرگوں کیفیت پر منتج ہوئی ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے والی پیپلز پارٹی نے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ریاست کو للکارا تھا۔ آج کی پارٹی قیادت اِس نظام اور ریاست کی سب سے بڑی رکھوالی بنی ہوئی ہے۔ لیکن عوام آج 1960ء کی دہائی سے کہیں زیادہ بدحال ہیں۔ وہ تبدیلی اور نجات کے ایک نئے سیاسی اوزار، ایک انقلابی پارٹی کی تلاش میں ہیں۔ اِس ملک میں ایک اور انقلابی دھماکہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ یہی انقلابی ابھار وہ پارٹی تراشے گا‘ جسے سوشلسٹ فتح تک محنت کش طبقات کی رہنمائی کرنا ہو گی۔