تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-11-2017

آخرت سے رجوع کرنا پڑے گا

بدمست شرابی کو شرابی کہیے تو کچھ زیادہ ہی بدمست ہو جاتا ہے مگر ایسے میں ذرا دور ہٹنا اور بچنا پڑتا ہے کیونکہ یہ دوسری والی بدمستی شدید غصے کے باعث ہوتی ہے! چور کو چور کہیے تو وہ آپ کو ایسے گھورے گا جیسے آپ اُس کے گرو، بلکہ ڈاکو ہوں! یہی حال اُن کا ہے جو کام وام کچھ کرنا نہیں چاہتے اور زندگی کے سارے مزے کھل کر، خوب جی بھر کے بٹورنا چاہتے ہیں۔ جی بھر کے ہڈ حرامی اور حرام خوری کرنے والے چاہتے ہیں کہ اُنہیں بہتر کارکردگی کا ایوارڈ دیا جائے! اور اگر کوئی آئینہ دکھائے تو اُس سے زندگی بھر کا بَیر پالنے میں دیر نہیں لگاتے۔
اپنی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا سب کی خواہش ہے مگر اِس کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ کرنے کی خواہش کسی کے دل میں جاگزیں نہیں ہوتی۔ اور ساتھ ہی ان کہی فرمائش یہ ہے کہ کوئی آئینہ دکھانے کی زحمت بھی گوارا نہ کرے۔ معاملات میٹھے میٹھے ہی چل رہے ہوں تو کون چاہے گا کہ کوئی کڑوی چیز حلق سے اتاری جائے؟
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسان کے وزیر صحت نے آئینہ دکھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے تو بہت سے لوگ ہڑبڑا کر اُن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہیمنتا بِسوا سَرما نے نئے سکول ٹیچرز میں تقرر نامے تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کی بنیاد پر سزا یا جزا سے محروم نہیں رہتے یعنی یہ کہ اچھا کریں تو اچھا نتیجہ سامنے آئے گا اور اگر کچھ بُرا کریں گے تو بُرے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ تمام مذاہب کی طرح ہندو دھوم کی مقدس کتب کی تعلیمات کی روشنی میں 'کرما‘ کا یہی اصول ہے یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ یا یہ کہ ببول کے پیڑ پر گلاب نہیں اگا کرتے۔ ہیمنتا بِسوا سَرما اگر یہیں تک رہتے تو کوئی بات نہ تھی۔ اُنہوں نے لوگوں کو آئینہ دکھانے کی بھرپور کوشش میں مذہبی کتب کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ ہم جو گناہ کرتے ہیں اُن کی سزائوں سے بچ نہیں سکتے۔ بہت سی دوسری خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کے ساتھ انہوں نے کینسر کو بھی گناہوں کا نتیجہ قرار دیا۔ ہیمنتا نے کہا کہ لوگوں کو گناہوں کی سزا مختلف صورتوں میں ملتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سوں کو جان لیوا بیماریاں لپیٹ میں لے کر اِس دنیا سے رخصت کرتی ہیں۔ کینسر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کینسر کو گناہوں کا نتیجہ قرار دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ہیمنتا بِسوا سَرما نے گناہ کی تعریف و توضیح کو بھی فریضہ جانتے ہوئے کہا کہ: ہم زندگی بھر بہت سے ایسے گناہ کرتے ہیں جن کے گناہ ہونے کا ہمیں خیال تک نہیں آتا۔ اِس ذیل میں اُنہوں نے کہا کہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار، گریز یا چشم پوشی بھی گناہ کے درجے میں ہے اور تنخواہ لے کر اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری سے نہ کرنا بہت محتاط الفاظ میں‘ یہ بھی گناہ ہی کہلائے گا۔ یعنی درحقیقت ہیمنتا بِسوا سَرما نے تمام ہڈ حراموں اور حرام خوروں کو کینسر سے مرنے کی وعید سُنائی ہے!
اُن کی یہ کھری کھری باتیں سُن کر، جیسا کہ امکان تھا، بہت سوں کے منہ پُھول گئے۔ خاص طور پر آخری بات کا لوگوں نے بہت بُرا مانا کیونکہ معاشرے میں ایسے ہی لوگوں کی بہتات ہے جو کام کم اور دام زیادہ چاہتے ہیں۔ ایسی خبریں تواتر سے آرہی ہیں کہ سکول ٹیچرز تنخواہ تو پوری وصول کرتے ہیں مگر پڑھانے پر خاطر خواہ توجہ دینے کی بات کیجیے تو زمانے بھر کے دلائل کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فرائض کی بجا آوری کے معاملے میں اُن سے اچھا کوئی نہیں! 
ہیمنتا نے جو کچھ کہا اُس سے سیخ پا ہونے والوں میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر صحت کے اِن اخلاقی فرمودات نے آسام اسمبلی میں بھی خاصی گرما گرمی پیدا کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ ہیمنتا بِسوا سَرما اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہبی تعلیمات اور اخلاقی درس کا سہارا لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ صوبائی وزیر صحت کینسر کے تمام مریضوں سے بھی معافی مانگیں کیونکہ کینسر کو گناہوں کا نتیجہ قرار دینے سے اُن سب کی دل آزاری ہوئی ہے!
آسام کے وزیر صحت نے جو کچھ کہا ہے اُس میں دو ایک نکات پر اختلافِ رائے ہو سکتا ہے مگر بحیثیتِ مجموعی وہ سچ ہی تو کہہ رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، ہم ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو معاشرے کے وضع کیے ہوئے قوانین کی روشنی میں تو جرم قرار نہیں دیا جا سکتا مگر مذہبی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو اُسے گناہ سے کم کچھ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب کام چوری اور ہڈ حرامی ہی کو لیجیے۔ اِس پورے خطے کی مجموعی ذہنیت یہی تو ہے کہ لوگ کچھ کیے بغیر بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ محنت سے جی چراتے ہوئے لوگ زندگی کا ہر لطف پانا چاہتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کام سے جی چرانے کا کلچر ہمارے ہاں یعنی پورے خطے میں ایک زمانے سے مروّج ہے۔ اب یہ کلچر نیم سرکاری اور خالص نجی اداروں تک پھیل گیا ہے۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے بھی معاشرے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسی ہی تو ورک فورس دستیاب ہوگی۔
محنت نہ کرنے اور ذمہ داریاں ادا کرنے سے گریز کو خرابی یا جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ لوگ اور بالخصوص سرکاری ملازمت کرنے والے لوگ تو تنخواہ کو شیرِ مادر سمجھ کر پینے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی یاد دلائے کہ صرف تنخواہ وصول کرنے سے حق ادا نہیں ہوتا، کام بھی کرنا چاہیے تو بُرا تو لگنا ہی ہے۔ اگر کسی بڑی معاشرتی خامی یا خرابی کو ہم جرم کا درجہ دینے کے لیے تیار ہی نہ ہوں تو پھر کوئی نہ کوئی آگے بڑھ کر اُس خرابی کو گناہ کے درجے ہی میں رکھنے کی جسارت کرے گا۔ بھارت بھر میں سرکاری مشینری جو کچھ کر رہی ہے اور اخلاقی و مالیاتی کرپشن کی جو کیفیت ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہر وہ شخص ہیمنتا بِسوا سَرما ہی کی طرح کی باتیں کرے گا جس کے دل میں قوم کا ذرا سا بھی درد ہوگا۔
ہاں! یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ کینسر کی بات کرنا حد سے تھوڑا سا بڑھا ہوا معاملہ تھا۔ مگر خیر! آسام کے وزیر صحت نے اس معاملے میں منہ چھپاکر جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ جب اُنہیں کسی نے یاد دلایا کہ اُن کے والد بھی تو کینسر ہی کے ہاتھوں پرلوک سِدھارے تھے تو اُنہوں نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے کہ اُنہیں بھی گناہوں کی سزا ملی ہو! 
ہیمنتا بِسوا سَرما نے بے حِسی کے تالاب میں پہلا اور خاصا بھاری پتھر پھینکا ہے۔ لوگوں کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے جزا و سزا کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے۔ ہمارے ہاں بھی معاملات اب تک انتہائی خرابیوں کا شکار ہیں۔ اِس دنیا کے قوانین اور سزاؤں سے تو لوگ سُدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔ ایسے میں مذہبی تعلیم کا سہارا لے کر آخرت اور جزا و سزا کا تصور ذہنوں میں بیدار کرنے ہی سے کچھ بھلا ہو تو ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved