تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-11-2017

سوشل میڈیا مہم

''تحریک لبیک پا کستان کو اس لئے تشکیل دیا گیا کہ میاں نواز شریف کو ملنے والے مذہبی ووٹوںکو تقسیم کر دیا جائے‘‘ یہ ہے وہ بیانیہ جو سوشل میڈیا پر عام کیا جا رہا ہے اور بڑی ہی مہارت اور منصوبہ بندی سے اس کی تشکیل کی ذمہ داری ریاستی اداروں کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس تحریک کی تشکیل میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے زرخیز ذہنوں اور ان کے اس منظور نظر ادارے کے سربراہ کا مشترکہ کارنامہ ہے جسے انہوں نے ابھی چند دن پہلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے مدت ملازمت میں چوتھی مرتبہ توسیع دی، تاکہ وہ ان کے مخالفین کے خلاف جس طرح چاہیں کھل کھیلیں... میرا یہ بھی موقف ہے کہ اس منظور نظر کی طرف سے تحریک لبیک کو مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کے سیاسی حریفوں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کے لئے‘ بنایا گیا ہے۔ کبھی موقع ملے تو سنجیدگی سے غور کیجئے گا کہ دھرنے کے لئے لاہور سے چلنے سے فیض آباد پہنچنے تک‘ ہر قسم کی سہولیات کن لوگوں کی جانب سے فراہم کی گئیں؟ اس کا جواب جی ٹی روڈ پر چند اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو لاہور اور اسلام آباد سے ملنے والے پیغامات کا پتا چلانے سے واضح ہو جائے گا۔ جب یہ ریلی فیض آباد پہنچ گئی تو دھرنا دیتے ہی کہا جانے لگا کہ نواز شریف کو مزید دبائو میں لانے کے لئے ان لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں راولپنڈی پہنچنے سے پہلے کیوں نہ کی گئیں؟ دھرنا تو بائیس روز بعد سات قیمتی جانوں کے نقصان کے بعد ختم ہو گیا لیکن اس کے فوری بعد نجانے کہاں سے یک لخت افواج پاکستان کے خلاف زہر سے بھرے ہوئے کوبرا سانپ سوشل میڈیا پر نکل آئے اور زہر فشانی کرنے لگے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کون اور کیوں کروا رہا ہے۔ کوئی سول ادارہ ہے یا کسی نجی کمپنی کے ملازمین پر مشتمل گروپ؟ ''ملک بچانا ہے تو مذہب کو چار دیواری اور اداروںکو ان کی حدود تک محدود رکھنا پڑے گا ورنہ آئے دن نئے رضوی اور قادری پیدا ہوتے رہیں گے‘‘ یہ ہیں وہ نفرت انگیز بیانات جو اب نئے بیانیے کے طور پر پھیلائے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس قسم کی عبارات لکھوانے والے بھول گئے کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا کس نے شروع کیا تھا؟ یہ لکھنے والے بھول گئے کہ وہ کون سا صوبائی وزیر تھا جو مسلمانوں کو اکساتا رہا۔ آپ ریاستی اداروں کے خلاف اپنے ہی عوام کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لئے‘ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے فوج اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف جو بھی لکھوا رہے ہیں‘ ایسے نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی بیانات دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی پاکستانی کی سوچ ہو سکتی ہے بلکہ لگتا ہے کہ اس کے پس پردہ افراد وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دَل کے کارکن ہیں۔ سوشل میڈیا کی ان ہرزہ سرائیوں پر غور کریں تو الفاظ اور زبان وہی ہے جو کچھ لوگ اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ صرف مقام اور وقت کا فرق ہے جو کبھی ڈان لیکس کی صورت میں تو کبھی عام انتخابات کے دوران مظفر آباد اور پھر باغ‘ آزاد کشمیر کے قریب لائن آف کنٹرول کے قریب سٹیج پر اپنے چہرے کا رخ مقبوضہ کشمیر کی جانب کرتے ہوئے بھارت اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے یہ فرماتے رہے کہ ''یہ دہشت گرد کون تیار کرتا ہے؟ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کون کرواتا ہے؟ وہ جنہوں نے یہ ملک توڑا وہ جو بار بار اپنے بوٹوں سے آئین کو کچلتے ہوئے اس دھرتی کو پامال کرتے رہے...‘‘ اپنے ہی ملک کے اداروں کو طعنے دینے والوں سے کوئی پوچھے کہ حضور! آپ نے 2008ء کے عام انتخابات سے پہلے اسلام آباد کی ایک مسجد کا انتقام لینے کے نعرے نہیں لگائے تھے‘ اس کے منتظمین کو آپ کس کھاتے میں فنڈنگ کرتے رہے؟
شاید ان کو اس بات کا دکھ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم نے فیض آباد دھرناختم کرنے کے لئے معاہدے کی منظوری ان کی اجا زت کے بغیر کیوں دی۔ فوج کو دھرنا دینے والوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے کیوں شامل کیا۔ ریاستی اداروں پر غصہ نکالنے کی بجائے اپنے منظور نظر وزیر داخلہ سے پوچھئے‘ جو کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ معاہدہ نہ کیا جاتا تو ملک بھر میں خانہ جنگی شروع ہو جانا تھی۔ صوبائی وزیر قانون فرماتے ہیں کہ دھرنے کے لئے فوج نے نہیں بلکہ میاں شہباز شریف نے کردار ادا کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج محمد امین قاضی نے اپنے عدالتی ریمارکس میں افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ''فوج نے ملک کے گلی کوچوں میں ہونے والی قتل و غارت اور تباہی کو روکنے میں قابل فخر کر دار ادا کیا ہے‘‘۔ میاں صاحب! آپ کو اس بات کا غصہ ہے کہ دھرنے والوں کو فیض آباد سے کیوں اٹھایا گیا یا یہ غصہ ہے کہ دھرنے والوں نے فوج کا احترام کیوں کیا؟
یہ دھرنا کیوں ہوا؟ اور اس کے نتیجے میں پولیس اور دھرنے والے سات افراد کا قتل‘ سب کچھ کس کا کیا دھرا تھا، خود ہی سوچئے۔ ایک دن اچانک سوجھتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لئے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کر دیا جائے اور پھر چپکے سے‘ نجانے کیوں یہ ترمیم ہو بھی جاتی ہے۔ آپ اداروں کو طعنے دیتے ہیں کہ وہ آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں‘ کبھی یہ بھی تو غور کریں کہ اپنے مطلب اور فائدے کے لئے جمہوریت کے نام کو استعمال کرتے ہوئے‘ آپ اس آئین میں اب تک کس کس قسم کے چیتھڑوں سے پیوند لگاتے چلے آئے ہیں۔ دھرنے کو جنم دینے والی اس آئینی ترمیم کی پس پردہ سازش کے کردار کس کے سب سے زیادہ قریبی اور پیارے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان میں سے ایک عمران خان کے خلاف ریفرنس تیار کر کے دینے والے ہیں‘ جنہوں نے باچھیں پھیلا کر آپ کو خوش خبری دیتے ہوئے کہا تھا ''میں نے عمران خان کو پنجرے میں بند کر دیا ہے‘ اب اس پر قفل لگانا آپ کا کام ہے‘‘ اور اسے خوش ہو کر من پسند گریڈوں اور بیش بہا مراعات سے نوازا گیا تھا؟ ایک قانونی ایڈوائزر اور ایک سیکرٹری کی ملی بھگت اور سازش نے ملک میں امن عامہ کی صورت حال کو اس حالت تک پہنچایا تھا اور جان بوجھ کر کی جانے والی اس شرارت کی سزا پورے ملک نے بھگتی اور اسی وجہ سے سات قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔
سازش کوئی اور کرے زخم کوئی اور لگائے لیکن اس پر تماشا کہ سرکاری ٹی وی پر بٹھائے ہوئے‘ بھاری تنخواہوں پر مختلف سرکاری محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر حکومتی میڈیا ایڈوائزر‘ سرکاری کارپوریشنوںاور محکموں میں لاکھوں روپے کی تنخواہیں لینے والوں اور ایک منظورِ نظر ادارے کے سربراہ کے چند لوگوں کا گروہ شور مچائے جا رہا ہے کہ فیض آباد کے دھرنے کے پیچھے کوئی اور تھا‘ تاکہ میاں نواز شریف کو ملنے والے مذہبی ووٹوںکو تقسیم کر دیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved