تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-12-2017

جاں وقف کر چکا ہوں محمدؐ کے نام پر

میر پور کے قصبے جاتلاں کے پڑوس میں شبِ وجد کا منظر تھا۔
سارے جہانوں کی وسعتوں میں اللہ اور اس کے فرشتے سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لانے والے پر درود اور سلام بھیج رہے تھے۔ میاں محمد بخش کے کھڑی شریف میں شام سے رات اور اول شب سے آگے تک مسافرانِ شوق کے قافلے رکے اور نہ ہی کلیجہ چیر دینے والی سردی جذبے سرد کر سکی۔ دُنیا بھر میں ربیع الاول میں یہی ذوقِ محبت ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ شوقِ جنونِ عشق اور وہ بھی عشقِ مصطفیٰﷺ۔
نثار دیدہ و دل عشقِ مُصطفیٰؐ کی قسم
کہ یہ جنوں بھی بڑی چیز ہے خدا کی قسم
زمیں کا عجز انہیں کے قدوم کا صدقہ 
فلک کے چہرۂ پُر نُور و پُر ضیا کی قسم
سمندروں میں عمق ان کے فکر و دانش کا 
ازل سے لے کر ابد تک کے رہنما کی قسم
بدل گئے کبھی تیور تو آسماں کانپا
کلامِ پاک کی آیاتِ دل کشا کی قسم
کُھلی ہیں ان پہ غیاب و حضور کی راہیں
نظامِ عالمِ انساں کے اِرتقا کی قسم
جس سال یمن کے بادشاہ ابراہہ نے مکہ میں خانہ کعبہ پر فیل کَشی کی اسی سال عالمِ انسانیت کو فخرِ میلاد عطا ہوئے۔
خلق ہوئے کونین کے مولا 
خالق خود ہے والہ و شیدا 
نور سراسر حسن سراپا
دونوں جہاں کے ملجا و ماویٰ
کھینچ دیا توحید کا نقشہ 
تحت الثریٰ سے تا بہ ثُریاّ
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک 
صلیّ علیٰ کا شور ہے برپا
محسنِ انسانیتؐ کی ولادت کا دن عالمِ انسانیت کا سب سے بڑا دن ہے۔ توحید کا شعور۔ ماں کے قدموں تلے جنت۔ بیٹی باپ کی آبرو کا نشان اور جائیداد کی وارث ٹھہری۔ آقا اور غلام، عرب و عجم کا فرق مِٹ گیا۔ آدمی انسان بننے کی منزل تک جا پہنچا۔
جنہیں شعور نہ تھا عقدۂ حیات ہے کیا
اُس اک نگاہ کے صدقے میں رازداں ٹھہرے
وہ لوگ‘ تھا جنہیں بے دست و پائی کا شکوہ
اُسی کے در کی غلامی سے تیغ راں ٹھہرے 
اس کرہ ارضی پر اور آسمان کے نیچے صرف ایک ایسی ادب گاہ ہے جو عرش کا ٹکڑا ہے۔ اس بارے میں نبی آخرالزماںﷺ کا فرمان ہے: (مفہوم) میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ عرش و فرش کے ملاپ والے اس دیار میں قلب پر یوں واردات رونما ہوتی ہے: 
قلم سے پھول کھلیں، نُطق دُرفشاں ٹھہرے
وہاں چلا ہوں جہاں گردشِ زماں ٹھہرے
وہ آستاں کہ ارادت سے مہر و ماہ جھکیں
وہ خاکِ پاک کہ ہر ذرّہ کہکشاں ٹھہرے 
ہوائے کوچۂ محبوب، شکریہ تیرا
تِرے کرم سے بیاباں بھی گلستاں ٹھہرے
تمام عمر مدینہ میں سونے والےؐ کو 
کہاں کہاں سے پکارا، کہاں کہاں ٹھہرے
نظر جمی کبھی حسّان کے قصیدے پر 
کبھی قبیلۂ عُشّاق کا نشاں ٹھہرے
لوائے مہر علی شاہؒ کو دوش پر رکھ کر 
دیارِ گنج شکرؒ میں بھی مہماں ٹھہرے
غرض کہ اس درِ مشکل کشا تک آ پہنچے
وہ ایک در کہ جہاں دور آسماں ٹھہرے
غرض کہ ان پر درود و سلام کی بارش 
جو ہر زمیں کے لئے ابرِ دُرّ فشاں ٹھہرے
جنُونِ عِشق اُسی آستاں پہ لے آیا
جبینِ شوق جہاں سنگِ آستاں ٹھہرے
حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس پر حجت تمام ہوئی اور ساتھ ہی نبوت ختم ہوئی۔ یہ اعجاز ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبروں ؑ میں سے خاتم المرسلینﷺ کو ملا۔
اُس ذات ؐ پہ حجّت ختم ہوئی، نبیوں کی شہادت ختم ہوئی
یعنی کہ نبوت ختم ہوئی، پھر کوئی نہ اس کے بعد آیا
سورج نے ضیا اس چشم سے لی، اُس نُطق سے غُنچے پھول بنے 
اُٹھا تو ستارے فرش پہ تھے، بیٹھا تو زمیں کو عرش کیا
اونٹوں کے چرانے والوں نے اس شخص کی صحبت میں رہ کر 
قیصر کے تبختر کو روندا‘ کسریٰ کا گریباں چاک کیا
اس نام کی عظمت عرش پہ ہے اس شخص کا چرچا فرش پہ ہے
وہ ذاتؐ نہیں تو کچھ بھی نہیں قرآن کی ہر آیت سے کھلا
دو جہانوں کے سردار اس دنیا کے انسانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ حشر کے میدان میں آپﷺ یک و تنہا سفارش ہوں گے۔ یا خدا کیا کرم ہے، کیا عطا ہے، کیا مہربانی ہے کہ ہم ایسوں کو بھی محمد عربیﷺ کا امتی ہونے کا شرف ملا۔
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم صلّی اللہ علیک وسلّم
تیرے ثنا خواں عالم عالم صلّی اللہ علیک وسلّم
تیری رسالت عالم عالم تیری نبوت خاتم خاتم 
تیری جلالت پرچم پرچم صلّی اللہ علیک وسلّم
اے آقا اے سب کے آقا ارض و سما ہیں زخمی زخمی
ان زخموں پہ مرہم مرہم صلّی اللہ علیک وسلّم
اُم القریٰ سے وادیِ یثرب تک ہر مسافر ایک ہی شوق لے کر دربار رسالت مآب میں حاضری دیتا ہے۔ ایک ہی حسرت اور ایک ہی خواہش مناجات کا عنوان بنتی ہے کہ اے کاش...
حِرؔا کی خاک میں تحلیل میرے جسم و جاں ہوتے 
میری لوح جبیں پر آپؐ ہی کا نقش پا ہوتا
قدومِ سرورِ کونینؐ کی عظمت بحمدللہ
مَیں خاکِ راہ گزر ہوتا تو پھر بھی کیمیا ہوتا
دماغ و دل چمک اُٹھتے رُخ پُرنور کی ضَو سے 
نظر اُٹھتی جہاں تک جلوۂ خیر الوریٰ ہوتا
بہر عنوان اُس ذاتِ گرامی پر نظر رہتی 
کبھی اُن پر کبھی اُ ن کے غلاموں پر فدا ہوتا
رسول اللہﷺ کے ادنیٰ غلاموں کی ثنا لکھتا
کلام اللہ کے الفاظ میں نغمہ سرا ہوتا
شہنشاہوں کے تخت و تاج میرے پائوں میں ہوتے
مِرا سَر سیدالکونین کے در پر جھکا ہوتا 
ایک انتہائی ذاتی بات یہ کہ میں یتیمی میں پلا ہوں۔ اس لئے ہر وقت یتیم کے در کا سہارا لیتا ہوں۔ باقی سہارے سُبک کرنے والے ہیں۔ عزت نفس بڑھانے والا سہارا ایک ہی ہے‘ قصہ مختصر جو بعد از خدا بزرگ ہے۔ 
اس کے کرم نے زندۂ جاوید کر دیا
ہم پر نظر ہے رحمت پروردگار کی 
جان وقف کر چکا ہوں محمدؐ کے نام پر 
یہ ہے دلیل خاص میرے افتخار کی 
ادنیٰ تریں غلامِ رسالت مآبؐ ہوں
جچتی نہیں ہے بات کسی شہریار کی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved