تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-03-2013

مُودی کو موضوع کی تلاش

وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نریندر مُودی کے نام کا اعلان بی جے پی ابھی کرے یا نہ کرے، اس کے دہلی میں ہونے والے اجلاس نے مودی کے نام پر مُہر لگا دی ہے۔ کوئی انہونی ہو جائے تو بات دوسری ہے، ورنہ اب بی جے پی میں مُودی کے نام کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی کو بھی نہیں ہو گی۔ آر ایس ایس کی بھی نہیں، اب مودی اور آر ایس ایس کے درمیان تعلقات بڑھنے کا امکان مضبوط ہو جائے گا۔ بی جے پی میں مودی کی مخالفت تین زاویے سے ہو سکتی تھی۔ ایک تو دیگر وزرائے اعلیٰ کی طرف سے، دوسرا اُن کے ہم پلہ تقریباً نصف درجن لیڈروں سے اور تیسرا بی جے پی کے سینئر لیڈروں سے۔ ان تینوں طبقات کے لیڈروں کی بھی تقریریں ہوئیں لیکن کسی نے دبے چُھپے طریقے سے بھی نہ تو اپنا نام آگے بڑھایا اور نہ ہی مودی پر تنقید کی۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کے ابتدائی تبصرے اور غیر معمولی استقبال نے ہی مودی کا راستہ ہموار کر دیا۔ مودی کی تقریر نے ایوان کی تعریف کو نئی توانائی بخشی۔ گجرات کے انتخابات میں تیسری بار جیت کر اُنہوں نے وزیر اعظم کے عہدے کے دروازے پر دستک دے دی تھی لیکن اُن کا یہ بیان ایسا تھا گویا وہ وزیر اعظم کے دروازے پر اب گھونسے جما رہے ہوں۔ کانگریس‘اندرا اور فیروز گاندھی خاندان پر اتنی تلخ تنقید اتنے سخت الفاظ میں شاید ہی کبھی کسی جن سنگھی بی جے پی لیڈر نے کی ہو۔ اُنہوں نے سبز انقلاب کا کریڈٹ بھی لال بہادر شاستری کو دے دیا۔ کانگریسی لیڈروں کا موازنہ اُنہوں نے چوکیداروں (چپڑاسیوں سے) سے کر دیا۔ اُنہوں نے بی جے پی کو ’’مشن‘‘ اور کانگریس کو ’’کمیشن‘‘ کی پارٹی قرار دیا۔ مُودی کے اس تیکھے تیور پر کانگریس کا کمزور جواب آخر کس بات کی علامت ہے؟ کیا اس امر کی نہیں کہ کانگریس نے بھی مودی کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ کیا اس کا زبردست تاثر عام لوگوں پر نہیں پڑے گا؟ ذرا موازنہ کریں، کانگریس کے وزیر اعظم کا اور بی جے پی کے وزیر اعظم کا۔ جے پور اور دہلی کا۔ کانگریس کا وزیر اعظم کا امیدوار اپنا چہرہ لٹکائے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ گویا الوداعی گیت گا رہا ہے اور بی جے پی کا امیدوار فتح سے ہمکنار ہونے کے لیے شیر کی طرح دھاڑ رہا ہو لیکن کیا صرف دھاڑ کے نام پر 272 سیٹیں جیتی جا سکتی ہیں؟ اعداد و شمار کا یہ ہدف لوک سبھا انتخابات میں جب کسی پارٹی نے بھی پار کیا ہے تو اس وقت دھاڑ تو تھی، دھاڑ مارنے والا بھی کوئی نہ کوئی ضرور تھا لیکن ان سے بڑی بات یہ تھی کہ کوئی بڑا مسئلہ تھا۔ کبھی غریبی ہٹائو، کبھی اندرا ہٹائو، کبھی اندرا جی کی ہلاکت، کبھی بوفورس اور کبھی رام مندر مسئلہ بنا تھا۔ 2014ء کے انتخابات کے لیے بھی ایک بڑا ایجنڈا ہاتھ آ رہا تھا، بدعنوانی کا۔ لیکن اناّ تحریک نے اس کا دم نکال دیا، اس کا خود کا دم بھی نکل گیا۔ کانگریس اپنی کرتوتوں سے اس معاملے کو برابر مضبوط بناتی جا رہی ہے۔ اب اس نے ہیلی کاپٹروں میں 360 کروڑ کی رشوت کا تازہ مسئلہ اس ملک کو دے دیا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس طرح کے مسائل کو سمجھ ہی نہیں پا رہی ہیں، کیونکہ جب وہ اقتدار میں رہیں تو اُن کے دامن پر بھی چھوٹے موٹے ہی سہی، اس طرح کے داغ لگتے رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اُن کے پاس بدعنوانی کی مخالفت کے لیے کوئی ایک ایسا چہرہ نہیں ہے، جیسا کہ بوفورس کے معاملہ میں وشواناتھ پرتاب سنگھ اور ایمرجنسی میں جے پرکاش بن گئے تھے۔ کیا نریندر مودی اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں؟ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہ ہوتے تو شاید اس موضوع پر ملک اُن کے پیچھے لگ جاتا۔ اُن پر دس سال تک حکومت کرنے کے باوجود بدعنوانی کے الزامات نہیں لگے پھر بھی کسی قائد کو عوام بدعنوانی کے خلاف احتجاج کی علامت تبھی مان سکتے ہیں جبکہ اس معاملے پر وہ کوئی بغاوت کرے یا قربانی دے۔ کیا نریندر مودی کے لیے کوئی ایسا موقع بن سکتا ہے؟ کیا نریندر مودی بدعنوانی کے خلاف کوئی ملک گیر لہر کھڑی کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کوئی لہر کھڑی کیے بغیر وہ کوئی مضبوط اتحاد بھی کھڑا نہیں کر سکتے۔ پارٹی کی رکاوٹ تو اُنہوں نے پار کر لی لیکن اگر اُن کی قیادت میں 200 سیٹوں کا جگاڑ بھی بیٹھتا نہیں دِکھتا تو بی جے پی کے پُرانے اتحادی دوبارہ اُس کی طرف کیسے لوٹیں گے؟ آئینی نہیں بلکہ خالص حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو آج کا ہندوستان تقریباً درجن بھر اضلاع میں بٹی جمہوریہ بن گیا ہے۔ کل ہند سمجھی جانے والی پارٹیاں کچھ ریاستوں میں سمٹ کر رہ گئی ہیں، زیادہ تر ریاستوں پر علاقائی پارٹیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ان علاقائی پارٹیوں سے تال میل بٹھائے بغیر 272 کا آنکڑا چھو پانا ناممکن ہے۔ ایسے تال میل کے بغیر بنی حکومت منموہن سنگھ حکومت سے بھی بدتر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا توڑ یہی ہے کہ مودی کوئی بڑی لہر کھڑی کریں جو اس وقت بی جے پی اور کانگریس سے بھی بڑی ہو۔ وہ واقعی کُل ہند ہو۔ اُنہوں نے لال بہادر شاستری اور پرناب مُکھرجی کی تعریف کر کے بی جے پی کے دائرہ کو تھوڑی وسعت تو دی لیکن وہ پی وی نرسمہا رائو کو کیوں بھول گئے؟ کیا اُنہیں جنوبی ہند کو اپنے ساتھ نہیں لینا ہے؟ جو بات جناب لال کرشن اڈوانی نے کہی وہ سب سے زیادہ قابل توجہ ہے۔ اقلیتوں کا اعتماد جیتنا بی جے پی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ بی جے پی نریندر مودی کو اپنا رہنما قرار دے گی، اس کام کا ذمہ مودی خود لیں اور خود زبردست پہل کریں تو اُس کا حیرت انگیز اثر ہو سکتا ہے۔ جو بھی ہو یہ بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو ملک گیر لہر پیدا کر سکے۔ اگر مُودی واقعی وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایک ایسے ملک گیر سلگتے مسئلے کی تلاش کرنی ہو گی جو بی جے پی کے ووٹوں کو پانچ سے دس فیصد تک بڑھا سکے۔ ترقی کا مسئلہ ضرور ہے لیکن اس کے دعوے دار کئی دوسرے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ ہاں اگر ایک بار غریبی ہٹائو، بدعنوانی مٹائو کے ایشو کو وہ ٹھوس اعداد و شمار کی شکل میں اُٹھائیں تو شاید ذات، مذہب اور صوبے کی دیواریں منہدم ہو جائیں اور ایک کُل ہند لہر اٹھ جائے۔ غصہ کی نہیں، اُمید کی لہر۔ جسے 26 روپے یومیہ پر گائوں میں اور 32 روپے یومیہ پر شہر میں گزارا کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی لیڈر اس ’’غریب‘‘ کو 100 روپے یومیہ کی ٹھوس اُمید بندھا دے تو اُس لیڈر کو اُس کی پارٹی اُس کے اتحادی اور اُس کے ملک میں وزیر اعظم بننے سے کون روک سکتا ہے؟(آئی این ایس انڈیا) (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں اُنہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا اُن سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved