تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-12-2017

سرخیاں‘ متن‘ اشتہارات اور اقتدار جاوید کی نظم

کلثوم نواز کی فائنل رپورٹ کا انتظار ہے
قوم صحت یابی کیلئے دعا کرے : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کلثوم نواز کی فائنل رپورٹ کا انتظار ہے‘ قوم صحت یابی کیلئے دعا کرے‘‘ بلکہ میرے لیے دعا کرے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ میرے بارے میں کچھ زیادہ ہی سیریس ہو گئی ہے‘ تاہم اسحاق ڈار کی صحت یابی کی دعا ہرگز نہ کی جائے تاکہ وہ یہاں آ کر عدالت میں میرے بارے اُوٹ پٹانگ گفتگو شروع نہ کر دیں کیونکہ بیماری سے ان کے دماغ پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔ اس لیے ایسی حالت میں وہ عدالت میں کیا بیان دیں گے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''شریف میڈیکل کمپلیکس میں علاج معالجے کی بہترین سہولیات موجود ہیں‘‘ حتیٰ کہ خاکسار کا علاج بھی یہاں ہو سکتا ہے لیکن میں باہر علاج کے لیے نہیں جاتا بلکہ وہاں کئی معاملات ایسے بھی ہیں کہ مجھے بار بار وہاں جانا پڑتا ہے کبھی کوئی عمارت خریدنے کے لیے اور کبھی کوئی اثاثہ بیچنے کے لیے‘ اور جب تک وہاں کی ساری عمارات فروخت نہیں ہو جاتیں‘ کلثوم نواز کی فائنل رپورٹ بھی کیسے آ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز کمپلیکس کا دورہ کر رہے تھے۔
چند کارکن بھیج کر کارکنوں کو ڈرایا نہیں جا سکتا : بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''چند کارکن بھیج کر ہمارے کارکنوں کو ڈرایا نہیں جا سکتا‘‘ بلکہ ہمارے کارکنوں کو ڈرانے کے لیے کم از کم دس اشخاص کا ہونا ضروری ہے بلکہ اتنے تردد کی ضرورت ہی نہیں‘ انہیں ہمارے کسی جلسے کی اطلاع دے دی جائے تو انہیں ہراساں کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت ہوش کے ناخن لے‘‘ جو ہم بھی انہیں مہیا کر سکتے ہیں کیونکہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان کے بعد سے ہمارے پاس ہوش کے کافی ناخن جمع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جلسے کے لیے صوبائی انتظامیہ کی اجازت کے باوجود وفاقی حکومت رکاوٹیں ڈال رہی ہے‘‘ جس سے ہمارا جلسہ جیالوں کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے جو چند سو کارکن تلاش کر لیے ہیں حکومت اگر انہیں بھی روکنے کا ارادہ کر رہی ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ خواہ مخواہ اپنی توانائیاں ضائع کرتی پھرے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
جمہوریت کیلئے پیپلز پارٹی کی جدوجہد کا کوئی ثانی نہیں : آصف زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ'' جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی کی جدوجہد کا کوئی ثانی نہیں‘‘ واضح رہے کہ میں اس پارٹی کا ذکر کر رہا ہوں جو بھٹو کے وقت تھی کیونکہ ہم تو عاجز مسکین آدمی تھے اور نان و نفقہ ہی کی فکر میں غلطاں رہے اور پورا عہد حکومت بس چٹکی بجاتے ہی گزر گیا اور اب تک حیران ہیں کہ پانچ سال کا عرصہ اس قدر مختصر بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی تبدیلی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی آنی چاہیے‘‘ جس کے لیے سرمائے کا ہونا بیحد ضروری ہے تاکہ ووٹوں کی خریدوفروخت بھی آسانی سے ہو سکے ۔ آپ اگلے روز پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
دعوت عام
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ برادران اسلام کی سہولت و خدمت کے لیے دھرنا پارٹی کا اجراء کر دیا گیا ہے تاکہ اقتدار حاصل کر کے عوام کے جملہ مسائل حل کئے جا سکیں کیونکہ جملہ نام نہاد سیاسی جماعتیں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں اور کسی ایسی جماعت کی شدید ضرورت تھی کیونکہ دھرنا ہی اب ایسا نسخہ کیمیا رہ گیا ہے جس کے ذریعے حکومت ہر جائز و ناجائز مطالبہ منوایا جا سکتا ہے بلکہ دھرنے پر ہونے والے نہ صرف جملہ اخراجات حکومت وقت ادا کرے گی بلکہ معزز شرکاء کی خدمت میں خصوصی نذر ونیاز بھی پیش کیا جائے گا۔ سو‘ ملک عزیز کے ہر طبقے کے لیے صدائے عام ہے کہ اس پارٹی میں شامل ہو کر اپنے جملہ مسائل موقع پر حل کروائیں۔ نیک کام میں دیر کرنے کا حکم نہیں ہے۔ پہلے آئو‘ پہلے پائو‘ نقالوں سے ہوشیار رہیں : رابطہ کے لیے نمبر 000-007۔
سیل۔ سیل۔ سیل
ہرگاہ خاص و عام مطلع رہیں کہ ہم نے محافل دھرنا منعقد کرنے والوں کے لیے نہایت ارزاں داموں پر جملہ سہولیات مہیا کرنے کا بیڑہ اُٹھا لیا ہے‘ سو ہمارے ہاں سے واٹر پروف رضائیاں جن پر واٹر کینن وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہو گا‘ نیز آنسو گیس کے شیل‘ لاٹھی نما ڈنڈے‘ بیٹھنے کے لیے وسیع و عریض قالین کے علاوہ جدید ترین اسلحہ مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ بازار سے نہایت ارزاں نرخوں پر خرید کر ثواب دارین حاصل کریں ،معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ خدمت کا موقع ضرور دیں۔ 
المشتہر : ''خدمت گار جنرل سٹور‘‘ اچھرہ لاہور
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی یہ خوبصورت نظم :
آیا
جہاں پر گلی کا پراسرار خم ہے؍ جہاں پر؍ فرشتے کا تاریک سایہ پڑا ہے؍ جہاں؍ایک چشمے کی مانند؍پھوٹی تھی تاریکی؍ گلیوں میں گلیوں سے ہوتی ہوئی؍ لمبے بازار میں ؍ سیلاب کی طرح پھیلی تھی؍کیسی سراسیمگی تھی؍ جو اسکول کی وین؍ اسکول کے گارڈ کے گرد؍ گھیرا بنائے کھڑی تھی؍ قیامت کی کوئی گھڑی تھی/جو اسکول عین دروازے پر؍ گارڈ کے دل میں؍ خنجر کی صورت گڑی تھی؍ فرشتوں سے بچوں نے دیکھا؍ فرشتہ پروں کو جھٹکتا نہیں ہے؍ وہ اندر سے کٹتا نہیں ہے؍ وہ اس برزخِ ہست میں جیتا مرتا نہیں ہے؍ جہاں رات دن مرنا پڑتا ہے؍ گہری سراسیمگی؍ ننھے بچوں کی آنکھوں میں پھیلی؍تو اسکول‘ اسکول سے ملحقہ سبز میدان؍آیا سے؍ آیا کی بچوں سی کومل دعائوں سے؍ خالی پڑا رہ گیا ؍ ایک آنسو؍ جو آیا کی آنکھوں سے پھوٹا؍وہ پلکیں نہ ملنے کے باعث؍ المناک آنکھوں کے اندر کھڑا رہ گیا۔
آج کا مقطع
فصیلِ شوق اُٹھانا‘ ظفرؔ ضرور‘ مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستا رکھنا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved