جنابِ داغؔ دہلوی کہہ گئے ہیں ؎
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا
مِرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
جب انسان پریشان اور بے حواس ہو تو کچھ بھی نہیں سُوجھتا۔ ایسے میں کسی سے کچھ بھی سرزد ہوسکتا ہے۔ اِس کی سب سے واضح مثال ہماری پولیس کا رویہ ہے۔ پولیس کا وتیرہ رہا ہے کہ جب ملزم آسانی سے ہاتھ نہ آرہا ہو تو کسی کو بھی دَھرلیا جائے اور مار پیٹ کے بعد اُسے میڈیا کے سامنے پیش کرکے خانہ پُری کرلی جائے۔ یہ طریقہ اس قدر عام اور طشت از بام ہوچکا ہے کہ اب عوام بھی پولیس کے نقشِ قدم پر چلنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
گھریلو زندگی میں عجب ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ بات کہیں سے چلتی ہے اور کہیں پہنچ جاتی ہے۔ ویسے ''پہنچ جاتی ہے‘‘ کے بجائے ''پہنچائی جاتی ہے‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ بندے یا بندی میں ٹھیک ٹھاک مہارت پائی جاتی ہو تو گھریلو زندگی کا ہر معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے عجیب و غریب انداز اختیار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔
ہم نے ذکر کیا کسی کا جرم کسی کے بھی کھاتے میں ڈالنے کے پولیس کے طریق کار کا۔ گھریلو زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ قصور کسی کا ہوتا ہے اور باتیں سُننا پڑتی ہیں کسی اور کو۔ معاملات خراب کرنے والے ایک طرف ہٹ جاتے ہیں اور ''آ بیل، مجھے مار‘‘ والا مزاج رکھنے والے پھنس جاتے ہیں کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ اُلٹا سیدھا کہہ کر مصیبت کو اپنی طرف بلانے کے شوقین ہوتے ہیں! عام مشاہدے کی بات ہے کہ بیوی کسی بھی معاملے میں اپنے میکے والوں کو کبھی پھنسنے نہیں دیتی اور سارا ملبہ سُسرالیوں پر ڈال کر ''پیسہ پھینک، تماشا دیکھ‘‘ والی کیفیت پیدا کردیتی ہے! گھریلو جھگڑوں میں شوہر عام طور پر سازشوں کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ گھر کے اندر کی بدصورت سازشوں سے زیادہ وہ گھر سے باہر کی ''خوبصورت سازشوں‘‘ پر زیادہ متوجہ رہتے ہیں! شوہروں کے لیے ''امور خارجہ‘‘ میں دلچسپی کا سامان چونکہ زیادہ ہے اس لیے ''امور داخلہ‘‘ کو بیگمات کے حوالے کردینے کو خسارے کا سودا نہیں سمجھا جاتا!
ہمارا مشاہدہ تو یہ کہتا ہے کہ جس طور پورے معاشرے میں اِس کی ٹوپی اُس کے سَر اور اُس کی ٹوپی کسی اور کے سَر کا چلن عام ہوچکا ہے بالکل اُسی طرح گھریلو زندگی میں بھی لوگ سارا نزلہ کسی اور پر گِرانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی گنجائش دکھائی دیتی ہے کسی کو بھی کچرا کنڈی سمجھتے ہوئے سارا کچرا اُس پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی واقعی سخت جان، بلکہ ڈھیٹ ہو تو اور بات ہے۔ اگر کچرا کنڈی بنائے جانے والے میں مطلوبہ ہمت نہ پائی جاتی ہو تو اُس کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
ویسے تو خیر اب زندگی کے ہر معاملے ہی میں لوگ اپنی ذمہ داری سے جان چھڑاکر اپنے حصے کی پریشانیوں کا طوق کسی اور کے گلے میں ڈالنے کے فراق میں رہتے ہیں مگر اِس معاملے میں خالص اندرونی یعنی گھریلو و خاندانی معاملات کا کوئی جواب نہیں۔ گھریلو جھگڑے ٹی کے ڈراموں اور سیریلز کا مزا دیتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی ٹی وی کے ناٹک بھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
گھریلو جھگڑوں کی دال میں اگر محبت کی ناکام شادی کا تڑکا بھی لگ جائے تو مزا دو آتشہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایسا ہی ایک واقعہ پڑھا تو حیرت ہوئی کہ لوگ اشتعال کے دریا میں بہتے ہوئے کتنی تیزی سے کتنی دور نکل جاتے ہیں۔ یہ واقعہ دِلّی کا ہے۔ جس دِلّی کو حملہ آوروں نے کئی بار اُجاڑا وہیں ایک جذباتی نوجوان نے اپنا گھر ایسے بھونڈے طریقے سے اُجاڑا کہ لوگ کچھ دیر کے لیے نادر شاہی قتلِ عام بھی بھول بھال گئے!
معاملہ یہ ہے کہ سمیر دہلی سے کچھ دور گڑگاؤں کے صنعتی علاقے کی ایک فرم میں کام کرتا تھا۔ وہیں دہلی کی وردھا بھی کام کرتی تھی۔ ساتھ کام کرتے ہوئے جب دونوں کو ایک سال سے زیادہ مدت گزری تو معاملہ ہیلو ہائے سے بڑھ کر پسندیدگی اور پھر محبت کی منزل تک پہنچا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے اپنانے کا فیصلہ کیا اور شادی کرکے ایک ہوگئے۔
کچھ دن تو اچھے گزرے۔ پھر وہی ہوا جو محبت کی شادی میں عام طور پر ہوا کرتا تھا۔ جب لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو ساری خامیاں اور خرابیاں ایک طرف رہ جاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے میں صرف خوبیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ستم کی بات یہ ہے کہ محبت کا جادو خرابیوں کو بھی خوبیوں کی شکل میں دکھا رہا ہوتا ہے! چھوٹی موٹی بُری بات بھی بھلی معلوم ہو رہی ہوتی ہے۔ سمیر اور وردھا کا بھی یہی کیس تھا۔ جب تک یہ دونوں دفتر کی حد تک شناسا تھے تب تک دونوں کو ایک دوسرے میں زمانے بھر کی خوبیاںدکھائی دیتی تھیں۔ شادی ہوئی تو وہ سِحر آگیں دور ختم ہوا۔ گھریلو زندگی کی ذمہ داریاں اور پریشانیاں سامنے آئیں تو محبت کے سارے کس بل نکل گئے۔ تھوڑے ہی دونوں کو ایک دوسرے سے یہ شکایت رہنے لگی ؎
اب کہاں اُن کی وفا، یادِ وفا باقی ہے
ساز تو ٹوٹ گیا، اُس کی صدا باقی ہے
اور یوں محبت کے بعد ''ردِ محبت‘‘ کا زمانہ شروع ہوا۔ ایسی حالت میں شکایات تیزی سے آگے بڑھتی ہیں۔ محبت کے دور میں فریقین ایک دوسرے کی خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کو ''ان دیکھی‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ آنکھوں سے پردے ہٹتے ہیں تو ایک ساتھ بہت کچھ دکھائی دینے لگتا ہے اور ہر فریق کو حواس باختہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔
سمیر اور وردھا کے کیس میں بھی ہی ہوا۔ دونوں پر ایک دوسرے کی خامیاں طشت از بام ہوئیں تو آن کی آن میں ؎
گیا ہو جب اپنا ہی جیورا نکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل
والی کیفیت پیدا ہوئی! اور یوں گِلوں شِکووں کا سلسلہ تیزی سے ''زلفِ دراز‘‘ بننے کی کوشش کرتا ہوا دونوں کو ناچاقی کی منزل تک لے آیا۔ سمیر اور وردھا کا کیس انوکھا نہیں تھا۔ محبت کی شادی میں ایسے مراحل تو آتے ہی رہتے ہیں مگر سمیر محبت والا ٹیمپرامنٹ ناچاقی کے دور میں برقرار نہ رکھ سکا۔ کچھ ہی دنوں میں معاملات اِتنے بگڑے کہ وہ ہتّھے سے اکھڑ گیا اور پلک جھپکتے میں انتہائی قدم اٹھا بیٹھا۔ ''انتہائی قدم‘‘ سے آپ کیا سمجھے؟ جی نہیں، آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ معاملہ طلاق تک نہیں پہنچا۔ سمیر نے تو حد ہی کردی۔ جی نہیں، اُس نے بیوی پر تشدد بھی نہیں ڈھایا، اُسے آگ بھی نہیں لگائی۔ اُس نے کئی قدم آگے جاکر کچھ ایسا کیا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ سمیر نے فیس بک پر ایک فیک آئی ڈی بنائی، اس پر بیوی کی تصویر لگائی، اُسے کال گرل کے طور پر پیش کیا اور پھر ایک ہی تیر سے دوسرا نشانہ لیتے ہوئے موبائل فون نمبر اپنی خوش دامن صاحبہ کا دے دیا!
اِسے کہتے ہیں بیوی کی بلا اُس کی امّاں کے سَر! خوش دامن صاحبہ کے فون کی گھنٹی دن میں بیس بیس بار بجنے لگی۔ زمانے بھر کے عیّاش اُن سے رابطہ کرنے لگے۔ وردھا اور اُس کے گھر والے تنگ آگئے۔ معاملہ سائبر کرائم سیل کے علم میں لایا گیا۔ چند روزہ تفتیش کے بعد جمائی راجا پولیس کے شکنجے میں آگئے! وردھا شاید سوچتی ہی رہ گئی ہوگی کہ ع
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا!