برائے فروخت
ایک عدد والد صاحب عین چالو حالت میں برائے فروخت موجود ہیں‘ ضرورت مند افراد توجہ فرمائیں۔ موصوف ذرا بھی باعث تکلیف وغیرہ نہیں۔ ہر وقت بیٹھک میں پڑے کھانستے کھنکارتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے چور اِدھر کا رُخ نہیں کرتے‘ یعنی بزرگی کی بزرگی اور تحفظ کا تحفظ۔ مٹر گشت کے لیے گھر سے نکل جاتے ہیں تو واپسی کا رستہ یاد نہیں رہتا‘ تاہم دو چار روز کے بعد اہل محلہ یہاں پہنچا جاتے ہیں اور اس طرح چند روز کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے یعنی ہم خرما و ہم ثواب۔ موقعہ پر تشریف لا کر ٹھونک بجا کر دیکھ لیں۔ سنہری موقع ہے‘ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ یادداشت ذرا کمزور ہے جس کی وجہ سے دو، دو دن کھانا بھی بُھول جاتے ہیں اور اس طرح مزید بچت کا باعث بنتے ہیں‘ پہلے آئیں‘ پہلے پائیں۔ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔
المشتہر : برخودار‘ خان ۔ پکی ٹھٹھی لاہور
تلاش گُم شدہ
برخوردار بھگوڑے خان۔ جب سے تم اپنی ماں کے زیورات چُرا کر گھر سے بھاگے ہو‘ وہ ڈنڈا لے کر دروازے پر بیٹھی ہوئی ہیں‘ اس لیے اگر اپنی ہڈی پسلی درکار ہے تو بھُول کر بھی گھر کا رُخ نہ کرنا ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
اِنہیں فروخت کرنے کے لیے کسی صراف وغیرہ کے پاس جانے کی بھی کوشش نہ کرنا کہ دھوکے بازی میں دھر لیے جائو گے۔ اس لیے کہ زیورات نقلی ہیں‘ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کسی جیل سے تمہاری اطلاع موصول ہو۔ بہرحال‘ جہاں رہو خوش رہو‘ اور گاہے گاہے اپنی خیریت کی اطلاع دیتے رہو۔
المشتہر : تمہارا غمزدہ باپ‘ نگوڑے خاں
کرائے کے لیے خالی ہے
خوبصورت گھر کرایہ کے لیے خالی ہے۔ چار دیواری کے بغیر ہے‘ اس لیے چاروں طرف خوبصورت قناتیں لگی ہیں۔ عین گندے نالے پر واقع ہے لیکن بدبُو صرف اس وقت آتی ہے جب ہوا شمال کی طرف سے آ رہی ہو جبکہ بادِ شمال اس علاقے میں ویسے بھی کم کم ہی آتی ہے۔ ذرا غیر آباد جگہ پر واقع ہے اس لیے تین چار مرتبہ چور حضرات طبع آزمائی کر چکے ہیں لیکن اب ان کے آنے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ گھر میں انہوں نے کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں ہے اس لیے شرمندہ ہو کر خود ہی اِدھر کا رُخ نہیں کرتے۔ چھت ذرا ٹپکتی ہے یعنی بارش بند ہونے کے بعد بھی گھنٹوں بارش سے لُطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ کرایہ نہایت واجبی ع
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
المشتہر: مکین خاں ولد امین خاں‘ چونا منڈی لاہور
اپنا بیگ لے جائیں!
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا گزارش ہے کہ اگلے روز مشتہر کو سڑک پر پڑا ہوا ایک برائون رنگ کا بیگ ملا ہے جو میں نے مالک کی امانت سمجھتے ہوئے اُٹھا کر محفوظ کر لیا ہے۔ اگرچہ نہایت خستہ حالت میں تھا اور اسے لے کر باہر نکلنا ویسے بھی باعث شرمندگی ہے۔ اس لیے گھر کے کباڑ خانے میں ایک طرف ڈال دیا گیا ہے۔ بیگ میں دو، چار سو کے نوٹ بھی تھے جو اس قدر پرانے اور خستہ حالت میں تھے کہ اُنہیں مزید رکھا بھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ خاصے بدبودار بھی تھے‘ اس لیے طوعاً و کرہاً انہیں خرچ کر لیا گیا ہے۔ البتہ جس بٹوے میں بند تھے‘ بالکل نیا اور دیدہ زیب تھا جو میں نے مالک کی طرف سے نشانی سمجھ کر خود رکھ لیا ہے البتہ دیگر سامان مثلاً سگریٹ کی آدھی ڈبیہ‘ ایک ماچس اور بجلی کے پرانے بلوں کو ہرگز نہیں چھیڑا گیا کہ آخر امانت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
المشتہر : مرزا امانت بیگ۔ گڑھی شاہو لاہور
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ ہفتہ وار تازہ غزل :
پڑا رہتا ہوں‘ یہی اُٹھتا ہوں
سوچتا ہوں کہ ابھی اُٹھتا ہوں
مار دیتا ہے مجھے چُپ رہ کر
بات کرتا ہے تو جی اُٹھتا ہوں
ایسے کرتا ہوں سفر اُس کی طرف
کبھی گرتا ہوں کبھی اُٹھتا ہوں
ایسے ہوتا ہوں کسی خواب میں گُم
جاگتا ہوں نہ کوئی اُٹھتا ہوں
گرد سا بیٹھنے لگتا ہوں وہیں
کر کے کوشش تو بڑی اُٹھتا ہوں
رات کر دیتی ہے ٹکڑے ٹکڑے
ایک سوتا ہوں‘ کئی اُٹھتا ہوں
اک ذرااور توقف کیجے
اُٹھنے والا ہوں‘ اجی اُٹھتا ہوں
ایک سا رہتا نہیں ہوں شب بھر
وہی سوتا نہ وہی اُٹھتا ہوں
ٹالتا رہتا ہوں دُشمن کو ظفرؔ
سر پہ آ جائے تبھی اُٹھتا ہوں
آج کا مطلع
میرے دل میں محبت بہت ہے
اور‘ محبت میں طاقت بہت ہے