تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-03-2013

رجال الغیب کی خدمت میں

’’آپ سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہو سکا لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ زندگی کا یہ نظام آپ ہی کے دم سے رواں دواں ہے۔ آپ ہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کے طفیل آسمان سے مینہ برستا اور لوگوں کی بلائیں ٹلتی ہیں۔ آپ کو باخبر رکھا جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور جو کچھ ہم سے مستور ہے، وہ آپ پر عیاں ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکی۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میرے فہم کی کسی وجود تک رسائی نہیں تو وہ اس کے عدم پر دلیل کیسے ہے؟ میں کہ عالم تقویم کا اسیر ہوں اور آپ کا تعلق تکوینی امور سے ہے۔ میں عالم اسباب کا قیدی اور آپ ٹھہرے ماورائے اسباب۔ میں دانش برہانی کا خوگر اور آپ دانش نورانی کے پیکر۔ میں دین کے باب میں قرآن و سنت سے دلیل مانگتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ اے بے خبر ایک علم لدنی بھی ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں توپھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ایک عہد میں آپ کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ شیخ علی ہجویریؒ بتاتے ہیں کہ رجال الغیب یا اولیائے مکتوم چار ہزار ہیں۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ ’’چالیس‘‘۔ اہلِ تصوف یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ میں مناصب کا فرق ہوتا ہے۔ آپ میں نقباء ہیں، نجباء ہیں، ابدال ہیں، اخیار ہیں، غوث ہیں۔ میں ان کے اوصاف کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن صوفیا نے اس باب میں ہماری راہنمائی کی ہے۔ جیسے ابن عربی نے فتوحاتِ مکیہ میں ہمیں بتایا کہ نجباء آٹھ ہوتے ہیں اور ان کا مقام کرسی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سات معروف صفات کا علم رکھتے ہیں… میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ سے غیر متعلق باتیں کرنے لگا۔ دراصل مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کے بارے میں میری تمام معلومات کا انحصار اہل تصوف کے اقوال پر ہے، کسی یقینی ذریعہ پر نہیں۔ اس لیے میں اگر آپ کے بارے میں کوئی ایسی بات لکھ جائوں جو خلاف واقعہ ہو تو اسے میری کم علمی پر محمول کیجئے۔ میں تو تصوف کے باب میں شیخ احمد سرہندیؒ پر اعتبار کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقطاب کے مقام تک رسائی کے بعد مجھے رسول اللہﷺ نے قطب ارشاد کی خلعت عطا کی تو میں مان لیتا ہوں یا اگر شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ میں قائم الزمان ہوں جس کا مطلب اللہ کا دست و بازو ہونا ہے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بزرگ اکابر صوفیہ میں سے ہیں۔ میرے عہد میں بھی آپ موجود ہیں۔ بعض لکھنے والے آپ کی موجودگی کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر کب برا وقت آنے والا ہے۔ آپ کو یہ بھی پتا تھا کہ بلیو ائیر کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرانے والا ہے۔ آپ بتا دیتے ہیں کہ کب سیلاب آنے والا ہے۔ میں جب یہ سنتا اور پڑھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ آپ کی خدمت میں چند گزارشات پیش کروں۔ اس کے لیے میں اپنے کالم کا سہارا لے رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ جیسے گناہ گار کا یہ منصب کہاں کہ آپ کبھی مجھ پر ظاہر ہوں۔ پھر یہ کہ میں کثافتوں میں الجھا کسی لطیف وجود کا ادراک بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے میری مجبوری ہے کہ کاغذ، قلم اور اخبار کا سہارا لوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اخبار جس علاقے میں پڑھا جائے گا، وہاں کا ولی مستور یقینا اس سے باخبر ہو جائے گا کیونکہ صوفیا کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سب سے کم درجے کا ولی بھی بارہ میل کے علاقے میں مختار کل ہوتا ہے۔ چڑیا کا انڈہ بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اسے نمک کی اس مقدار کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جو ایک عورت سالن میں استعمال کرتی ہے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا کالم آپ کی نظر سے اوجھل رہے۔ اے رجال الغیب! چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ اسے آپ میرے سوالات بھی کہہ سکتے ہیں۔ ٭… تکوینی امور آپ کے سپرد ہیں تو آپ غیب سے مدد فرما کر ہمارے حالات کو بہتر کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ کو اگر معلوم تھا کہ ائیر بلیو کا طیارہ پہاڑوں سے ٹکرانے والا ہے تو آپ اس کی بروقت اطلاع دے کر انسانی جانوں کو بچا سکتے تھے۔ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ جب آپ جانتے تھے کہ سیلاب آنے والا ہے تو ہمیں بتا دیتے کہ ہم کسی حد تک اپنا بچائو کر لیتے۔ ٭… اگر یہ دنیا عالم اسباب کے تابع ہے تو پھر آپ کس عالم کی نمائندگی کرتے ہیں ؟ عالم اسباب میں تو کچھ پوشیدہ نہیں۔ پھر رجال الغیب کی ضرورت کیا ہے؟ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ایک سنت کے تابع ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ اسے قوانین فطرت کہہ دیتے ہیں۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہے۔ اگر ہم محنت کریں گے تو کامیاب ہوں گے۔ یہ بات تو ایک عامی کو بھی معلوم ہے اور اسی کے مطابق کاروبار دنیا چل رہا ہے۔ یہ سب باتیں انسانوں کو عقل کے ذریعے سمجھا دی گئیں اور جو بات عقل میں نہیں آ سکتی، وحی کے ذریعے بتا دی گئی۔ وحی کوئی خفیہ علم نہیں ہے۔ اللہ کے پیغمبرنے کوئی ایسی بات انسانوں سے نہیں چھپائی جس کا تعلق ان کی دنیاوی یا اخروی نجات سے تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ﷺ سے یہ فرمایا کہ آپ پر جو کچھ نازل ہوا، آپ ابلاغ کر دیجئے۔ اگر آپ نے ایسے نہ کیا تو گویا آپ نے اس منصب کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ہمیں معلوم ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے اجتماع نے گواہی دی کہ آپ نے رسالت کا حق ادا کر دیا۔ وحی کا یہ علم قیامت تک محفوظ اور معلوم ہے۔ عقل بھی بیدار ہے۔ اس کے بعد آپ کا کردار کیا ہے اور آپ کہاں مداخلت فرماتے ہیں؟ ٭… عالم دنیا کے جن لوگوں پر آپ ظاہر ہیں، وہ آپ کے حوالے سے ہمیں اکثر بتاتے ہیں کہ آپ نے ہمیں فلاں بات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ اگر آپ کومعلوم ہوتا ہے تو آپ ہمارے دکھوں کو کم کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ کیوں استعمال نہیں کرتے؟ آپ سے جو باتیں منسوب ہوتی ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتا دی ہیں اور رسالت مآبﷺ نے اپنے ارشادات میں۔ میرا مخمصہ یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ معلوم ہے تو رجال الغیب کے سارے نظام کی افادیت کیا ہے؟ ٭… میں آپ سے یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے بارے میں کوئی اطلاع مجھے اللہ نے اپنی کتاب میںدی نہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ارشادات میں۔ پھر میرے لیے آپ کی دینی حیثیت کیا ہے؟ اللہ نے اپنی کتاب میں بتا دیا کہ وہ فرشتوں کے ذریعے اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے اور یہ کہ وہ شب قدر میں جبرئیل امین کے ساتھ نزول کرتے ہیں اور ہمارے بارے میں فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر اللہ نے یہ سب کچھ بتا دیا تھا تو آپ کے بارے میں بھی خبر دی جا سکتی تھی۔ اے اولیاء مستور! اپنی کم علمی کے سبب میں ان سوالات میں گھرا رہتا ہوں اور آپ سے راہنمائی کا خواستگار ہوں۔ میں ایک بار پھر اعتراف کرتا ہوں کہ اس بندہ عاصی کا یہ مرتبہ نہیں کہ آپ مجھ سے براہ راست ہم کلام ہوں۔ آپ اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کو جواب دے دیجیے جو مجھ تک آپ کی بات کا ابلاغ کر دے۔ امید ہے کہ مجھے اس روشنی سے محروم نہیں رکھیں گے۔ مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘‘ والسلام فقط، ’’اللہ کا ایک بندہ‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved