مقبوضہ کشمیر میں بانڈی پورہ میں تعینات بھارت کی قابض فوج کے میجر کے ساتھ کھڑے ہوئے حوالدار رویندر سنگھ نے اپنی کلاشنکو ف کا رخ بارڈر سکیورٹی فورس کے ہیڈ کانسٹیبل کی جانب تانتے ہوئے اسے سامنے سے آنے والے سکول کے بچوں کے جلوس پر پیلٹ گن کے فائر کرنے کا ایک بار پھر حکم دیا لیکن بی ایس ایف کے ہیڈ کانسٹیبل کے انکار پر اس نے اپنے ساتھ کھڑے میجر کی جانب دیکھا اور اس کے ہاتھ کا اشارہ ملتے ہی کلاشنکوف کا فائر کھول دیا اور تر تڑ کی آوازوںکے ساتھ ہی ایک دلدوز انسانی چیخ فضا میں بلند ہوئی اور بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ہیڈ کانسٹیبل کا خون ابلتا ہوا جسم دھڑام سے سڑک پرجا گرا۔۔۔یہ ہیڈ کانسٹیبل جس کا نام بعد میںچندر بھان معلوم ہوا ہریانہ کا رہنے والا تھا اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنے افسر کے حکم کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرتے ہوئے پرائمری سکول کے بچوں پر پیلٹ گنوں کے سیدھے فائر کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے سامنے سینکڑوں کی تعداد میں ان نوجوان لڑکوں کی تصویریں گھومنے لگیں جو ان پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے عمر بھر کیلئے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے تھے ۔ہاتھوں میں پلے کارڈ پکڑے فوجی چیک پوسٹ ہٹانے کے نعرے لگاتے ہوئے سات سے بارہ سال تک عمر کے سکول کے لڑکوں پر مشتمل جلوس سرا پا احتجاج بنا ہوا بانڈی پورہ کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کیلئے ہر طرف سے امڈ آیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پہلے پولیس اور پھر بارڈر سکیورٹی فورس کی بھاری نفری ان کو منتشر کرنے کیلئے جلد ہی وہاں پہنچ گئی جنہوں نے ان لڑکوں کو واپس سکول جانے کا حکم دیا لیکن لڑکوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جب تک سکول کی دیوار سے ملحق بھارتی فوج کی حال ہی میںبنائی جانے والی اس چیک پوسٹ کو یہاں سے ہٹایا نہیں جائے گا وہ سڑکوں پر ہی رہیں گے۔BSF کے افسران نے سکول کے ان لڑکوں کے مطالبے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں وارننگ دی کہ وہ پندرہ منٹ کے اندر یہ مظا ہرہ ختم کر دیں ورنہ ان کے خلاف پیلٹ گنیں استعمال کرتے ہوئے سخت ترین ایکشن لیا جائے گا۔۔۔لیکن سکول کے لڑکوں کا کہنا تھا کہ ہم پر امن ہیں ہمارا کوئی سیا سی مطالبہ نہیں ہے ہم اپنے سکول کے تعلیمی ما حول کو صاف اور بہتر رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کے سپاہی جو اس پوسٹ پر تعینات ہیں لڑکوں اور ان کو لانے اور لے جانے والی ان کی مائوں اور بہنوں سے فحش مذاق کرتے رہتے ہیںان کو آتے جاتے ہوئے اس چیک پوسٹ میں بلا کر تنگ کرتے ہیں۔جس سے ان کی کئی دفعہ اس پوسٹ والوں سے لڑائی بھی ہو چکی ہے اور وہ ان کی بات نہ ماننے والوں کو ناجائز طور پر دیر تک بٹھا کر تنگ کرتے رہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے بانڈی پورہ میں بچوں کے پرائمری سکول کے باہر ایک صبح اچانک کچھ تعمیرات شروع ہو گئیں جیسے کوئی بنکر تعمیر کئے جا رہے ہوں اور چند دنوں بعد دیکھتے دیکھتے ایک چیک پوسٹ وجود میں آ گئی اور اگلے ہی دن بھارتی فوج کی ایک سیکشن نے اس پر مشین گنیں تعینات کرتے ہوئے اسے اپنے مورچے میں تبدیل کرتے ہوئے ہر آنے جانے والے کو وہاں روک کر چیک کرنا شروع کر دیا جس سے وہاں سے گزرنے والی ہلکی ا ور بھاری ٹریفک نے تو جام ہونا ہی تھا ساتھ ہی سکول کے ان لڑکوں کو لانے اور لے جانے والی ٹریفک کو بھی ہر روز سوال وجواب اور تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ۔۔۔ کوئی دو ہفتے بعد اس پوسٹ پر موجود سنتریوں نے سکول کے ان لڑکوں کو بھی تنگ شروع کر دیا جنہوں نے اپنے اساتذہ کوان کی گندی اور نا مناسب حرکات سے آگاہ کیا جس پر معاملہ سکول کے ہیڈ ماسٹر تک جا پہنچا انہوں نے اس فوجی چیک پوسٹ والوں سے پہلے تو بہت ہی نرمی اور احسن طریقے سے بات کی لیکن جب ان کی شکایات بڑھنے لگیں بلکہ بچوں کے والدین نے شکایت کی تو انہوں نے اس پوسٹ والوں کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر آئندہ کسی کی شکایت آئی تو آپ کے افسران سے بات کروں گا جس کا انہوں نے سخت برا منایا اور سکول ہیڈ ماسٹرکی اس ڈانٹ ڈپٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ان پر پہلے سے بھی زیا دہ سختی کر دی۔
قابض بھارتی فوج نے اپنی محکوم ریاست کے اس سکول کے لڑکوں کے بیگ کی بھی روزانہ تلاشی لینا شروع کر دی جس سے پورے سکول کانظام تعلیم بر وقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے تلپٹ ہو نے لگا جس سے سکول کے بچوں اور اساتذہ کی پریشانیاں بڑھنے لگیں۔ سکول کی جانب سے اس ملٹری پوسٹ پر تعینات بھارتی فوجیوں کی اخلاقی گراوٹ سے بچوں پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات سے آگاہ کیا گیا ،معاملہ وزیر تعلیم سے ہوتا ہوا کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تک پہنچا لیکن اس نے یہ کہہ کر فائل بند کرنے کا حکم دے دیا کہ فوج کے معاملات میں وہ کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتی وہ جہاں چاہیں اپنی چیک پوسٹیں قائم کر سکتے ہیں، سکول کی انتظامیہ اور بچوں کو ان سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔
ہیڈ کانسٹیبل چند ربھان کی بھارتی فوج کے میجر کے حکم سے بانڈی پورہ میں اس بہیمانہ قتل کی خبر جیسے ہی بھارت کے نجی ٹی وی چینلNDTV کے ذریعے آن ایئر ہوئی تو بھارتی سکیورٹی فورس میں غصے اور احتجاج کی ایک لہر سی پھیل گئی ۔۔۔سری نگر ایئر پورٹ کے قریب تعینات بی ایس ایف کی182 بٹالین کے جوانوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے خود کو بیرکوں میں بند کرتے ہوئے ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حوالداررویندر سنگھ اور اسے حکم دینے والے میجر کو جب تک گرفتار نہیںکیا جائے گا وہ بیرکوں سے باہر نہیں آئیں گے۔ اس ہڑتال نے بی ایس ایف ہیڈکوارٹر میں کھلبلی سی مچا دی۔ اس کیمپ پر کنٹرول کرنے کیلئے بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ان کے کیمپوں کے باہر پٹرولنگ شروع کر دی۔
Kendriya Vidyalaya راجوری میں واقع بارڈر سکیورٹی فورس کے کیمپوں میں ہیڈ کانسٹیبل بھان چند ر کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کی خبر ملتے ہی ہر طرف سوگ کی فضا چھا گئی۔ ان کے سامنے چند ماہ پہلے تیج بہادر کی وہ ویڈیو گردش کرنے لگی جس میں اس نے بھارت سرکار کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ جموں کشمیر بارڈر پر بی ایس ایف کے جوانوں کو دوہرے دشمن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کے سامنے پاکستانی فوج ہے تو ان کی پیٹھ پر بھارت کی فوج ہے۔۔۔۔اور انہیں ہر وقت یہی خوف لاحق رہتا ہے کہ نہ جانے کس جانب سے کوئی گولی آ کر ان کا قصہ تمام کر دے۔ بارڈر سکیورٹی فورس کے جوانوں کوشائد یہی خوف تھا کہ کچھ عرصہ قبل سری نگر میں ان کے کیمپ پر جب صرف تین کشمیری مجاہدین نے حملہ کیا تو بی ایس ایف کی نیم دلی ان مجاہدین کو روکنے میں نا کام رہی اور لگ رہا تھا کہ یہ تینوں مجاہدین جلد ہی سری نگر ایئر پورٹ کے اندرونی حصوں کی جانب گھس جائیں گے کہ بی ایس ایف کی مدد کیلئے بھارتی فوج اورCPRF کے دستے پہنچا نے پڑ گئے۔
جس طرح بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ہیڈ کانسٹیبل تیج بہادر اور بھان چند ر نے بھارتی فوج کے ظلم و ستم کو یہ کہتے ہوئے بے نقاب کیا ہے کہ یہ بی ایس ایف کے اہلکاروں کو معمولی بات پر ہلاک کر رہے ہیں تو سوچئے کہ یہ نہتے اور محکوم کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوںگے۔جیسا کہ بی ایس ایف کے ایک اہل کار کے مطا بق سری نگر ایئر پورٹ حملے کے بعد بھارتی فوج کے کرنل راجیش کالیا نے سری نگر سے چار کشمیری نو جوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھا یا اور مجاہدین کا نام دے کر شہید کر دیا!