سوموار کی دوپہر اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں‘ دونوں نے پُرجوش مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ یہ معانقہ بھی معمول سے زیادہ طویل تھا۔ پھر مریم آگے بڑھیں‘"Welcome back to Home" ہاشمی نے پیار سے کندھا تھپتھپایا‘ ہمارے ہاں بزرگوں کی طرف سے ''بچوں‘‘ کے لیے اظہارِ شفقت کا خاص انداز...
کچھ عرصہ قبل ملتان میں بھی میاں صاحب اور ہاشمی کی ملاقات ہو چکی تھی‘ تب وہ معزول نہیں ہوئے تھے۔ یہ ملتان میٹرو کے افتتاح کی تقریب تھی جس کے لیے ہاشمی صاحب کو بھی دعوت نامہ ارسال کیا گیا تھا اور یاددہانی کے لیے لاہور سے فون کال بھی کہ انہیں ضرور آنا ہے۔ پنڈال میں ہاشمی کی نشست میاں صاحب کے سامنے تھی۔ انہیں ہاشمی کے ساتھ ماضی کے ماہ و سال یاد آئے‘ ''مجھے یاد ہے 1997ء میں موٹروے کے افتتاح کے موقع پر بھی ہاشمی میرے ساتھ تھے‘‘۔ ان ہی ماہ و سال کا ذکر انہوں نے ہاشمی کی پہلی تصنیف ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ کے لیے اپنے تاثرات میں بھی کیا تھا، ''جاوید ہاشمی میرے اچھے اور برے دنوں کے ساتھی ہیں۔ میں اقتدار میں تھا تب بھی اور عتاب میں تھا تب بھی‘ یہ میرے شانہ بشانہ رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اسے کبھی اقتدار کے لیے حریص نہ پایا۔ اس حوالے سے وہ اکثر بے رغبتی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی وہ ہمیشہ اپنے دل کی بات کہتا۔ کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو برملا اس کا اظہار کرتا۔ جسے درست سمجھتا‘ اس کے اظہار میں کبھی لکنت کا شکار نہ ہوتا۔ 12 ؍ اکتوبر 1999ء کے بعد کی آزمائشیں اس نے جس خندہ پیشانی سے برداشت کیں‘ بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اس نے ان آزمائشوں کو جس طرح خود دعوت دی اور ہزیمت کی بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیا‘ اس پر وہ ملک کی تمام جمہوری قوتوں کی طرف سے تشکر اور تحسین کا مستحق ہے۔ مجھے اس کی رفاقت پر ناز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہم سب کے لیے فخر اور اعزاز کی علامت بن گیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں۔
"Javed Hashmi, Nawaz Sharif is Proud of you, Muslim League is Proud of you, Pakistan is Proud of you"
''ہاں میں باغی ہوں‘‘ کے چوتھے اور پانچویں باب کا بیشتر حصہ میاں صاحب سے ان کے تعلقات پر مشتمل ہے۔ مختلف صفحات سے کچھ سطور :''میرے کچھ ساتھی ان کے وزیراعلیٰ بننے پر ناک بھوں چڑھاتے۔ میں نے ان سے کہا‘ جو نوازشریف کو Underestimate کرتے ہیں ان کی سیاسی بصیرت کا ماتم کرنا چاہیے۔ 1990ء میں نوازشریف وزیراعظم ہو گئے۔ میں اس بات کا مداح تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عام آدمی کی پارٹی بنا دیا۔ اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ ہو گئی اور صدر اسحاق کی سرپرستی میں وزیراعظم کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی جو جنگ لڑی‘ اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ 1990ء کے انتخابات میں جنرل اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان جناب غلام مصطفی جتوئی کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ نوازشریف نے اپنا راستہ خود بنایا جو دونوں کو ناپسند تھا‘‘...''تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعظم ہو جسے ملک کے پانچ فوجی سربراہوں سے پارلیمانی بالادستی کی جنگ لڑنا پڑی ہو۔ اب تو جنرل زینی اور جنرل ٹامی فرینکس نے بھی اپنی کتابوں میں تحریری شہادت دے دی ہے کہ نوازشریف ہماری بات نہیں سننا چاہتا تھا۔ جنرل جہانگیر کرامت ان (امریکیوں) کے حامی تھے۔ نوازشریف نے امریکہ کی مرضی کے خلاف ایٹمی دھماکے کر کے اپنی قیادت کا لوہا منوایا‘‘...''نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور ہندوستان سے امن عمل (Peace Process) کا آغاز کیا۔ جنرل ایوب‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سر کے بل چل کر انڈیا سے امن کی بھیک مانگنے گئے تھے۔ نوازشریف نے باوقار طریقہ اختیار کیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم کو بس پر بیٹھ کر پاکستان آنا پڑا اور مینار پاکستان کو سلامی دی‘‘ اور اب کچھ ذکر نوازشریف کے طرز سیاست و حکومت کا...''میں میاں نوازشریف کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ خندہ پیشانی سے میری تنقید برداشت کرتے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے وزارتی فیصلوں میں انہوں نے کبھی مداخلت نہ کی۔ ہمارے غلط فیصلوں کی ذمہ داری بھی وہ اپنے سر لے لیتے۔ ان ہی میں ایک فیصلہ (ایٹمی دھماکوں کے بعد) زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق تھا‘‘...''1993ء میں نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ سے بغاوت کی تو وہ ایک بالغ نظر سیاستدان کے طور پر قومی منظر پر ابھرے‘ میں ان کے ہر اول دستے میں شامل تھا‘‘ اس باب کا اختتام ہاشمی نے ان الفاظ کے ساتھ کیا‘ ''میں جیل کی کال کوٹھڑی سے پوری آواز کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں‘ ''نوازشریف! پاکستان کو آپ پر فخر ہے‘‘
"Nawaz Sharif, Pakistan is Proud of you"
ہاشمی نے دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کو اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹتے دیکھا تھا۔ جیل میں لکھی گئی اس کی خودنوشت کا ایک باب ''سنہری بنگال کے آخری ایام‘‘ اس کے دورہ مشرقی پاکستان کی روداد ہے‘ جب سنہری ریشے کی سرزمین فوجی ایکشن کے ہاتھوں لہولہان تھی‘ اور صرف ڈیڑھ ماہ بعد مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ گیا تھا۔ اب اس کی جگہ بنگلہ دیش تھا اور اِدھر بھٹو کا نیا پاکستان۔
اس بے خوف شخص کے دل و دماغ میں تب سے ایک خوف ایک وہم سا بیٹھ گیا تھا۔ آئین کی کارفرمائی اور سلطانی جمہور کی عملداری (ووٹ کا تقدس اور اس کا احترام) اس کے نزدیک انسانی عزوشرف ہی کا تقاضا نہیں‘ مختلف نسلی و لسانی اکائیوں پر مشتمل پاکستان کے استحکام‘ یکجہتی اور بقاء کی ضمانت بھی ہے۔ اس کے لیے وہ سول آمریت سے بھی لڑا اور فوجی حکمرانی سے بھی۔ وہ کتنی بار جیل گیا‘ اس کے خلاف کتنے مقدمات بنے‘ اس کی تفصیل شاید اسے بھی یاد نہ ہو۔ نومبر 2003ء مشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں اس کی گرفتاری کو اخبارات نے 30 ویں گرفتاری لکھا تھا۔
نوازشریف جلاوطنی کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے اپنا سیاسی اثاثہ‘ ڈکٹیٹر کی دست برد سے بچی کھچی مسلم لیگ‘ ہاشمی کے سپرد کر گئے تھے اور اس نے اس امانت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جس مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک ''باغیانہ‘‘ خط لہرانے پر اسے غداری کے الزام میں 23 سال قید کی سزا ہوئی‘ اس میں جناب اعتزاز احسن اور لیاقت بلوچ بھی اس کے دائیں بائیں موجود تھے لیکن عتاب صرف ہاشمی پر ٹوٹا۔ یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا۔
بھٹو دور میں آتش جواں تھااور لاہور کی چونا منڈی اور شاہی قلعے کی اذیتیں‘ کڑکڑاتے جاڑے میں برف کا بسترقابل برداشت ‘ لیکن اب اس عمر میں کہ وہ نانا بن چکا تھا‘ جب قویٰ مضمحل ہونے لگتے ہیں لیکن جمہور کی حکمرانی کے لیے اس کی تڑپ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ پاکستان کے چوتھے ملٹری ڈکٹیٹر کے دور کی مزاحمت میں بھی اس کا وہی بانکپن تھا۔ وہی دشت نوردی‘ وہی پائوں‘ وہی خارِ مغیلاں‘ اب اس کے ہم سفروں میں خواجہ رفیق شہید کا جواں ہمت بیٹا بھی تھا۔ سرما کی ایک رات‘ لاہور میں ان کی ننگی پیٹھوں پر جو بید برسے‘ اسے سہہ جانا‘ ان ہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد...
مشرف آمریت میں چھ سالہ قید و بند کے بعد اگست 2007ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر اس کی رہائی عمل میں آ گئی۔ اس میں سال بھر کا عرصہ اس نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے اس سیل میں گزارا جو گوانتاناموبے سے رہائی پانے والوں کے لیے مخصوص تھا۔
پاکستان کی چوتھی فوجی آمریت کی کڑی دھوپ میں جب میاں صاحب کے بہت سے جانثار سایۂ دیوار کی طرف لپک رہے تھے‘ ہاشمی نے تپتے ہوئے صحرا کا انتخاب کیا۔ اب کہ نوازشریف نے ایک بار پھر کٹھن راستے کا انتخاب کیا ہے۔ چارہ گر اور دیدہ ور اِسے عافیت کی راہ سجھا رہے ہیں‘ اور جواب میں دشوار راہوں اور کٹھن مرحلوں کے پُرعزم راہی کا کہنا ہے ؎
تم مجھے مشورے تو دیتے ہو
تم میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
''باغی‘‘ نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ اس قافلۂ سخت جاں کا حامی و ناصر ہو۔