حضور نبی اکرم ﷺنے اپنی زندگی خطرات و مشکلات میں گزاری۔ اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے والوں کی راہ میں دشوار گزار گھاٹیاں، جان لیوا معرکے اور دل فگار مناظر قدم قدم پرآتے ہیں۔ جو اللہ کا ہو جائے، اسے ہر گام پہ کامیابی کے مژدے سنائے جاتے ہیں۔ اللہ سے بڑا فیاض اور داتا کون ہے؟ اللہ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ساری مخلوق کے دلوں میں جتنے جذباتِ محبت موجزن ہیں، خالقِ کائنات کی اپنے بندوں سے محبت اس سے ستر گنا زیادہ ہے۔ اللہ کے بندے بھی اپنے اس رحیم و کریم مالک و خالق سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ انھیں سب سے زیادہ محبت اپنے رب سے اور اس سے ملانے کا ذریعہ بننے والے نبی رحمت محمدؐ سے ہوتی ہے۔ اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ انھی لوگوں کے حصے میں آتا ہے، جو بڑے نصیب والے اور بلند حوصلوں کے مالک ہیں۔
ہجرت ایک مشکل اور کٹھن کام ہے۔ گھر بار کو اللہ کی خاطر چھوڑ دینا بھی ہجرت ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے اوامر و نواہی کی پابندی بھی ہجرت ہے۔ گھر بار کو چھوڑنے کی ہجرت تو ایک ہی بار کی جاتی ہے، اگرچہ بڑی مشکل ہوتی ہے، لیکن دوسری نوعیت کی ہجرت تو زندگی بھر کا معمول ہے اور اس میں کہیں زیادہ محنت اور قربانی درکار ہے۔ نبی اکرمؐ نے ہجرت کے فضائل بیان فرمائے تو خود ہجرت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی بہترین مثال ہیں۔ آنحضورؐ کو آغازِنبوت ہی میں عرب کے مردِ دانا ورقہ بن نوفل نے بتا دیا تھا کہ آپ کی قوم آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ نبوت کے پانچویںسال اہلِ ایمان کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنا پڑی اور اس کے چار پانچ سال بعد یثرب نے اہلِ ایمان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔
نبوت کے دسویں سال کے بعد آنحضورؐ خود بھی ذہناً گھر بار چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔ آپؐ نے اپنے جاںنثار اور بے مثال مبلغ و مجاہد مصعب بن عمیرؓ کو اہلِ یثرب کی درخواست پر وہاں اپنا نائب بنا کر بھیج دیا تھا۔ حضرت مصعبؓ نے آپ ؐ کومدینے سے دعوت بھیجی کہ آپؐ وہاں آ جائیں تو آپ نے دعوت قبول فرما لی، چنانچہ آپؐ گھر بار چھوڑ کر اس انقلابی سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سفر کے ہر لمحے میں ہمارے لیے عبرت کے بے شمار درس پنہاں ہیں۔ آپؐ نے جن حالات میں ہجرت کی، وہ بہت مشکل تھے۔ آپؐ کو قتل کرنے کی سازش تیار تھی۔ عملاً اس رات آپؐ کے گھر کا چودہ افراد نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ یہ سب لوگ قریش کے مختلف اہم قبائل سے چنے گئے تھے۔ ان افراد کے نام تاریخ میں مذکور ہیں:
(۱) شیبہ بن ربیعہ، (۲) عتبہ بن ربیعہ، (۳) ابو سفیان بن حرب، (۴) طعیمہ بن عدی، (۵) جبیر بن مطعم، (۶) حارث بن عامر، (۷)نضر بن حارث، (۸) ابو البختری بن ہشام، (۹) زمعہ بن اسود، (۱۰) حکیم بن حزام، (۱۱) عمرو بن ہشام (ابوجہل)، (۱۲) منبہ بن حجاج، (۱۳) نبیہ بن حجاج اور (۱۴) امیہ بن خلف۔
ان دشمنوں میں سے گیارہ بدر کے میدان میں کفر کا جھنڈا اٹھائے اہلِ حق کے مد مقابل ہوئے۔ اللہ غالب و عزیز نے ان کو بدر میں قتل کرا دیا۔ تین خوش قسمت اس جنگ میں شرکت سے بچ گئے۔ یوں ان کی جانیں بھی بچ گئیں، مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہجرت کے آٹھ سال بعد آنحضورؐ نے مکہ فتح کیا تو یہ خوش قسمت اسلام کی دولت سے بھی مالا مال ہو گئے۔ بڑے دل اور عظیم شان کے مالک نبی رحمتؐ نے جس طرح خانہ کعبہ میں پناہ لینے والوں سے کوئی تعرض نہ کرنے کا حکم صادر فرمایا اسی طرح ان تینوں کے گھرو ں میں پناہ لینے والوں کو بھی امان بخشی گئی۔ اللہ اللہ! یہ عظمت و وسیع الظرفی۔ اوپر کی فہرست میں سے بچ جانے والے ابوسفیان، جبیر اور حکیم بن حزام تھے۔ باقی سبھی تہہ تیغ ہو کر واصلِ جہنم ہوئے۔
ہجرت کی رات دشمن زہر میںبجھی ہوئی تلواریں لیے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے کہ جوں ہی آپؐ گھر سے باہر قدم رکھیںسبھی یک بار حملہ کر کے آپؐ کا کام تمام کر دیں۔ اللہ کے نبیؐ اس صورتِ حال سے باخبر تھے۔ اس کے باوجود آپ ؐ اپنے گھر سے نکلے تو جان جانے کا خوف اور دشمنوں سے کسی قسم کا ڈر آپؐ کے قدم نہ روک سکا۔ سورۂ یٰسٓ آپؐ کی زبان پر تھی اور اللہ کی محبت دل میں موجزن۔ آیات بھی کس قدر موقع ومحل کے مطابق تھیں''یٰس ٓ ۔ قسم ہے قرآنِ حکیم کی کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو، سیدھے راستے پر ہو (قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میںپڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انھیں ڈھانک دیا ہے، انھیں اب کچھ نہیں سوجھتا‘‘۔ (یٰس ٓ)
آپؐ اس محاصرے میں سے بخیریت نکل گئے۔ رات بھر جاگ کرپہرہ دینے والوں کی آنکھوں پر اس وقت غنودگی کے جھٹکے نے یک بار پردہ ڈال دیا، جب آپؐ نے قدم مبارک دروازے سے باہر رکھا۔ یوں انھیں کچھ بھی سجھائی نہیں دیا۔ آپؐ اس گھیرے میں سے تو نکل گئے لیکن انسانی جذبات ، وطن کی محبت، جائے پیدائش سے تعلقِ خاطر، اس کے گلی کوچوں سے وابستہ حسین یادیں، پھر سب سے بڑھ کر اس میں موجود بیت اللہ کا تصور اور اس سے دوری کا غم رسولِ رحمتؐ کے دل کو تڑپا گیا۔جنم بھومی سے محبت تو فطری ہوتی ہے۔ یہاں گزرے ہوئے ۵۳ سال ایک تیز فلم کی طرح آپؐ کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ آپؐ نے اس بلدِ امین، ارضِ مقدس اور حرمِ کعبہ کو مخاطب کر کے کہا: ''اے مکہ! اللہ کی قسم، تو خدا کی سرزمین پر سب سے بہتر مقام ہے۔ اللہ کو بھی تو بہت محبوب ہے اور مجھے بھی بہت عزیز۔ میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ جاتا، اگر اہلِ وطن مجھے اس پر مجبور نہ کر دیتے‘‘۔ (ابن ماجہ)۔
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: ''یہ لوگ(یعنی کفار مکہ) کچھ چالیں چل رہے ہیں اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں۔ پس چھوڑ دو اے نبی! ان کافروں کو ذرا کی ذرا ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘ (الطارق۸۶:۱۵-۱۷)۔ مفسرین ومورخین ان آیات کو بھی ہجرت کے موقع کے مناسب حال شمار کرتے ہیں۔ آخری آیت میں تمہیل اور رویداً کے جو الفاظ آئے ہیں، ان میں ٹھہراؤ، اطمینان، سکون، آہستگی اور وقار کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ظاہری حالات ایسے تھے کہ ان میں گھبراہٹ، بھگدڑ، تیزی اور تشویش کا ہونا فطری بات ہے لیکن حکم یہ تھا کہ پورے وقار کے ساتھ کافروں کے گھیرے کے درمیان سے گزریں۔ چنانچہ نبی اکرمؐ اپنی اسی شان اور وقار کے ساتھ اس گھیرے میں سے نکلے جو ان کے مقام رفیع کے عین مطابق تھا۔ اہل ایمان کے لیے اس سارے واقعہ میں بڑی عبرت ہے کہ اگر وہ اللہ کی رضا کے مطابق قدم اٹھائیں، اسی پر توکل اور بھروسا کریں اور مدد بھی اسی سے مانگیں تو کوئی دشمن ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
مکہ سے جانبِ منزل جو سفر شروع ہوا تو آپؐ کو یثرب یعنی شمال کی طرف جانا تھا لیکن مکہ سے نکل کر آپؐ جنوب کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ کا عارضی مسکن اور سفری پڑائو غارِ ثور تھا۔ اس غار کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ حرا کو اپنے وجودِ مسعو د سے آباد کرنے والی پاکیزہ ذات آج رات غارِ ثور کی مہمان تھی۔ غارِ ثور تک کے سفر کا ہر لمحہ یادگار ہے۔ پہاڑوں کی عمودی، بلندیوں تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ رفیقِ سفر ، اولین اہلِ ایمان کا سرخیل، آنحضورؐ کے اپنے الفاظ میں آپؐ کا محسن، ابوبکر صدیق ؓ ساتھ تھا۔ مشکل چڑھائیوں کا مرحلہ آیا تو پچاس سالہ ابوبکر ؓ نے رسالت مآب کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ غار کی جانب سفر کے دوران یارِ غار کبھی شمعِ رسالت کے آگے چلتے، کبھی پیچھے۔
آنحضورؐ نے ابوبکرؓ کی یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا کہ ابو بکر، ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر عرض کیا: ''دل کی عجیب کیفیت ہے۔ آج کائنات کی سب سے قیمتی متاع کا امین میںہوں۔ خیال گزرتا ہے کہ آگے سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جائے تو میں آپؐ کے آگے ہو جاتا ہوں کہ آنے والا خطرہ اپنے سینے پر سہہ لوں۔ پھر خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ پیچھے سے کوئی دشمن حملہ آور نہ ہو جائے تو پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہوں کہ وار کرنے والا آئے تو میں ڈھال بن جائو ں‘‘۔ یوں دو نفوسِ قدسی کا یہ مختصر قافلہ جبلِ ثور کی بلندیوں پر چڑھ گیا اور غارِ ثور میں مقیم ہوا۔ غارِ ثور کی قسمت بھی جاگ اٹھی تھی کہ اسے آیاتِ ربانی کا حصہ بن جانا تھا۔
اللہ نے ارشاد فرمایا: ''تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے اس کے گھر سے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ''غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے‘‘۔ (التوبۃ۹:۴۰)