انسانی فطرت بھی عجیب و غریب پہلو رکھتی ہے۔ کبھی ہم اپنا غم بھول کر دوسروں کے دکھ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسروں کی پریشانی دیکھ کر اپنی پریشانی میں کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے! اگر کوئی ہمیں چُونا لگا جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے مگر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں ہم انوکھے نہیں بلکہ اور بہت سوں کو بھی چُونا لگایا جاچکا ہے تو دِل کو تھوڑی سی راحت ضرور محسوس ہوتی ہے کہ برباد ہونے کے معاملے میں ہم تنہا نہیں، اُلّو بننے والے اور بھی ہیں!
امریکی ریاست وسکانسن کے شہر ملواکی میں ایسا ہی کچھ ہوا۔ میری واکر نے جذباتی پن کا مظاہرہ کیا اور مات کھائی۔ اور مات بھی ایسی کھائی کہ اب عمر بھر یاد رکھے گی۔ امریکا میں مختلف اہم مواقع پر لوگ اندھا دھند شاپنگ کرتے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر تو یہ رجحان خطرناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ''بلیک فرائیڈے‘‘ کے موقع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بہت سی خوبصورت اشیاء سے سجا ہوا ایک ٹرک علاقے میں آیا تو لوگ خریداری کے لیے دوڑ پڑے۔ میری واکر بھی اُن میں شامل تھی۔ ٹرک میں غیر معمولی ورائٹی موجود تھی۔ میری نے ایک آئی فون پسند کیا۔ پیکنگ انتہائی خوبصورت تھی۔ اور قیمت محض 100 ڈالر۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں! میری نے جب اتنی کم قیمت میں آئی فون دیکھا تو ایک پیکٹ خرید لیا اور خوشی خوشی گھر چلی آئی۔
گھر آکر جب اُس نے پیکٹ کھولا تو ''آئی فون‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہی اُس کے ہوش اُڑ گئے۔ ہوش تو اُڑنے ہی تھے کہ پیکٹ میں آئی فون کی جگہ آلو کے چار ٹکڑے رکھے ہوئے تھے جن کا وزن 250 گرام تھا! یعنی میری نے لالچ میں آکر ایک پاؤ آلو 100 ڈالر میں خرید لیے! وہ پیکٹ لے کر بھاگم بھاگ اُس جگہ پہنچی جہاں ٹرک کھڑا کیا گیا تھا مگر، ظاہر ہے، ٹرک تو کب کا جاچکا تھا۔ چُونا لگانے والے رکتے کہاں ہیں! ع
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
والی کیفیت سے دوچار ہونے پر جب میری نے پولیس سے رابطہ کیا تو رپورٹ درج کرلی گئی تاہم پولیس اہلکاروں نے بھی یہ کہتے ہوئے تھوڑی سی لعنت ملامت کی کہ عام طور پر 800 تا ہزار ڈالر میں فروخت ہونے والا آئی فون کوئی 100 ڈالر میںکیسے فروخت کرسکتا ہے! سیدھی سی بات ہے، جب خاصی مہنگی چیز کو اتنی کم قیمت پر فروخت کیا جارہا ہو تو پولیس یا کسی اور متعلقہ ادارے کو پہلے بتایا جانا چاہیے۔
میری واکر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک تھا مگر اِس میں ہمارے لیے تھوڑا سا فرحت کا پہلو یہ تھا کہ لوگوں کو ٹھگنے کے معاملے میں ہمارا معاشرہ منفرد و یگانہ نہیں۔ یہ جان کر خوشی سی ہوئی ترقی یافتہ اور بظاہر خوش حالی سے متصف معاشروں میں بھی لوگ ایک دوسرے کو ٹھگنے کی روش پر گامزن ہیں۔
کراچی میں کم و بیش دو عشروں تک یہی ہوتا رہا کہ لوگ خوشی خوشی پیکٹ خریدتے رہے اور اُن میں سے آلو نکلتے رہے۔ میری کا معاملہ تھوڑا سا مختلف تھا کہ اُس نے پیکٹ کھول کر نہیں دیکھا تھا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ پیکٹ کھول کر دیکھ لینے پر بھی لوگ دھوکا کھانے، خود کو چُونا لگوانے سے باز نہیں آتے۔ ہم چائنا کٹنگ کی بات کر رہے ہیں۔ کراچی کے کئی علاقوں میں رفاہی و غیر وفاہی سرکاری پلاٹس کو یار لوگ شیرِ مادر سمجھ کر پی گئے۔ غیر قانونی طور پر سوسائٹی کے انداز سے پلاٹ کاٹ کر فروخت کردیئے گئے اور لوگوں نے آنکھوں دیکھی مکھیاں نِگلنے میںکوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ پچاس روپے کی چیز اگر پینتالیس یا چالیس روپے میں مل رہی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی مجبوری میں سودا کر رہا ہوگا۔ چلیے، پچاس روپے کی چیز پینتیس تک بھی مل سکتی ہے۔ اب اگر یہ طے ہو کہ کوئی چیز پچاس روپے سے کم کی نہیں اور کوئی شخص وہی چیز پانچ پانچ روپے کی صدا لگاکر فروخت کر رہا ہو تو! جس میں ذرا بھی عقل ہو اُسے سوچنا تو چاہیے کہ قیمت کا اس قدر فرق کیونکر ممکن ہے۔ سیدھی سی بات ہے، یا تو مال چوری کا ہے یا پھر چُونا لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مگر صاحب، کراچی میں لوگوں نے چائنا کٹنگ کے نام پر آنکھوں دیکھی مکھیاں نِگلیں اور بعد میں سَر اور دل تھام کر روتے دکھائی دیئے۔ کئی بھرے پُرے یعنی بسے بسائے، آباد علاقوں میں تیس پینتیس لاکھ روپے والے پلاٹ غیر قانونی طریقے سے تین تین لاکھ روپے میں بیچے گئے اور لوگوں نے بخوشی خریدے۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ سو کی چیز دس روپے میں کیونکر مل سکتی ہے!
بیچنے والے ہمیشہ خریدنے والوں کو نفسیاتی مار مارتے ہیں۔ انسان خریداری کے معاملے میں اعتدال کی راہ سے ہٹنے میں دیر نہیں لگاتا۔ بیچنے والے انسانی مزاج میں پائی جانے والی طمع کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں کہ مکھی خوشی خوشی چلتی ہوئی مکڑی کے جال تک آتی ہے اور اُس میں داخل بھی ہو جاتی ہے۔
امریکا کے معاملے میں بھی ہم کچھ ایسی ہی کفیت سے دوچار ہوئے۔ ہم نے شاندار پیکنگ دیکھ کر ایک پیکٹ خریدا اور جب کھول کر دیکھا تو ہوش اُڑ گئے۔ کیوں نہ اُڑتے؟ ہمارے ذہن میں کچھ تھا اور پیکٹ میںکچھ۔ جو سوچا تھا وہ نہ پاکر یعنی محض آلو کے ٹکڑے پاکر سِٹّی تو گم ہونی ہی تھی۔ ؎
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھلی گئی نہ زیاں تھا نہ سُود تھا!
امریکا سے دوستی اب تک یہی ثابت کرتی آئی ہے کہ ہم نے چمک دمک دیکھ کر پیکٹ خرید لیا اور اُس میں سے آلو نکل آئے! میری کو اتنی سہولت ضرور حاصل تھی کہ وہ پولیس اسٹیشن گئی اور رپورٹ درج کرائی۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے جس سے چمکیلا پیکٹ خرید کر آلو پائے پولیس مین بھی وہی ہے! ایسے میں چپ ہوکر بیٹھ رہنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔
کراچی میں جن لوگوں نے میری کی طرح طمع کے ہاتھوں ہوش کھوکر چائنا کٹنگ والے پلاٹس کا چمکیلا پیکٹ خریدا تھا وہ اب آلو پر گزارا کر رہے ہیں۔ اب کیا کِیا جائے کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں البتہ اب ہمیں سوچ سمجھ کر خریداری کرنی ہے۔ امریکی پیکٹ سے نکلنے والے آلوؤں کو جھیلتے جھیلتے تین نسلوں کا زمانہ گزر گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہوش و حواس کی حدود میں رہتے ہوئے پوری دانش مندی کے ساتھ معقول قیمت والے ایسے پیکٹ خریدیں جن میں ہماری مطلوبہ چیزیں ہوں، محض آلو نہ ہوں! زمانے کی روش بتا رہی ہے کہ جذباتی ہوکر آلو خریدنے والے اُلّوؤں کے لیے اب پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہی! اکیسویں صدی ایسی جذباتیت دکھانے والوں کو کھڈے لائن لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔