تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-12-2017

جاوید ہاشمی کا عقدِ ثانی اور حلقہ این اے 149

بہت سوں کا تجسس ختم ہوا اور بالآخر جاوید ہاشمی دوبارہ مسلم لیگ کے عقد میں آ گئے۔ وہ ابھی اس عقد کا کھل کر اقرار نہیں کر رہے مگر کب تک؟ مفتی قوی خود مصیبت میں گرفتار ہیں‘ ورنہ ان سے پوچھا جاتا کہ یہ عقدِ ثانی حلالہ ہے؟ مگر اب فتوے کے بغیر ہی کام چلانا پڑے گا۔
جاوید ہاشمی سے میرا محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ میں کئی بار بتا چکا ہوں کہ جاوید ہاشمی کا برادر خورد مرحوم مختار ہاشمی میرا دوست تھا۔ خوش باش اور زندہ دل مختار ہاشمی۔ اس کے بارے میں کبھی گمان بھی نہیں تھا کہ وہ اس جوانی میں رخصت ہو جائے گا۔ بہرحال موت کا ایک دن متعین ہے آگے پیچھے ہونا ناممکن۔ سو وہ اپنے وقت پر رخصت ہوا اور ہم اس دن کے منتظر ہیں جس کا آنا برحق ہے۔ مرحوم خود چلا گیا اور جاوید ہاشمی کے ساتھ میرا ایک ایسا رشتہ چھوڑ گیا جو ہم دونوں میں سے ایک کی زندگی تک تو برقرار رہے گا۔ لیکن ایک لکھنے والے اخبار نویس کے اور ایک سیاستدان کے درمیان قائم احترام کا یہ رشتہ نبھانا کم از کم میرے لیے کافی مشکل ہے کہ سچ اور احترام کے درمیان باریک سی حد فاضل کبھی کبھی شاید میں قائم نہیں رکھ پاتا (یہ اعتراف بھی اعترافِ جرم سے زیادہ احترام پر مبنی ہے) بحیثیت برادرِ خورد اس کو قائم رکھنا صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں رشتوں اور ان کے تقاضوں کو نبھانے سے آگاہ اور ان کو نبھانے والی اس آخری جنریشن سے تعلق نہ رکھتا‘ جو اب ختم ہوتی جا رہی ہے تو میرے لیے لکھنا بھی آسان تھا اور اس حد کو عبور کرنا بھی‘ لیکن والدین کی تربیت ان کے چلے جانے سے نہیں بلکہ خود اس دنیا سے چلے جانے تک کام آتی ہے اور کام بھی کرتی ہے۔ سو جاوید ہاشمی سے یہ رشتہ کہ وہ میرے دوست کا بڑا بھائی ہے اور اس حوالے سے وہ میرے لیے قابل احترام ہے ہمیشہ قائم رہے گا۔ کوشش کرتا ہوں کہ یہ رشتہ نبھاتے ہوئے اور بحیثیتِ کالم نگار ممکنہ حد تک سچ لکھتے ہوئے وہ حد عبور نہ کروں جسے گستاخی کہتے ہیں۔ پھر بھی کبھی نہ کبھی کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ میں بھی منانے کی کوشش نہیں کرتا کہ میرا خیال ہوتا ہے کہ میری کوئی غلطی نہیں کہ مجھے اگر اپنی غلطی کا پتا ہوتا تو بھلا میں کرتا ہی کیوں؟ میں تو احترام کے رشتوں کو نبھانے والا آدمی ہوں۔ سو غلطی اور سچ کے درمیان حساب کتاب میں اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہوں اور برادر عزیز جاوید ہاشمی اپنی سوچ کے مطابق۔ ہم دونوں کے درمیان یہ حساب کتاب گڑ بڑ ہو جاتا ہے اور پھر جاوید ہاشمی ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ ناراضی چند دن یا کبھی کبھار ایک آدھ ماہ تک چلتی ہے، پھر جاوید ہاشمی مجھے فون کرکے گھر بلا لیتے ہیں اور تعلقات وہیں سے دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں‘ جہاں سے ان میں رنجش کی بریک لگتی ہے۔ سب گلے ختم اور سب شکوے ہوا ہو جاتے ہیں۔
دو چار ماہ ہوتے ہیں‘ میں نے ایک کالم میں لکھا کہ جاوید ہاشمی اب بار بار وہی پرانا چورن بیچ رہے ہیں جو وہ پہلے بھی کئی بار بیچ چکے ہیں۔ اس جملے پر جاوید ہاشمی مجھ سے ناراض ہو گئے (ایمانداری کی بات ہے کہ میں آج بھی شرح صدر سے یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ جملہ کافی سوچ بچار کے بعد پوری ذمہ داری سے سچ جانتے ہوئے اور احترام کو محلوظِ خاطر رکھتے ہوئے لکھا تھا) مجھے تو اس ناراضی کا پتا ایک قریبی دوست کے ذریعے چلا۔ طارق قریشی میرا اتنا پرانا دوست ہے کہ اب ماہ و سال کا حساب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ پورے شہر کو ہماری دوستی اور اس سے بڑھ کر دلی محبت کا کافی حد تک اندازہ ہے‘ سو اہالیان شہر کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی شادی کا کارڈ کسی ایک کو دے کر دوسرا بھی اسی کو تھما دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایک کو دے دیا تو دوسرے کو خود بخود یا تو مل جائے گا یا پیغام ہی کافی ہے۔ سو ایک شادی کی تقریب پر جاوید ہاشمی کا ٹاکرا طارق قریشی سے ہو گیا تو اسے کہنے لگے کہ میں خالد مسعود سے ناراض ہوں۔ وہ میرے بارے میں الٹ سلٹ لکھتا رہتا ہے۔ طارق نے ہاشمی صاحب کو کہا کہ آپ یہ گلہ اس سے خود کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ جب مجھے یہ پیغام ملا تو میں نے اپنی عادت کے برخلاف محض چھیڑ چھاڑ کی غرض سے جاوید ہاشمی کو فون کر دیا۔ فون اجمل نے اٹھایا۔ میں نے اسے پیغام دیا کہ ہاشمی صاحب سے کہنا کہ اگر وہ مجھ سے ناراض ہیں تو ادھر ادھر پیغام دینے کی بجائے مجھ سے براہ راست ناراضی کا اظہار کریں۔ مجھے فون کرکے گھر بلائیں۔ ڈولی روٹی (ملتان کی خاص سوغات جو اب ختم ہوتی جا رہی ہے مگر جاوید ہاشمی کو کہیں سے اب بھی بڑی عمدہ مل جاتی ہے۔ ہلکی میٹھی چھوٹے سائز کی پھولی ہوئی اور کبھی گھی میں تلی ہوئی روٹی جس کے ایک طرف خشخاش لگی ہوتی ہے) کھلائیں‘ قہوہ پلائیں اور شکوہ کریں۔ اس سے کم پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اجمل بڑا ہنسا اور کہنے لگا کہ میں مخدوم صاحب کو آپ کا پیغام دے دوں گا۔ میں نے کہا: پیغام دیتے ہوئے ڈنڈی نہیں مارنی اور خاص طور پر ڈولی روٹی والی بات کے معاملے میں تو بالکل بھی نہیں۔
دو چار دن بعد ہاشمی صاحب کا فون آ گیا۔ پوچھا: کب آ رہے ہو؟ میں نے کہا: جب ڈولی روٹی بنوائیں گے اور بلائیں گے۔ کہنے لگے: آج کہیں سے ڈولی روٹیاں آئی تھیں سو تم یاد آ گئے‘ صرف ایک بچی ہوئی ہے۔ میں ہنسا اور ان سے کہا:آپ کی ازلی کنجوسی اب بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہی‘ بہرحال یہ ایک ڈولی روٹی بھی کافی ہے‘ میں چار بجے آ جائوں گا۔ پورے چار بجے میں ان کے گھر پہنچ گیا اور چھوٹتے ہی پوچھا کہ وہ مجھ سے ناراض کیوں ہیں؟ کہنے لگے: تمہارے چورن بیچنے والے جملے سے۔ میں نے کہا: مگر وہ جملہ تو سو فیصد سچ پر مبنی تھا۔ کہنے لگے: وہ سارا جھوٹ ہے۔ میں نے کہا: اس پر بحث فضول ہے کہ ہر شخص کا سچ بھی اپنا ہوتا ہے اور جھوٹ بھی۔ تاہم میں آپ کے گھر میں بیٹھ کر ڈولی روٹی کھاتے ہوئے اور قہوے کی سرکیاں لگاتے ہوئے اپنے ضمیر اور اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر عرض کرتا ہوں کہ یہ جملہ میرے نزدیک کل بھی سچ اور آج بھی سچ ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا: اور میرے نزدیک یکسر غلط۔ میں نے کہا: اگر آپ اپنی غلطی مان جائیں تو آپ سیاستدان نہ ہوئے۔ ہنس کر کہا: زیادہ باتیں نہ بنائو اور ڈولی روٹی کھائو۔ پھر سائیڈ پر پڑے ہوئے مرتبانوں کی طرف اشارہ کرکے کہا: یہ کھائو۔ چھوٹے چھوٹے شیشے کے مرتبانوں میں کاجو‘ پستہ اور بادام تھے۔ میں نے کاجو والا مرتبان کھولا اور ہنس کر پوچھا: ہاشمی صاحب خیر ہے؟ آج آپ اتنی سخاوت پر کیسے اتر آئے ہیں؟ وہ بھی ہنسے اور کہا: یہ سخاوت صلح کی خوشی میں ہو رہی ہے۔ میں نے کہا: مگر ہماری ناراضی کب ہوئی تھی؟ ہاشمی صاحب نے کہا: میں تو ناراض تھا‘ رہ گئی تمہاری بات تو تمہیں کسی کی ناراضی کی بھلا پروا ہی کب ہوتی ہے؟ میرے علاوہ تمہارے ملتان کے کتنے سیاستدانوں سے تعلقات ٹھیک ہیں؟ کتنوں سے بول چال ہے؟ نوے فیصد سیاستدانوں سے تمہاری سلام دعا ٹھیک نہیں۔ تمہیں بڑے بھائی کی ناراضی کی فکر تو ایک طرف‘ علم بھی نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: گلے شکوے چلتے رہیں گے‘ انشاء اللہ آئندہ بھی‘ لیکن فی الحال سیاست پر بات ہو جائے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا کہ ملتان شہر کے حلقہ این اے 149 سے آپ کے علاوہ اور کوئی شخص پی ٹی آئی کو یہ سیٹ جیتنے سے نہیں روک سکتا۔ جاوید ہاشمی کہنے لگے: میں نے یہ کالم بھی پڑھا تھا‘ تم نے ٹھیک لکھا ہے۔ میں نے کہا: میں نے یہ بات ٹھیک لکھی ہے اور چورن والی بات غلط لکھی ہے‘ جو بات آپ کو پسند آئے وہ ٹھیک ہے اور جو پسند نہ آئے وہ غلط ہے۔ ہنس کر کہنے لگے: پھر وہی بات شروع کر دی تاہم چورن والی بات غلط تھی۔ میں نے کہا: اس مسئلے پر کوئی مروت نہیں چلے گی۔ وہ بات میں نے ٹھیک لکھی تھی۔ اس بات پر ایک بار پھر تکرار شروع ہو گئی۔
میں نے ایک دم درمیان میں کہا: چورن والی ٹھیک تھی مگر آپ مجھے بتائیں آپ حلقہ این اے 149 سے الیکشن لڑ رہے ہیں ناں؟ ہاشمی صاحب کہنے لگے: ہاں! لڑ رہا ہوں۔ میں نے کہا: اب اس پر بات کرتے ہیں۔ ہاشمی صاحب نے ایک دو منٹ کا توقف کیا اور پھر کہا: پہلے تم اپنا خیال بتائو پھر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میرا کیا ارادہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved