دس بارہ برس پہلے کی بات ہے کہ کینیڈا سے آئے ایک پاکستانی دوست نے کچھ اردو کتابیں خریدنا چاہیں۔ میرے ہمدم سید عمران شفقت نے سنا تو فوری طور پر لاہور کے صفاں والا چوک سے خریداری تجویز کی اور فوری طور پر چلنے کا حکم بھی صادر فرما دیا۔ ان دنوں گرمی اتنی شدید پڑ رہی تھی کہ معمولی سا سایہ بھی گوشہء عافیت معلوم ہوتا تھا۔ خیر شاہ جی کی رہنمائی میں یہ تین رکنی قافلہ جھلسا دینے والی لُو میں نکلا اور صفانوالا چوک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر گاڑ ی کھڑی کرنے کے لیے ہمیں جو جگہ ملی، وہاں کچھ لوگ پہلے سے ہی ویگن کے انتظار میں کھڑے تھے۔ یخ بستہ گاڑی سے نکل کر ہمیں شاید پچاس قدم چل کر مطلوبہ دکان تک پہنچنا تھا۔ شاہ جی اور میرے لیے گرمی سے لے کر ویگن کے انتظار تک کے تمام مناظر پرانے ہی تھے مگر کینیڈا میں پلے بڑھے دوست کے لیے یہ گرمی جہنم کی آگ تھی اور ان کے لئے پچاس قدم کا یہ فاصلہ گویا آگ کے الاؤ سے گزر کر جانا تھا۔ جیسے ہی ہم گاڑی سے نکلے ہمارے قریب ہی ایک ویگن آکر رکی جس میں سواریاں ٹھنسی ہوئی تھیں۔ سٹاپ پر کھڑے چند لوگ مزید اس ویگن میں اپنا وجود ٹھونسنے میں کامیاب ہو گئے اور ویگن تیزی سے آگے نکل گئی۔ کینیڈا سے آیا دوست‘ جو ٹھنڈی گاڑی میں بھی گرمی گرمی چلا رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر ایک لحظہ حیرت میں ڈوب کر ٹھٹک سا گیا، پھر اس نے ہم دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا، ''دوستو، اس طرح ویگن میں پھنس کر جانا، کیا ان لوگوں کا معمول ہے؟‘‘ ہم دونوں نے کندھے اچکا کر کہا صرف انہی لوگوں کا کیوں ، لاہور کے لاکھوں لوگوں کا معمول یہی ہے۔ ہماری بات سن کر وہ تھوڑی دیر خاموش رہا اور جب کتابوں کی دکان کے اندر داخل ہونے لگے تو بولا، ''یار اگر یہ ان کا روزمرّہ کا کام ہے تو پھر یہ زندہ کیوں ہیں؟ کون سی چیز انہیں مر جانے سے روکے ہوئے ہے؟‘‘۔ میں نے فوری طور پر اسے کوئی عالمانہ سا جواب دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس کا سوال کانٹے کی طرح دل و دماغ میں اٹک گیا۔ جو منظر میں نے ہزاروں بار دیکھا تھا اور سینکڑوں بار میں خود اسی منظر کا حصہ بھی رہ چکا تھا، میرے لیے ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ مجھے لگنے لگا کہ یہ منظر قدرتی نہیں ہے بلکہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اسے ترتیب دینے والوں نے نہایت ہوشیاری سے اکثریت کو غربت، لاچاری اور ظلم سہنے پر مجبور کر رکھا ہے اور دنیا کی ہر نعمت اپنے لیے مخصوص کر لی ہے۔ اس اکثریت کو کبھی بنام خدا ظلم سہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی بنامِ وطن قربانی پر آمادہ کیا جاتا ہے اور آج کل جمہوری نظام کی گاڑی میں ایندھن کے طور پر جلایا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں ریاست، سیاست اور جمہوریت کے نظام کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ غریب ہمیشہ غریب رہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے۔ پیسے والے کے لیے نظام مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو سرمائے کی آندھی میں ٹھہرتا ہی نہیں اور غریب اس جالے میں مکھی کی طرح پھنس جائے تو کبھی نکل ہی نہیں سکتا۔
اس واقعے کے بعد کبھی کبھی خود پر انتہا پسندی کا گمان گزرتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہا کہ یہ تاثر تقویت ہی پکڑتا گیا۔ ایک بار پاکستان کی ایک سابق وفاقی وزیر کے پاس کچھ دیر بیٹھنے کا موقع ملا تو فرمانے لگیں، ''اس ملک میں لوگ کتے بلیوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور کتے بلیوں کی طرح مر جاتے ہیں‘‘۔ میں ان کی بات سن کر ششدر رہ گیا کہ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی نگاہوں میں عام آدمی کی عزت! آپ کو شاید معلوم ہو کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک محکمہ بھی کام کر رہا ہے۔ ایک دفعہ اس کی عالی شان تقریب میں شرکت کی تو معلوم ہوا کہ غربت بھی آج کل بہت اچھا مال تجارت ہے۔ فنکار لوگ غریبوں کی قسمت بدل دینے کے خوشنما منصوبے بنا کر دام کھرے کرتے ہیں۔ زیادہ بڑے فنکار حکومت کے ساتھ مل کر غربت مٹانے کے لیے ادارے بھی بنا لیتے ہیں اور ریاست کے داماد بن کر بیٹھ کر اینڈتے رہتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے فنکار غریبوں کے نام پر عالمی اداروں سے قرضے بھی لے آتے ہیں اور لمبا ہاتھ مار کر ٹی وی پر تجزیہ کاری فرمانے لگتے ہیں۔
مایوسی گناہ ہے مگر امید کی کوئی کرن بھی تو ہو۔ اس قوم کی کشتی کے ناخدا سیاست دانوں کو دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پارلیمان امرا کے کلب میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پیسہ اور بے پناہ پیسہ نظریات کو بہائے لیے جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ایک آدھ غریب کارکن کی صرف اس لیے پذیرائی کر دی جاتی ہے کہ لوگوں کو بے وقوف بنانے میں آسانی رہے اور معاف کیجیے گا‘ یہ غریب کارکن بھی کسی نہ کسی بڑے کا فرنٹ مین ہی ہوتا ہے۔ یہ جو آپ کو اپنے اپنے شہروں میں بعض جید سیاسی کارکن حکومتوں کے قریب نظر آتے ہیں، بے چارے مجلس کی جوتیوں پر ہی بیٹھتے ہیں۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کا نام ای او بی آئی سکینڈل میں آیا مگر بڑی سہولت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ اس نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو سرمایہ فراہم کرتا ہے مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ اپنے فرنٹ مین ایم پی اے کے ذریعے عمران خان کے جلسے بیچتا ہے۔ طریقۂ واردات یہ ہے کہ جہاں جلسہ ہو وہاں ایم این اے یا ایم پی اے کے ٹکٹ لینے کے خواہشمندوں سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں‘ جو جلسے کے اخراجات سے عام طور پر دو گنا ہوتے ہیں۔ آدھے پیسوں میں جلسہ کرکے باقی پیسے جیب میں ڈال لیے جاتے ہیں۔ جماعت میں شامل ہونے کا اضافی فائدہ یہ کہ جیسے ہی سرکار اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے تو سیاسی انتقام کا نعرہ بلند ہو جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن تو الا ماشااللہ کھاتے پیتے لوگوں کی جماعت ہے‘ لیکن حالت یہ ہے کہ اس کے قائدین کی چائے بھی سرکاری پیسے سے بنتی ہے۔ یہاں بھی کلچر یہ ہے کہ رائے ونڈ کا گھر اگر وزیر اعظم ہاؤس نہیں رہا تو اسے وزیر اعلیٰ ہاؤس بنا دیا گیا۔ سات سال تک ماڈل ٹاؤن لاہور میں مسلم لیگ ن کا دفتر وزیر اعلیٰ کے کیمپ آفس کے طور پر سرکاری خرچے پر چلتا رہا‘ اور اس کی سرکاری حیثیت تبھی ختم ہوئی جب این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے شکایت کی کہ ایک سرکاری عمارت سے ان کے خلاف الیکشن کمپین چلائی جا رہی ہے۔ اس جماعت میں حفظِ مراتب کا خیال اتنا زیادہ ہے کہ کارکن قائدین کی یکطرفہ محبت میں دبلے ہوئے جاتے ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ملتان کے صدر بلال بٹ نے وہاں کے وکلا کے کسی اجتماعی کام کے لیے بیس دنوں میں درجنوں فون وزیر اعلیٰ شہباز شریف، ان کے سیکرٹری اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو کیے مگر ان میں سے ایک کا بھی جواب نہ دیا گیا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب میں مسلم لیگ کے ضلعی صدور میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے شہباز شریف کی بارگاہ میں کورنش بجا لانے کا موقع میسر آیا ہو۔ جس جماعت کا ضلعی صدر اپنے وزیر اعلیٰ تک رسائی حاصل نہ کر سکے اس جماعت سے یہ توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی کہ مجبور و مقہور لوگوں کو سینے سے لگائے گی ۔ بس الیکشن میں ووٹ کھرے کرنے کے لیے چالبازی کی جائے گی اور بس۔
آج کی پیپلز پارٹی کے تو کیا ہی کہنے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کے منتخب اراکین بھی اپنے لیڈروں سے ملاقات کا وقت لینے کے لیے پیسے دینے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے ایک تو اتنا سادہ تھا کہ ٹی وی پر چلا اٹھا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ابھی پچھلے دنوں پارٹی نے نذرانہ مانگا تو ایک خاتون نے صاف کہہ دیا کہ اسمبلی کی تنخواہیں پارٹی کی خدمت میں حاضر ہیں، میں باز آئی اس سیاست سے۔ اس پارٹی سے اب کیا توقع رہ گئی ہے۔
بے شک مایوسی گناہ ہے، مگر امید کی کوئی کرن، کوئی ایک کرن کہیں تو دکھائی دے۔