تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     06-12-2017

نکاح کی ضرورت ‘ اہمیت اور آداب

2 دسمبر کو مجھے اپنے قریبی دوست حافظ طارق محمود یزدانی کی دختر کے نکاح کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس کا انعقاد لالہ موسیٰ کے ایک مقامی شادی ہال میں کیا گیا تھا۔ نماز عصر کے بعد ہونے والی اِس تقریب میں گجرات بھر سے نمایاں سیاسی اور مذہبی شخصیات شریک ہوئیں۔ سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ ، تنویر اشرف کائرہ، قاضی عبدالقدیر خاموش اور حافظ ذاکر الرحمن صدیقی کے علاوہ بھی بہت سی اہم مذہبی ، سیاسی اور سماجی شخصیات اس موقع پر موجود تھیں۔ اس تقریب میں مجھے نکاح پڑھانے کے ساتھ ساتھ حاضرین کے سامنے نکاح کی ضرورت ، اہمیت اور آداب کے حوالے سے اظہارِ خیال کی بھی دعوت دی گئی۔ 
اس موقع پر میں نے اسلام کے تصورِ عفت وعصمت اور نکاح کی اہمیت کو دوست احباب کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کی اور سامعین کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان میں بہت سے خصائص ، صلاحیتوں اور جبلی تقاضوں کو ودیعت کیا ہے۔یہ جبلی تقاضے انسان میں ایک توانائی اور حرکت کو پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ اور سبب ہیں اور انسان اِن تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی بہت سی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ چنانچہ بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لیے کاروبار زندگی کو چلایا جاتا ہے‘ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے لوگ جائز اور ناجائز راستوں کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سلیم الطبع لوگ ہمیشہ رزق حلال کھانے کو ہی پسند کرتے اور اسی کی طرف اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور متعلقہ لوگوں کو راغب کرتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو لوٹ کھسوٹ کا مال جمع کرے ‘ یتیموں اور بیواؤں کی حق تلفی کرے اور دوسروں کا حق مار کے اپنی تجوری میں رقم جمع کرے لوگ اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس طرح رزق حرام کھانا اچھی فطرت کے لوگوں کی نظر میں ایک قبیح فعل ہے، اسی طرح بدکرداری کا ارتکاب کرنا بھی ایک انتہائی ناپسندیدہ امر ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرمایا ''اور تم زنا کے قریب مت جاؤ۔‘‘گویا کہ زنا کرنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اس کے قریب جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ زنا سے بچاؤ کے لیے اسلام نے پردے داری کے ساتھ ساتھ نکاح کا تصور پیش کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بدکرداری سے بچا جا سکتا ہے۔بخاری ومسلم شریف کی روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرم گاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لیے ڈھال ہو گا۔
اسلام میں داماد اور بہو کے انتخاب کے لیے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں کہ ان کا دین اور اخلاق اچھا ہونا چاہیے۔ جامع ترمذی کی ایک حدیث میں ارشاد ہوا : ''اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ اپنی (بہن ، بیٹی) کی شادی کر دو۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔‘‘ حدیث پاک میں دین اور اخلاق کے اکٹھے ذکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین کا تعلق حقوق الٰہی اور اخلاق کا تعلق انسانوں کے حقوق کے ساتھ ہے۔ جب ہم ایسے شخص کو پا لیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے والا ہو تو اس کے نکاح کر دینا چاہیے۔ یہی معاملہ بہو کے انتخاب میں بھی ہے کہ عورت کے جمال، حسب اور مال کے مقابلے میں اس کے دین کو ترجیح دینی چاہیے۔ اگر دین کی پختگی کے ساتھ دیگر خصائص بھی حاصل ہو جائیں تو بہت بہتر ہے ۔لیکن دین کو قربان کرکے باقی اوصاف والی بہو کو لانا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ عصر ِحاضر میں معاشرتی بیگاڑ کی بہت بڑی وجہ رشتوں کا غلط چناؤ ہے۔ ہم بالعموم اُن رشتوں کو منتخب کرتے ہیں کہ جن کے پاس مال ودولت اور دنیاوی اسباب تو موجود ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس دین اور کردار کی نعمت نہیں ہوتی۔ بہو اور داماد کے درست انتخاب کے بعد میں نے خطبہ مسنونہ کے ساتھ پڑھی جانے والی آیات کی روشنی میں نکاح کے دن اور بعد میں آنے والی زندگی کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ خطبہ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات درج ذیل ہیں :
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے (ایسے )ڈرو(جیسا کہ) اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ (سورہ آل عمران: آیت نمبر102)
اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک جان (آدم) سے اور اس نے پیدا کیا اُس (جان) سے اس کا جوڑا اور پھیلا دیے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اللہ سے جو (کہ) تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا واسطہ دے کر اور رشتوں(کو توڑنے ) سے(بھی ڈرو) بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ (سورہ نساء :آیت نمبر1 )
اللہ سے ڈور اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔ (سورہ احزاب :70 ، 71)
قرآن مجید کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے ان تین آیات کو چنا گیا۔ جب ان آیات کے مفہوم پر غور کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان آیات کا انتخاب بلاسبب نہیں کیا بلکہ ان آیات میں نکاح والے دن اور بعد میں آنے والی زندگی کا پورا لائحہ عمل اور زندگی گزارنے کے آداب احسن طریقے سے بیان کر دیے گئے ہیں۔آیات میں درج ذیل نکات بیان کیے گئے ہیں:
1۔ اللہ کا خوف: پہلی بات جو ان آیات مبارکہ میں تین مرتبہ بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو اللہ سے ڈر جانا چاہیے ۔ کوئی بھی معاہدہ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ڈر شامل ہو جائے اس میں خیر وبرکت اور بھلائی کے امکانات خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی نکاح جس میں لڑکے کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جائے تو وہ کبھی بھی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔ اس طرح اگر لڑکی کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور خوف پیدا ہو جائے تو وہ کبھی بھی اپنے خاوند اور سسرال کے بارے میں بری نیت کا اظہار نہیں کرے گی۔ 
2۔ اسلام پر موت: دوسری بات جو ان آیات مبارکہ میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ انسان کو اپنی موت کے وقت کا پتہ نہیں۔ انسان کسی بھی لمحے دنیا سے رخصت ہو سکتا ہے چنانچہ انسان کو ایسی زندگی گزارنی چاہیے کہ اس کو جب بھی موت آئے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے تابعداروں میں شامل ہو۔ 
3۔ تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں: تیسری بات جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں ایک جان یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور اس میں سے ان کی بیوی کو پیدا کیا ۔ نکاح کے موقع پر انسانوں کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ تم ایک باپ آدم اور ماں حوا کی اولاد ہو اور ہمیں اپنے قبیلے اور برادری کو دوسرے قبیلے اور برادری سے بہتر نہیں سمجھنا چاہیے۔بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور خوف کا احساس ہمہ وقت ہمارے دل میں رہنا چاہیے۔
4۔ سیدھی بات کی تلقین: چوتھی بات جو ان آیات مبارکہ میں کہی گئی وہ یہ ہے کہ انسانوں کو سیدھی بات کرنی چاہیے۔ اس کا نتیجہ اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی معافی کی شکل میں نکلتا ہے۔ شادی کے موقع پر کئی مرتبہ لڑکے کی آمدن اور اسی طرح کئی مرتبہ لڑکی کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ جب حقیقت کھل جاتی ہے تو عزت، وقار اور تعلقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں لیکن اگر سچائی سے کام لیا گیا ہو تو اللہ کی رحمت اور اس کے فضل وکرم سے اصلاح والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور انسانوں کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ 
5۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں حقیقی کامیابی ہے: اسی طرح ان آیات مبارکہ میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اس کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ اس آیت میں نکاح کرنے والے لڑکے ، لڑکی اور ان کے خاندان کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ کامیابی رسم ورواج کی پیروی یا معاشرتی رویوں کے پیچھے چلنے میں ہے تو ان کا یہ خیال خام ہے۔ بلکہ حقیقی کامیابی اگر حاصل ہو گی تو انہی لوگوں کو حاصل ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ اس تقریب نکاح کے دوران ملک کی سیاسی اور مذہبی صورتحال کے حوالے سے نمایاں شخصیات کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی ملا اور خطبہ نکاح کے بعد باضیافت کھانے کے ساتھ یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved