تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-12-2017

ڈرلگتا ہے

2018ء مسلمانوں کے لئے کڑی آزمائش کا سال ہے۔ یروشلم اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں‘ جو بنیادی طور پر عربوں کا وطن تھے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد فوراً ہی اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کر دی گئی۔ عملی طور پر دوسری جنگ عظیم سے محفوظ رہنے والے امریکہ نے‘ دنیا بھر کے یہودیوں کو احسان مند کرنے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے ‘ ایک چھوٹے سے علاقے پر قبضہ کیا اور اسرائیل کے نام سے‘ یہودیوں کی ایک ریاست بنا دی گئی۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر صدیوں سے بھوکی اور بھٹکتی ہوئی یہودی قوم کو‘ اسرائیل کے نام سے وطن مہیا کر دیا گیا۔ یہودیوں کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔ اب یہ خواب پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ اس زمانے میں جمال عبدالناصر عرب دنیا کے طاقتور حکمران تھے۔ اگر عرب دنیا متحد ہو کر‘ باہمی دفاعی معاہدے کر کے اپنے مستقبل کو تحفظ دے لیتی اور امریکہ کی مقابل طاقت‘ سوویت یونین‘ منتشر مسلم دنیا کے ساتھ تعاون کر لیتی تو یہ مشکل کام نہ ہوتا۔ ناصر نے عرب دنیا کا تصور دے کر‘ یہ امکان پیدا کر دیا تھا کہ عرب قوم پرستی کی بنیاد پرکم ازکم شرقِ اوسط کے ممالک‘ فوجی معاہدے کر لیتے تو اسرائیل کے مقابل‘ ایک منظم عرب طاقت وجود میں آ سکتی تھی۔ لیکن عالمی طاقتوں نے فلسطینی ریاست پر نظریں گاڑ رکھی تھیں۔ امریکہ نے سب سے پہلے سعودی عرب کے تیل کے ذخیروں پر قبضہ کیا۔ بعد میں اپنے اڈے بھی بنا لئے۔ سعودی حکمرانوں کے ساتھ مفاد پرستانہ ضروریات کے تحت تعلقات استوار کر لئے۔ اس دور میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک سعودی عرب تھا۔ دولت سے مالا مال ہونے والے شہزادوں کو دنیا میں صرف دو ہی ملک اچھے لگتے۔ وہ اپنی جیبیں بھر کے امریکہ اور برطانیہ کے جوئے خانوں اور عشرت کدوں میں راتیں گزارتے۔ امریکہ نے انہیں جو سب سے پہلی چیز دی‘ وہ ڈالر اور پائونڈ تھے۔ یہی حال شام اور مصر کا تھا۔ یہ آپس میں اتحادی بنے اور پھر الگ الگ ہو بیٹھے۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی اسلامی بلاک کا تصور رکھتا تھا۔ لیکن ہمارے حکمران امریکہ کے اتحادی یا پٹھو بن چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب حکومت ملی‘ اس وقت مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب پھر بھی اسلامی بلاک بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اسے عملی شکل دینے کے لئے ایک تجویز پیش کی۔ کم و بیش سارے مسلم ملکوں کو اسلامی بلاک کا حصہ بنانے کے لئے جہاں ممکن ہوا‘ رابطے قائم کر کے اسلامی کانفرنس منعقدکر ڈالی۔
جو حکمران اپنی متحدہ طاقت منظم کر کے‘ عالمی برادری میں ایک طاقتور اور با اثر بلاک بنانے کی طرف مائل ہو چکے تھے‘ وہاں فرقہ بندی کا شوق رکھنے والے مسلمانوں میں‘ سیاسی اتحاد کا تصور جڑ نہ پکڑ سکا۔ سعودی عرب سب سے زیادہ مالی طاقت رکھتا تھا۔ وہاں کے حکمران‘ شاہ فیصل تھے۔ انہوں نے مسلم بلاک کے تصور کو گرم جوشی سے قبول کیا۔ وہ یہاں تک جذباتی ہو گئے کہ جب ایک امریکی نمائندے نے ان کو اسلامی بلاک میں شریک ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو شاہ فیصل نے جواب دیا ''تم زیادہ سے زیادہ کیا کر لو گے؟ 
ہم اونٹنی کا دودھ پی کر اور کھجوریں کھا کے زندہ رہ سکتے ہیں مگر تم ہمارے پٹرول کے بغیر کیا کرو گے؟‘‘ یہ ایک جذباتی سوچ تھی۔ عالمی طاقتیں‘ جن کے پاس دنیا بھر کے وسائل تھے‘ مسلم بلاک کو توڑنے کی منصوبہ بندی میں لگی رہیں۔ شاہ فیصل کو ایک خاندانی تنازع میں شہید کر کے‘ دنیا سے رخصت کر دیا گیا۔ الجزیرہ کے حکمران حادثاتی موت کا شکار ہو گئے۔ معمر قذافی‘ پاکستان کے مذہبی پیشہ وروں کو خوش حال کرتے کرتے خود بدحالی کی موت مر گئے۔ اسرائیل نے لبنان اورشام کے دو ٹکڑے کر کے اپنا حصہ بنا لیا۔ اسلامی بلاک بنانے کا جنون رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو ‘ اپنے ہی ملک میں پھانسی پرچڑھا دئیے گئے۔ اس طرح اسلامی بلاک کا تصور‘ خواب و خیال بن کے رہ گیا۔ سعودی عرب جس کے پاس دولت اور تیل وافر تھے‘ آج اسے اپنے گھر کی پڑی ہوئی ہے۔ 70کے قریب شہزادوں کو ایک سیون سٹار ہوٹل کو‘ جیل خانہ بنا کر وہاں قید کر دیا گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ کروڑوں ڈالروںمیں کھیلتے ہوئے شہزادے‘ جب سیون سٹار جیل میں گئے اور معافیاں طلب کرتے ہوئے بزرگوں سے رہائی مانگ رہے ہیں۔ نیا سال مسلمانوں کے لئے وبال کی طرح آ رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہو چکا۔ اسرائیل خطے کے مسلم ملکوں کو اپنے دبائو میں لا رہا ہے۔ آنے والے دور میں اسرائیل‘ خود کو سعودی عرب کی دولت اور امریکی ہتھیاروں کے ساتھ‘ ایک علاقائی طاقت میں بدلنا چاہتا ہے۔ کسی بھی وقت امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ‘ اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کر کے‘ عالمی سرمائے کی منڈی پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر کاروبار کرنے والے‘ ہمارا کیا حشرکرتے ہیں؟ مجھے اس کا تصور کرکے ڈر لگتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved