تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-12-2017

ہمیں ان سے واسطہ کیا؟

کمزوری اہل ایمان میں ہے کہ اہل ایمان ہی نہیں۔ یقین ہی وہ نم ہے‘ جس میں سرخروئی کی فصل اگتی ہے۔ علم و عمل کی ہم آہنگی اگر نہیں‘ تو کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
بحث کے نازک موضوعات ہیں اور جذبات سے مغلوب گروہ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ زندگی کی کچھ بہترین تحریریں‘ گزشتہ ایّام میں سوشل میڈیا پہ پڑھیں۔ ان میں سے ایک تفسیر کلام پاک کے باب میں تھی۔ فوراً ہی تاثرات کا ایک طوفان امڈ پڑا۔ زیادہ تر وہی طنز و تردید کا شعار۔ طنابیں ٹوٹ گئی ہیں۔ نئی آزادی ہے اور ہر کوئی اس سے فیض یاب ہونے کا‘ نمودِ ذات کا تمنائی۔ کس سلیقے‘ احتیاط اور شائستگی سے چند نکات اس طالب علم نے اٹھائے تھے۔ دل اس کا دکھ گیا ہو گا۔
جن موضوعات کا ابتدا میں ذکر کیا‘ وہ مختلف ہیں۔ پاکستانی لبرلز اور داڑھی کے بارے میں کپتان کا ایک جملہ: سیاست میں جن داڑھی والوں کو دیکھا‘ 80 فیصد ان میں ''دو نمبر‘‘ ہیں‘ باقی بیس فیصد مشکوک۔ جمعیت علمائِ اسلام کے ہمنوا اس پہ برہم ہیں۔ جواب میں وہی یہودیوں کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ اور شعارِ اسلامی کی توہین کا فتویٰ۔
کشف المحجوب کا وہی جملہ: جس سنت کو اہلِ فسق اختیار کر لیں‘ اس سے گریز‘ اس کی پیروی سے بہتر ہے۔ مصر کے یہودی لمبی لمبی داڑھیاں رکھا کرتے ہیں۔ مصری علماء نے برعکس کرنا شروع کیا۔ اخوان المسلمین کے بانی‘ حسن البنا سمیت‘ ان میں سے کوئی دراز ریش دکھائی نہ دے گا۔ مصر ی مسجد میں ایک پاکستانی مسافر وضو کر رہا تھا۔ ایک مقامی نے اس سے کہا: شرم نہیں آتی تمہیں؟ وہ حیران کہ ماجرا کیا ہے۔ مصری نے کہا: یہودیوں کی طرح لمبی داڑھی!
تیرہ برس ہوتے ہیں‘ منیٰ میں قیام۔ ایک شب ایک مشہور واعظ نے‘ جو ٹی وی پر اردو اور انگریزی میں درسِ قرآن دیا کرتا‘ لائوڈ سپیکر پہ وعظ کا در کھولا تو کھولے ہی رکھا۔ خطیبوں کو اپنی آواز سے محبت ہو جاتی ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خان یہ شعر پڑھا کرتے:
ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی
عجیب چیز ہے‘ یہ طولِ مدعا کے لئے
داڑھی کے فضائل بیان کرتے‘ اس قدر جوش میں آئے کہ سنت یا واجب کی بجائے اسے فرض قرار دے دیا۔ خطاب تمام ہوا تو ان کے ایک ہم نفس میرے پاس تشریف لائے۔ چھوٹتے ہی بولے: فوراً میاں نواز شریف کی خدمت میں حاضر ہونا ہے۔ خطاکار حیرت زدہ کہ عبادت کی شب انہیں کیا سوجھی۔ ناچیز کی رائے یہ تھی: کیا کوئی بھکاری‘ دوسرے بھکاری کے پاس جاتا ہے۔ شہزادے کیا‘ عامی کیا۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سوالی ہیں۔
نام نہیں لوں گا۔ پاکستان کے بعض مشہور علماء کو حرم کی حدود میں‘ اس قدر غیر محتاط دیکھا کہ تعجب ہوا۔ اس طرح گھوم پھر رہے ہوتے کہ گویا چمن کی سیر کرتے ہوں۔ اللہ کے گھر پہ نظر اور نہ اپنی خطائوں پہ۔ سانس بھی جہاں تعظیم کے ساتھ لینی چاہیے‘ نمازوں کے وقفے میں وہاں قہوہ خوری۔ یاد رہے کہ ذکر رمضان المبارک کے ایّام کا نہیں۔ قصہ امام مالکؒ کا سناتے ہیں کہ شہرِ نبی ؐمیں ننگے پائوں ہوتے۔ یہ خیال دامن گیر کہ کبھی سرکارؐ کے قدموں نے اس خاک کو چھوا تھا۔ 1995ء میں ایک درویش کے ساتھ‘ ذاتی طور پر جن سے شناسائی نہ تھی‘ پہلی بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ انہیں بھی اس روش پر پایا۔ زیادہ تر خاموش رہے۔ سر جھکائے‘ سرکارؐ کی مسجد میں داخل ہوتے۔ پچھلی صف میں نماز پڑھتے۔ روضۂ رسولِ اکرمؐ کے سامنے سے گزرتے تو اس طرح کہ جیسے کوئی مفلس سخی کے ہاں۔ ایسے ہی غنی ہیں‘ جن کے طفیل‘ اجالا آج تک باقی ہے۔ وگرنہ ہم سے خطاکار‘ وگرنہ ہم سے ریاکار۔
جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا 
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
عرفات میں ایک واعظ دعا کے فلسفے پر لیکچر دینے اٹھے تو تھمتے نہ تھے۔ سامعین زچ‘ بعض اٹھے کہ میدان کی وسعت میں دعا مانگیں۔ عرفات دعا ہی کا نام ہے۔ دعا اور فقط دعا۔ اللہ اور بندے کے درمیان سارے حجاب رخصت ہو جاتے ہیں۔ دل ہے کہ دھل سا جاتا ہے۔ کوئی رنج‘ کوئی زخم‘ کوئی شکایت اور کوئی عناد باقی نہیں رہتا۔ بس ایک خیال بچتا ہے‘ بندگی کا۔ ایک احساس متشکّل‘ پروردگار کی اطاعت کا۔ کل کائنات کا وہ محسنؐ روبرو سا ہوتا ہے‘ آنے والی نسلوں کے لئے بھی جو فکرمند تھا۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
راوی بیان کرتے ہیں‘ ساڑھے تین گھنٹے آپ ؐنے ہاتھ اٹھائے رکھے۔ کیا کیا تمنا اور کیسی کیسی دعا۔ ان نورانی ساعتوں کا کچھ فیض‘ کیا ہم تک بھی پہنچا ہو گا؟ کیوں نہیں۔ یہ جو کبھی باطن کی سیاہی سے نبرد آزما ہونے کا خیال جگمگا اٹھتا ہے؟ یہ جو کبھی سجدے کی تڑپ جاگتی ہے؟
کسی نے پوچھا: یارسول اللہؐ! کیا آپ ہمارے بھائی نہیں۔ فرمایا: میرے بھائی میرے بعد آئیں گے‘ تم تو میرے رفیق ہو۔ خواجہ حسن بصریؒ؟ امام مالکؒ؟ امام جعفر صادقؒ؟‘ امام شافعیؒ؟‘ امام ابو حنیفہؒ؟‘ امام احمد بن حنبلؒ؟ جنیدِ بغداد؟ؒ‘ شیخ ہجویرؒ؟‘ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ؟۔
دعا ایک پہر مانگی اور خطبہ ارشاد کیا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سات منٹ کا۔ وہی ابد الابد تک زندہ رہنے والے الفاظ:
جاہلیت کے سب زمانے میرے قدموں تلے پامال ہیں
عربی کو عجمی پر‘ عجمی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں‘ مگر تقویٰ سے۔
عرفات میں سامعین اٹھے تو واعظ چمکا۔ فرمایا: دوسرے مکاتب فکر میں ثواب کے امکان کو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارے گروہ کے حق میں پہاڑ ایسے دلائل ہیں۔
زائر نے اس روز کچھ زیادہ دیر دعا مانگنے کی کوشش کی۔ کھلا کہ یہ بہت مشکل ہے۔ دس بارہ منٹ کی تاب بھی آدمی آسانی سے نہیں لا سکتا‘ ایک پہر کیا۔ یہ سرکارؐ ہی کو زیبا تھا۔ عارف نے کہا تھا: دو چیزوں کا تعین آدمی شاید کبھی نہ کر سکے۔ نفسِ انسانی کے فریب کتنے ہیں اور مصطفیؐ کے مقامات کس قدر۔
علماء کرام کیا عظمتوں کے اسی پیکرؐ کے وارث ہیں؟ جی ہاں بالکل۔ مگر خال خال‘ النّادر کالمعدوم۔ اور وہ اپنے حال سے پہچانے جاتے ہیں‘ اپنے اخلاق سے‘ قال سے نہیں۔ وہ کہ جن کا کوئی دعویٰ نہیں ہوتا۔ برحق کہ داڑھی سنت ہے مگر کیا اہم اور افضل سنت ہے؟ رزقِ حلال؟ اخلاق؟ علم؟ ایثار؟ نرمی؟ رواداری؟ شفقت؟ انس و الفت؟۔ سب کچھ لٹا دیا‘ بس ایک حلیہ باقی ہے اور اس پر یہ طنطنہ؟۔ 
چار ہزار سنتیں ہیں سرکارؐ کی۔ مثلاً کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پورے پیکر سے‘ فقط رخِ انور نہیں۔ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ کبھی نہ لوٹاتے۔ راہ چلتے بھی بات سن لیتے۔ لباس اجلا مگر عام لوگوں جیسا‘ سب جانتے ہیں کہ اخلاق اس سے بھی اجلا بلکہ خیرہ کن۔ ان میں سے کوئی بات ہمیں یاد نہ رہی۔ اسلام کی آبرو‘ امت نے خود تباہ کی‘ علماء کی تکریم‘ خود علماء کے ہاتھوں برباد ہوئی۔ خود نمائی اور خود ستائی‘ کفر کے فتوے‘ دربار داری‘ کم علمی اور دریوزہ گری۔ انتہا یہ ہے کہ اقتدار کے لئے آخری درجے کی مصلحت کوشی۔ بعض تو دنیا داروں سے بھی بدتر۔
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
تمام بھارت اور پورے مغرب سے بھی اسلام کو اس قدر خطرہ نہیں‘ جو خود مسلمانوں کی بے علمی اور بے عملی سے۔ کم کوشی بلکہ جہل مرکب سے۔
لیجئے لبرل تو بیچ ہی میں رہ گئے‘آج کل ایک آگ اگلتی خاتون‘ جن کی قائد ہیں۔ مغرب اور مرعوبیت کے مارے‘ رزق اور شناخت کی تلاش میں بھٹکتے۔ چھوڑیے! ان اجنبیوں سے ہمیں کیا لینا۔ کل کے اشتراکیوں کی طرح یہ تحلیل ہو جانے والے ہیں۔ ہمیں ان سے واسطہ کیا‘ جو تجھؐ سے ناآشنا رہے ہیں۔
کمزوری اہل ایمان میں ہے کہ اہل ایمان ہی نہیں۔ یقین ہی وہ نم ہے‘ جس میں سرخروئی کی فصل اگتی ہے۔ علم و عمل کی ہم آہنگی اگر نہیں‘ تو کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved