تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-12-2017

جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اور چند سوالات

برادرِ بزرگ نے سوال کیا کہ پھر تم نے کیا بتایا؟ میں نے کہا: صبر کریں یہی تو بتانے جا رہا ہوں‘ لیکن پہلے کافی چلے گی‘ پھر آگے بتائوں گا۔ برادرِ بزرگ کو مزا آ رہا تھا لہٰذا انہوں نے فوراً ہی کافی کی ہامی بھر لی مگر صرف ہامی بھری‘ پلائی نہیں کہ کافی شاپ تھوڑی دور تھی‘ اور تجسس بلا کا تھا اور انتظار کا یارا نہ تھا‘ اُدھار پر کام چلایا گیا۔
برادرِ بزرگ کے پاس ایک لمبے سفر کے بعد پہنچا تھا۔ قرطبہ سے پیرس‘ وہاں سے یورو سٹار ٹرین کے ذریعے لندن۔ لندن چھوٹی بیٹی آ گئی۔ اس کے ساتھ ایک ہفتہ لندن‘ پھر دو دن برادرِ خورد گلاب خان کی میزبانی میں برمنگھم اور پھر وہاں سے مانچسٹر۔ مانچسٹر کے عین وسط میں ''پکاڈلی‘‘ میں پانچ دن ہوٹل میں۔ پھر بیٹی پاکستان روانہ ہو گئی اور میں امریکہ۔ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ نیویارک سے برادرِ عزیز عاطف علیم نے لیا‘ اور خالید منیر کے پاس فلاڈیلفیا چھوڑا۔ اگلے روز فلاڈیلفیا سے اٹلانٹا‘ جہاں برادرِ بزرگ نے ایئرپورٹ سے لیا اور اب پانچ دن ان کے ساتھ تھا۔ اب معاملہ یہ تھا کہ ہر دو گھنٹے بعد برادرِ بزرگ کا اصرار کہ کوئی سٹوری؟ کوئی خبر؟ میں بھی ڈھیٹ بنا رہا کہ اگر ابھی سے کوئی سٹوری سنا دی تو پھر اگلی سٹوری کا اصرار ہو گا اور میرے پاس ایک آدھ سٹوری بھی نہ تھی۔ اگلے پانچ دن یہی معاملہ چلنا تھا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔
ایئرپورٹ سے نکلتے ہی حسب معمول ''سمودی کنگ‘‘ پہنچے‘ وہاں سے بتیس آئونس کا میڈیم گلاس لیا جو کسی چھوٹے جگ سے کم نہیں تھا‘ اور کارلٹن کی طرف چل پڑے۔ اچانک سوال ہوا کہ تم جاوید ہاشمی سے کب ملے تھے؟ میں نے کہا: مہینے سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے پاکستان سے نکلے‘ ملتان سے نکلنے سے دو تین دن پہلے ملاقات ہوئی تھی اور کافی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ برادرِ بزرگ نے کہا: اس ملاقات کا حال سنائو۔ میں نے کہا: اس ملاقات کا بیان سٹوری تصور ہو گا اور اس کے بعد مزید کسی سٹوری کا تقاضا نہیں ہو گا کہ ہمارے درمیان فی ملاقات ایک سٹوری سنانا طے پایا ہے۔ پہلے ہی دن اگر میں آپ کا یہ کام کر دوں تو اگلے چار روز صرف آوارہ گردی ہو گی‘ کشمیری چائے اور بٹرپف چلیں گے‘ فریزر میں میرے لیے فریز کیا گیا سرسوں کا ساگ نکالا جائے گا اور پاناما سٹی چلیں گے۔ اس کے علاوہ اور کچھ یاد آیا تو وہ بھی چلے گا‘ مگر سٹوری کا مطالبہ بالکل نہیں ہو گا۔ برادرِ بزرگ نے بڑی نیم دلی کے ساتھ ہامی بھر لی لیکن مجھے پتا تھا کہ وہ اس پر کسی صورت قائم نہیں رہیں گے۔ بہرحال ملاقات کا احوال سنانا شروع کر دیا۔ درمیان میں سوالات بھی ہوئے جنہیں میں لکھتے ہوئے فی الوقت گولی کرا رہا ہوں:
ہاشمی صاحب نے الٹا مجھ پر سوال داغ دیا کہ میرا حلقہ این اے 149 کے بارے میں کیا خیال ہے۔ میں نے کہا: آپ اس حلقہ سے ہر حال میں الیکشن لڑیں گے۔ آپ نے اب حلقہ این اے 148 کا خیال چھوڑ دیا ہے۔ وہاں شاہ محمود قریشی اور سیّد یوسف رضا گیلانی کے بیٹے تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے علی الترتیب امیدوار ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے غفار ڈوگر ہو گا۔ آزاد امیدوار کی وہاں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی‘ لہٰذا آپ اس حلقے سے‘ جو آپ کا آبائی حلقہ ہے‘ امیدوار نہیں ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی بھی اپنے آبائی حلقے این اے 148 سے خود نہیں لڑیں گے بلکہ ان کا بیٹا زین قریشی امیدوار ہو گا لیکن اس کی جیت کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ اب رہ گیا حلقہ این اے 149 ملتان شہر تو یہاں سے پی ٹی آئی کا امیدوار ملک عامر ڈوگر ہو گا۔ یہ کافی مضبوط امیدوار ہے۔ ڈوگروں کے مجموعی طرزِ عمل کے باعث‘ اس کی شہرت کچھ خاص اچھی نہیں لیکن یہ مجموعی شہرت کی بات ہے۔ ویسے یہ خود بڑا ملنسار ہے اور حلقے میں لوگوں کی غمی‘ خوشی میں بڑی پابندی سے شرکت کرنے کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتا ہے۔ مسلسل حلقے میں موجود ہے اور اس حوالے سے لوگ اسے خاصا پسند کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے پاس فی الوقت کوئی ''تگڑا‘‘ امیدوار موجود نہیں۔ لے دے کے طارق رشید ہے اور اب نیا پنچھی‘ اپنے ملک رفیق رجوانہ‘ گورنر صاحب کا بیٹا آصف رجوانہ ہے۔ یہ امیدوار آج تک کونسلر کا الیکشن نہیں لڑا لیکن بہرحال ملک رفیق رجوانہ صاحب کے حوالے سے اسے متعارف ہونے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ یہ بھی کوئی اتنا مضبوط امیدوار نہیں کہ اسے ''وننگ کینڈیڈیٹ‘‘ قرار دیا جا سکے۔ ویسے بھی مجھے شروع دن سے گمان ہے کہ ملک رفیق رجوانہ نے اسے صوبائی ٹکٹ کے لیے‘ سودے بازی کی غرض سے‘ قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار بنا رکھا ہے۔ آخرکار اس نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنا ہے اور گلگشت کالونی اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل صوبائی حلقہ کافی پڑھا لکھا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے لیے نسبتاً آسان حلقہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت وہاں پی ٹی آئی کا ظہیر خان علی زئی جیتا ہوا ہے۔
اب لے دے کے مسلم لیگ (ن) کے پاس یہی چوائس بچتی ہے کہ وہ آپ کی سپورٹ کرے۔ کم از کم ویسے ہی جیسے اس نے ضمنی الیکشن میں آپ کی سپورٹ کی تھی‘ لیکن اس بار مسلم لیگیوں کی منافقت نہیں چلنی چاہیے‘ جیسی گزشتہ ضمنی الیکشن میں چلی تھی۔ طارق رشید اور خاص طور پر ملک وحید آرائیں وغیرہ کو صدق دل سے آپ کے ساتھ چلنا ہو گا مگر یہ مشکل نظر آتا ہے۔ ان تمام منفی باتوں کے باوجود‘ مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں اس حلقے میں‘ آپ سے بہتر امیدوار ملنا مشکل ہے۔ اب دو آپشنز ہیں؛ پہلی یہ کہ آپ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں اور دوسری یہ کہ آپ آزاد لیکشن لڑیں اور مسلم لیگ (ن) آپ کو سپورٹ کرے۔ پہلی آپشن کی ابھی کوئی فوری صورت نظر نہیں آ رہی کہ مسلم لیگ (ن) آپ کو کیسے شامل کرے؟ اور آپ بھی کیسے شامل ہوں؟
مجھے یاد ہے جب لاہور میں سعد رفیق کے ہاں بیگم کلثوم نواز نے آپ کو روکنے کی کوشش کی‘ اور آپ ملتان چلے آئے اور پھر ملتان میں جب پی ٹی آئی کے کراچی کے جلسے میں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تو منیر لنگاہ روتا ہوا آپ کی لینڈ کروزر کے بونٹ پر لیٹ گیا مگر آپ سب کو چھوڑ کر‘ کراچی چلے گئے۔ آگے ساری کہانی سب کو معلوم ہے۔ ابھی مقامی مسلم لیگی ورکرز آپ کے خلاف کافی بھرے بیٹھے ہیں۔ اگر آپ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تو حسبِ معمول سب ورکر ٹھیک ہو جائیں وگرنہ مشکل ہے۔ یہ تو تھا میرا تجزیہ۔ لیکن مشورہ یہ ہے کہ آپ الیکشن کی سیاست سے دستبردار ہو جائیں۔ مسلم لیگ (ن) وغیرہ کا خیال چھوڑ دیں۔ صوبہ جنوبی پنجاب کی مہم چلائیں۔ اس ایشو پر کوئی بڑا سیاستدان چاہیے‘ جو قیادت کرے اور وہ صرف آپ ہیں۔ آپ میری یہ بات قطعاً نہیں مانیں گے کہ آپ انتخابی سیاست کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے‘ حالانکہ نوابزادہ نصراللہ کی سیٹ بالکل خالی ہے۔
جاوید ہاشمی ہنسے اور کہنے لگے: تمہارا تجزیہ بالکل ٹھیک ہے اور مشورہ بالکل غلط۔ میں نے پوچھا: پھر کیا بنے گا؟ مسلم لیگ (ن) آپ کو ٹکٹ دے گی؟ جاوید ہاشمی نے کہا: پلیٹ میں رکھ کر دے گی۔ یہ بہت واضح پیغام تھا جو جاوید ہاشمی نے چلتے چلتے دیا۔ میں اب امریکہ میں ہوں اور وہاں سب کچھ ویسے ہی ہونے جا رہا ہے لیکن کس قیمت پر؟ کیا جاوید ہاشمی کو وہ عزت دوبارہ حاصل ہو سکے گی جو انہیں تحریک انصاف میں جانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) میں حاصل تھی؟ کیا منیر لنگاہ جیسے مخلص پارٹی ورکر ان سے ویسی محبت کر سکیں گے جیسی وہ ان کے کراچی جانے سے قبل کرتے تھے اور کیا میاں نواز شریف پر کبھی پھر برا وقت آیا تو وہ ملک سے جاتے ہوئے‘ انہیں دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام صدر بنا کر جائیں گے؟ اس کا جواب میرے خیال میں ''نہیں‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر میں صرف یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کہیں جاوید ہاشمی پھر ناراض نہ ہو جائیں۔
نوٹ! میں اس کالم کا اختتام نیو جرسی سرجری سینٹر میں بیٹھ کے کر رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد میری بائیں آنکھ کی سرجری ہے اور اگلے ہفتے دائیں آنکھ کی۔ ڈاکٹرز نے اس دوران اور اس کے ایک ہفتہ بعد لکھنے اور پڑھنے سے سختی سے منع کیا ہے؛ تاہم اگر ایک آنکھ سے کام چل سکا تو پھر اور بات ہے۔ اور ہاں! ایک آنکھ والا واقعہ اگلے کالم میں۔ انشاء اللہ

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved