تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-12-2017

سچ کی تلاش

افواہوں (Rumors)کی اس دنیا میں سچ کیسے تلاش کیا جائے ؟ایک شخص آپ کو بتاتا ہے کہ امریکی کبھی بھی چاند پر نہیں اترے تھے اور وہ سب تو محض ایک ڈرامہ تھا ۔ یہ صرف ایک مثال ہے ، نائن الیون سمیت ان گنت ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ پھر کیا کیا جائے؟ میں آپ کو آسان سا ایک طریقہ بتاتا ہوں ۔ ماہرین (experts and professionals)سے رابطہ کریں ۔جو واقعات حقیقت میں رونما ہوچکے ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں ، انہیں اپنے ذہن میں رکھیں ۔ آپ کا ذہن سچی تصویر بنا لے گا۔ دنیا کے ہر پیشے اور ہر شعبے میں ماہرین موجود ہیں ۔ وہ سب ایک دوسرے کی قدر و قیمت جانتے ہیں ۔ ان ماہرین کی ایک مجموعی رائے ہوتی ہے ۔ مثلاً صحافیوں کی ایک برادری ہے ۔ اس میں ہر شخص کو دوسرے کی اوقات اچھی طرح معلوم ہے ۔ کون کتنی بڑی خبر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔ کون حکومتی ٹائوٹ ہے اور کون آزاد۔پھر یہ کہ ایسے واقعات اور شواہد ہوتے ہیں ، جو کسی خبر کی تصدیق کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایسی ہر خبر یا تو مسترد ہو جاتی ہے یا پھر اسے سندِ اعتبارحاصل ہوجاتی ہے ۔
اسی طرح فوجیوں کی ایک برادری ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ کو ن کتنا بڑا جنر ل ہے ۔ کس نے کتنے بڑ ے معرکے فتح کیے ہیں اور کون محاذ سے بھاگ جاتا ہے۔ فرض کریں دو سو سال پہلے ایک جنرل آ کر کہتا کہ وہ روس کا ایک شہر فتح کر کے لوٹا ہے تو دوسرے جنرل اس سے سوال جواب کرتے ۔ وہ شہر میں کس طرف سے داخل ہوا ؟ اس کے پاس کتنے سپاہی تھے اور دشمن کی نفری کتنی تھی ؟ وہ ایک ایک سوال پوچھتے جاتے اور معاملے کی تہہ تک اتر جاتے ۔ معدنیات نکالنے والا ایک ماہر اگر یہ کہے کہ اپنے گھر کے صحن میں اس نے مٹی کھودی اور نیچے سے سونے کے ذخائر نکل آئے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ماہرینِ معدنیات آنکھیں بند کر کے مان لیں گے ؟ وہ کہیں گے ، سونے کا نمونہ پیش کرو۔ پھر لیبارٹری میں اس کی جانچ پرکھ ہوگی۔ پھر جہاں سے سونا نکلا ہے ، اس جگہ کا معائنہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ کا دعویٰ تسلیم یا مسترد کیا جائے گا۔ 
ہر افسر کی بھی ایک حیثیت ہوتی ہے ۔ یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ جاپان او رترکی والے آپ کے ایک افسر کو بلا کر اس سے اپنی پولیس کی تربیت کراتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ اس نے 1996ء میں کراچی جیسے بڑے شہر میں امن قائم کر کے دکھایا تھا۔ اسی طرح ایک برادری سائنسدانوں کی ہے ۔ اس میں ہر شخص دوسرے کو جانتا ہے کہ کون کتنا بڑا تیس مار خاں ہے لیکن یہاں صرف جان پہچان کام نہیں آتی۔ یہاں ثبوت دینا ہوتے ہیں ۔ آپ اگر کہیں گے کہ مٹی کو سلفیورک ایسڈ سے ملا کر آپ نے ایک نیا ایندھن ایجاد کر لیا ہے تو کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا۔ سوال جواب ہوں گے ۔ آپ عملی مظاہرہ کر کے دکھائیں گے۔ جو جو تعا مل اس دوران وقوع پذیر ہوں گے ، آپ ان کی تفصیلات تحریری طور پر دیں گے ۔ اس کے بعد سائنسی دنیا کے نامور ذہن اس سارے عمل کا مطالعہ کرنے کے بعداپنی مہر اس پر ثبت کریں گے ۔ پھر آپ کو پوری دنیا میں عزت ملے گی ۔ اگر آپ اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکے تو پھر آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ''انجینئر‘‘ آغا وقار کے ساتھ کیا تھا ۔ 
یہی معاملہ چاند پرانسانی قدم کا ہے ۔اگر تو چاند پہ اترنا اور واپس آنا ناممکن ہوتا تو بہت سے امریکی اور سوویت سائنسدان یہ بات ٹی وی اور اخبارات کو بتا دیتے کہ قیمتی وقت اور سرمایہ فضول ضائع کیا جا رہا ہے ۔ سوویت یونین اور امریکہ میں یہ جنگ اس وقت ختم ہوئی ، 1969ء میں جب امریکی خلاباز چاند پہ اتر گئے۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں ، امریکی وہاں نہیں اترے تھے بلکہ وہ ایک ڈراما تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک سپر پاور اگر دوسری سپر پاور کو پاگل بنانے کی کوشش کرے گی تو کیا وہ اس طرح کے بچگانہ نقائص(flaws)چھوڑے گی ، جس طرح کے آج ہم نیٹ پر سنتے ہیں ۔ ''اتنے ڈیسی بل شور میں وہ ایک دوسرے کی آوازیں کیسے سن رہے تھے ۔ ‘‘۔ ''چیزوں کے سائے بتا رہے تھے کہ روشنی کا ماخذ قریب ہے ‘‘وغیرہ وغیرہ۔ افواہیں پھیلانے والے دقیق سائنسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے ایک بار ایک شخص نے کہا کہ امریکی vinyle radiation layerسے کیسے گزرے تھے۔ میں وقتی طور چپ ہو گیا۔ پھر میں نے ہر کہیں اس اصطلاح کو ڈھونڈا۔ جب کہیں نہ مل سکی تو اس دوست سے پوچھا کہ آپ نےvinyle radiation layerکہاں سے پڑھی تھی ۔ اس نے کہا، نیٹ پر ہی کہیں پڑھا تھا ۔ سچ یہ تھا کہ اس نام کی کوئی اصطلاح سرے سے پائی ہی نہیں جاتی لیکن سننے والا سن کر ہی ایک دفعہ مرعوب ہو جاتا ہے ۔ 
پھر یہ کہ اگر ایک سپر پاور اتنے بڑے نقائص چھوڑ رہی تھی تو حریف سپر پاور کے لیے تو یہ ایک سنہری موقع تھا ۔ عالمی سطح پر امریکہ کو جھوٹا ثابت کیا جاتا اور پھر دل بھر کے اس کی لا متناہی تضحیک کی جاتی ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ سوویت یونین نے باضابطہ طور پر یہ موقف کبھی بھی اختیار نہیں کیا کہ امریکی چاند پر نہیں اترے۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ ایک سوویت سائنسدان امریکی سائنسدان کو یہ کہنے کے قابل نہیں تھا کہ تم چاند پر نہیں اترے، تم نے ایک ڈرامہ کیا ہے ۔ اسے معلوم تھا کہ امریکی جیت چکے ہیں ۔ سوویت سائنسدان کیا، سائنسی برادری کے بڑے ذہنوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی ۔ ان میں سے ایک دو دیوانوں (Fanatics)کے علاوہ یہ بات کسی نے نہیں کی۔ ایسے fanaticہر کہیں پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں فلمسٹار ''میرا‘‘ کی خصوصیات کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ 
سوویت یونین کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ دنیا بھر میں امریکیوں سے نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے ۔ بہت سے لوگوں کو تکنیکی باریکیوں کا علم نہیں تھا۔ سوویت یونین والوں نے عام ذہنوں کو متاثر کرنے والے دلائل تیار کیے ۔ اتنے ڈیسی بل شور میں آواز کیسے سنائی دی ؟ سائے کا زاویہ ایسا کیوں تھا اور ویسا کیوں نہیں تھا۔ پھر یہ افواہیں انٹر نیٹ پر پھیلا دی گئیں ۔ میں آپ کو حقیقت بتائوں تو فلکیاتی سطح پرجو ڈیٹا زمین تک پہنچتا ہے ، وہ عجیب ہوتا ہے ۔ آپ ناسا کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھیں ۔ زحل کے چاند ٹائٹن سے لی جانے والی جن تصویروں کو وہ High Definition کہتے ہیں ، اس سے اچھی تصویر دو ہزار روپے والا موبائل لے لیتا ہے ۔ 
افواہیں پھیلانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ simpsonکارٹون میں 1980ء کی دہائی میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ ایک روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جہاز ٹکرائیں گے ۔ جس تاریخ ساز ذہن نے افواہ ایجاد کی، اسے اس کے سوا کچھ بھی نہیں کرنا تھا کہ پرانے کارٹون میں نئی آواز بھر دی ۔ بہت ساری ویب سائٹیں ایسی ہیں ، جن میں انہی افواہوں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ ٹریفک پیدا کر کے اللہ کی مخلوق اپنی اپنی روزی روٹی کمارہی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved