جو پانی موجودہ حکمرانوں نے اسی سال ایجاد کیا ہے‘ اس سے میں کافی بڑا ہوں۔برصغیر میں تو میرے آبائو اجداد صدیوں پہلے پانی سے لطف اندوز ہونا شروع ہو چکے تھے۔ پھر ہم نے پاکستان بنا لیا۔جدید بھارت کے ابتدائی حکمرانوں کو پانی کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارت ایک عمر رسیدہ ہے‘ اسے پانی کی اہمیت کا بعد میں اندازہ ہوا۔ورنہ جواہر لعل نہرو‘ لال بہادر شاستری‘ اندرا گاندھی اور پتہ نہیں بھارت کے کتنے وزرائے اعظم گزرے ہوں گے؟ ان بے وقوفوں کو پانی کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔بھارت دریائوں کا پانی ہماری طرف چھوڑتا گیا اور دریا بھی‘ بل کھاتے اور مست خرامی کرتے ہوئے سمندر میں جا گرتے۔ نر یند ر مودی کوپردھان منتری کا حلف اٹھاتے ہی خیال آیا کہ ہم تو ہزاروں سال سے‘ دریائوں کا پانی سمندر کی نذر کرتے رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتے ہی یا شاید بیٹھنے سے پہلے‘ مودی کو اچانک سمجھ آئی کہ ہم‘پاکستان کو 2 دریا دے بیٹھے ہیں اور پاکستان اکیلا ہی پانی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔دو چار سال کی حکومت کرنے کے بعد‘ مودی صاحب نے سوچا کہ میرے سینئرز نے خواہ مخواہ ایٹم بم اور دوسرے ہتھیار بنانے پر‘ اربوں روپے خرچ کئے۔اب ہم لعن طعن کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کو اپنا ملک بنانے کی سزا دینے کے لئے‘ ایٹم بموں کی کیا ضرورت تھی؟
دراصل وہ بے خیالی میں ہی رہے۔ ہمیں ''نااہل‘‘ وزیراعظم دیر سے نصیب ہوئے۔ پھر ہمارے'' قیمتی ‘‘وزیراعظم بر سر اقتدار آئے۔ وہ خوشی میں اتنا سرشار تھے کہ مودی کی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت کے لئے نئی دہلی جا دھمکے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وعدے وعید ہوئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھائیں گے۔ آج یا کل انہیںیاد آیا کہ پاکستان میں میرے دوست کو خواہ مخواہ پریشان کیا جار ہا ہے؟ کیوں نہ اپنے لنگوٹئے دوست سے مددلی جائے۔یہ خیال آتے ہی انہوں نے کل بیان جڑ دیا کہ ابھی تو کشمیر کے دو دریا‘ ہم سے آنکھ بچا کر پاکستان میں گھس رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے خلاف جوآبی پالیسی تیا رکی تھی‘ اس کے تحت کشمیر کے سارے دریائوں کا پانی بھارت کے اندر ہی استعمال کرنا چاہئے تھا۔ پنجاب کے تین دریا ستلج‘ راوی اور بیاس‘ پاکستان کے لئے مخصوص کر دئیے گئے ۔ البتہ جہلم اور چناب پر خاص توجہ دی۔ دریائوں کے پانی صدیوں سے ایک ہی راستے پر چلتے آرہے ہیں۔ ہم انہیں چھیڑتے بھی ہیں تو یہ جھپٹنے کو پڑتے ہیں۔
انگریز کے زمانے میں بحری نظام تیار کیا گیاتو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اپنے اپنے حصے کی زمین لے کر‘ دریائوں سے شمشیر زنی کرنے لگیں۔ ہم اپنا کوئی دریا اٹھا کر بھارتیوں کی کمر پر
دے مارتے اور وہ جواب میں‘ اپنا کوئی دریائی دنبہ چپکے سے ہم پر چھوڑ دیتے۔ہم نے آزادی تو اپنی خوش حالی اور بھائی چارہ‘ برقرار رکھنے کے لئے حاصل کی تھی مگر کام اس سے الٹ ہو گیا۔پاکستان بنانے والے ہمارے قائدین‘ اپنی قوم کے لئے ایک چھوٹا سا ملک حاصل کرنا چاہتے تھے۔ تقسیم کے وقت ہندو قیادت نے‘ ہماری کمر پر مشرقی پاکستان بھی رکھ دیا۔ظاہر ہے پاکستان حاصل کرنے والے رہنمائوں نے‘ مشرقی یا مغربی پاکستان میں ہزار میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود سوچا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے۔لیکن پاکستان کے بانیوں کو یہ خبر نہیں تھی کہ ہم ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے ‘ مشرقی پاکستانیوں کے ''دال بھات ‘‘پر ہاتھ مارنے لگیں گے۔ آزادی حاصل کرتے وقت‘ مشرقی پاکستانیوں کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان خوراک کا بھنڈار ہے۔ہم یہاں سے مچھلیوں کے جہاز بھر کے مغربی پاکستان لے جائیں گے اور وہاں سے دال چاول لے آئیں گے۔افسوس کہ بھائی چارے کا یہ جذبہ ''مرغو مرغی‘‘ ہو گیا۔ میں بنگلہ دیش کے آخری دورے کے دوران‘ جس ہوٹل کے شاندار ہال سے ایک تقریب میں آخری بار‘ شرکت کر کے واپس آیا‘ کوئی چوتھائی صدی کے بعد‘ میں نے ٹی وی پرنریندر مودی کو‘ بنگلہ دیش کے اسی ہوٹل کی ایک تقریب میںبنگلہ دیشی مسلمانوں پر احسان جتاتے دیکھا۔جو کچھ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا‘ ہم اسی کے حقدار تھے۔وہ تو جو گزری‘ سو گزری۔ اب کیسا سکون ہے؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو دعوت دی کہ'' آئو ہم دونوں‘ شہر میں جا کر گندا پانی پئیں‘‘۔