تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-12-2017

خواتین کی شاعری

ناصرہ زبیری
دو مجموعے زیرِ نظر ہیں ''شگون‘‘ اور ''کانچ کا چراغ‘‘۔ ''شگون‘‘ ماورا نے چھاپی اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ پسِ سرورق درج احمد فراز کی رائے ہے کہ ناصرہ زیدی کے کلام کا غالب حصہ ایسا ہے جس نے مجھے چونکا دیا۔ میرے خیال میں ناصرہ ایک ایسی شاعرہ ہیں جن کے فن میں نہ صرف سوچ کی تازگی بلکہ اظہار کی پختگی بھی پائی جاتی ہے۔ نئے لکھنے والوں کو اتنا پختہ کہنے کا ملکہ حاصل نہیں ہوتا جتنا ان کے ہاں ملتا ہے۔ ناصرہ کی شاعری میں بہت جان ہے اور وہ بہت سے نئے لکھنے والوں سے بہتر ہیں بلکہ کئی پرانے لکھنے والوں کو بھی کہیں کہیں پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ ان کے مقام کا تعین تو زمانہ کرے گا لیکن میں سمجھتا ہوںکہ ان کے فن میں زندہ رہنے والی بات ہے۔
''کانچ کا چراغ‘‘ بھی ماورا ہی نے چھاپی اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ انتساب شہاب کے نام ہے۔ اس میں صرف غزلیں ہیں۔ رائے دینے والوں میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی‘ شہزاد احمد‘ حسن نثار‘ عطاء الحق قاسمی‘ مظہر الاسلام اور خاکسار شامل ہیں۔ ناصرہ زبیری کا فن اب اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ اسے کسی تحسین و تعریف کی ضرورت ہی نہیںہے۔ قارئین کو صرف یہ اطلاع دینا ہوتی ہے کہ اس کی فلاں کتاب چھپ کر شائع ہو گئی ہے‘ اور بس۔ چنانچہ یہ کام میں نے کر دیا ہے جو کافی سے زیادہ ہے!
وصف وفا
''سراب چہرے‘‘ اس کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے جسے ترتیب پبلشرز‘ فیصل آباد نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے مقرر کی ہے۔ انتساب شخصی کم اور نعتیہ زیادہ ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ سرِورق لکھنے والوں میں اُستاد ریاض مجید اور امجد اسلام امجد ہیں۔ ریاض مجید کے مطابق ''سراب چہرے‘‘ کے مطالعے سے قبل ہی قاری وفا کے منفرد رنگِ کلام سے مانوس ہو جاتا ہے۔ اُمید ہے تارکینِ وطن کی نسائی شاعری کے حوالے سے والہانہ انداز میں اس مجموعے کا خیرمقدم کیا جائے گا جبکہ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ ادا جعفری‘ زہرہ نگاہ‘ کشور ناہید‘ فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر سے ہوتی ہوئی جدید اُردو شاعری کی روایت اب ایک ایسے دور میں داخل ہو گئی ہے جہاں خواتین شعراء میں نئے سے نئے نام‘ پے بہ پے سامنے آ رہے ہیں جو یقیناً ایک خوش آئند صورتحال ہے اور اس مرد بنیاد معاشرے میں ایک خاتون ہوتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اس میدان میں قدم رکھا ہے بلکہ ایک روشن مستقبل کا اشارہ بھی دیا ہے۔ اب اس کی غزلوں میں سے چند منتخب اشعار :
تمہارے وصل کی خواہش میں ہم نے
تمہارے ہجر کو رستا کیا ہے
بکنا نہیں ہے جب کسی قیمت پہ بھی مجھے
پھرتے ہیں آگے پیچھے خریدار کس لیے
............
اس زمیں پر زندہ رہنے کے لیے
آسماں سر پر اُٹھا لائی ہوں میں
تمہیں اک کھیل ہو گی یہ محبت
ہماری ذمہ داری ہو گئی ہے
............
بشریٰ سعید
''باتیں‘‘ بشریٰ سعید کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ اس پر رائے دینے والوں میں ڈاکٹر وحید احمد‘ جمیل الرحمن‘ ڈاکٹر احسان اکبر اور محمود اظہر شامل ہیں۔ آزاد کے ساتھ ساتھ اس میں نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔ انتساب اپنے سائبان سعید اور آنگن کے پھولوں کے نام ہے۔ اس کی ایک نظم :
خدا کو مشورے مت دو
خدا کو مشورے مت دو؍ وہ خاموشی‘ سرگوشی اور چیخ کی تاثیر لہو میں دیکھتا ہے؍ بیداری ہمارا راز؍ اور سونا سدا کی مجبوری ہے؍ ہوا‘ مٹی اور کفن؍ زندگی کے سارے رنگ پھیکے ہیں؍ چادر اوڑھ کر بھی؍ بصارت بے لباس ہو جاتی ہے؍ سورج کے پہرے؍ رات کے ایوانوں پر نہیں لگتے؍ میرے وجود میں؍ انکار کا زخم ہرا رہتا ہے؍ خدا کو مشورے مت دو۔
روبینہ راجپوت
''ہجرتوں کے موسم میں‘‘ اس کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے جسے پذیرائی پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 325 روپے رکھی ہے۔ انتساب ارفع‘ بختاور اور علی کے نام ہے۔ دیباچے اعتبار ساجد‘ ساجد رضوی نے لکھے ہیں جبکہ ''گفتنی نا گفتنی‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعرہ کا بقلم خود ہے۔ اس کی غزلوں میں سے کچھ اشعار دیکھیے :
جب مسلسل ہے زندگی کا سفر
تذکرہ چھیڑتے ہو کیوں گھر کا
............
ایک دُنیا لٹا چکی ہوں‘ مگر
ایک دُنیا بسا رہی ہوں میں
یہ کہانی بھی خوب ہے رُوبیؔ
لکھ رہی ہوں مٹا رہی ہوں میں
طاہرہ مسعود
''بادِ صبا‘‘ کے نام سے غزلوںاور نظموں کا یہ مجموعہ انہماک انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ تحسینی رائے دینے والوں میں اقتدار جاوید‘ نسیم سیّد‘ سیّد تحسین گیلانی اور سیّدہ آیت شامل ہیں۔ ان کے علاوہ عرفان شہود‘ مبارک صدیقی اور عمران حیدر حُر بھی۔ انتساب نسیم سیّد کے قلم سے ہے۔ اس کی غزلوں میں سے چند اشعار دیکھیے :
گو میں قائل نہ کر سکی اس کو
پھر بھی وہ لاجواب سا کچھ ہے
............
مجھ کو ماضی کے جھروکوں سے نکالو نہ ابھی
لڑکھڑانے دو ذرا دیر‘ سنبھالو نہ ابھی
............
وہ ہمیں جو بہت ہی پیارے تھے
ہم نے سمجھا کہ وہ ہمارے تھے
فائدہ تھا الگ الگ اپنا
ایک جیسے مگر خسارے تھے
آج کا مقطع
میں کھا رہا ہوں کسی اور کا جو رِزق‘ ظفرؔ
دِیا ہی کیوں تھا مجھے یہ اگر نہیں میرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved