تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     08-12-2017

پاک فوج کی سِمت، میاں جی کی جِہت

لیفٹیننٹ ارسلان شہید کے گھر جب میں گیا تھا تو ان کے والد گرامی شمشیر ستی کو انتہائی حوصلے میں پایا مگر ایک باپ کہ جس کی تین بیٹیوں میں اکلوتا بیٹا ارسلان تھا اس کی جدائی خاموش طبع شمشیر کو اندر ہی اندر ایسا گھائل کر گئی کہ دو ماہ بعد دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے بیٹے ارسلان کے ساتھ جا ملے۔ کیپٹن حسنین نواز شہید کے والد محمد نواز سے ٹیلی فون پر بات ہوئی وہ کہہ رہے تھے، حمزہ بھائی! دفاعِ وطن کی خاطر شہادت کے اعزاز کے بعد ہمیں کسی اعزاز کی نہ ضرورت ہے اور نہ خواہش، مگر سیاسی حکمرانوں کا کردار یہ ہے کہ میاں شہباز شریف جب ننکانہ میں میرے گھر آئے تھے تو ہمارے گھر کے قریب پلاٹ میں چھوٹا سا یادگاری عجائب گھر بنانے کا اعلان ہوا تھا۔ ریلوے روڈ اور ایم سی ہائی سکول کو حسنین شہید کے نام سے موسوم کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ میرے بیٹے کے لئے میاں صاحب نے کچھ مراعات کا اعلان کیا تھا، یہ سب اعلانات ہی ثابت ہوئے، عمل کی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ میں نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا تو سوائے ٹال مٹول اور مایوسی کے کچھ نہ ملا... جی ہاں! جب ملک کی خاطر جانیں دینے والوں کے وارثوں کے ساتھ بھی سیاسی حکمرانوں کا رویہ روایتی سیاست کے سوا کچھ نہیں تو ان کے باقی اعلانات اور وعدوں کا کیا ہو گا۔ ذرا ان کی تفصیل بیان ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کئی کتابیں مرتب ہو جائیں کہ اعلانات انتہائی خوش کن تھے مگر عمل کی دنیا میں سوائے زیرو کے زمین پر کچھ بھی نہ تھا۔
لاہور سے میجر اسحاق شہید اور اسلام آباد سے کیپٹن جنید حفیظ شہید بھی راہِ شہادت کے راہی بن گئے۔ سوچتا ہوں نوجوان بیوہ جب اپنے شوہر کی یادگار سوا سالہ بچی کو دیکھتی ہے تو شوہر تو یاد آتا ہے۔ پہاڑ جیسی باقی زندگی کو سر کرنے کا جب خیال آتا ہے اور شوہر کے بغیر جب تصور دماغ میں آتا ہے تو کرب کی شدت کو جوان بیوہ ہی جانتی ہے، جس پر گزر رہی ہوتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب بھی شہید اسحاق کی بچی کی جانب پیار سے بازو پھیلائے اخبارات میں نظر آئے، ان کی ذمہ داری ہے وہ ہر شہید کے گھر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاک فوج ایک خاندان ہے، اس کا سربراہ آرمی چیف ہے۔ یہ خاندان پاکستان کی حفاظت کے لئے جانیں پیش کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دس ہزار ارسلان، حسنین، جنید اور اسحاق قربان کر چکا ہے۔ ایک سمت ہے جس کی جانب یہ خاندان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میں اس خاندان کو پاکستان کے اداروں میں سے ایک اہم ادارہ نہیں بلکہ ریاست قرار دیتا ہوں۔ اگر یہ قابل فخر ریاست اپنی سمت کی جانب گامزن نہ رہ سکتی تو میرا پاکستان آج عراق، شام، لیبیا، یمن اور افغانستان ہوتا اور اسحاق شہید کی بیوہ جیسی بیوائیں لاکھوں میں ہوتیں۔ پاک فوج کے ریاستی خاندان نے اپنی فیملی کی چند سو بیوائوں کے بدلے پاکستان کو بننے والی لاکھوں بیوائوں سے بچا لیا ہے۔ یوں میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر شہید کی بیوہ اور ماں کس قدر عظیم ہے کہ فرض کی ادائیگی کی سمت میں وہ گامزن ہے اور پاکستانی قوم کی بیٹیاں سکون سے گھروں میں عزت سے بیٹھی ہیں۔ ارسلان اور جنید حفیظ جیسے اکلوتے بھائیوں کی بہنوں اور شہداء کی بیوائو... تمہیں مبارک ہو تم بڑی عظیم ہو، تمہاری عظمت کو سلام۔
انگریز کے دور میں ''رائل انڈین ایئرفورس‘‘ کے ایک مسلمان اہلکار محترم محمد صدیق صاحب جو 92سال کی عمر میں آج بھی زندہ ہیں‘ بتلاتے ہیں کہ تقسیم کے وقت ہندوستان کے تمام فوجیوں کو ایک فارم دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی فوج کا حصہ بنیں گے یا ہندوستان کی فوج کا؟ گورداسپور، جالندھر اور امرتسر مسلم اکثریت کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بن رہے تھے۔ مائونٹ بیٹن نے ظلم یہ کیا کہ ان علاقوں کو ہندوستان میں شامل کر دیا۔ مسلمانوں کا یہ دشمن تھا اس نے دو سو سکھوں کو جیلوں سے رہا کر کے مشرقی پنجاب بھیجا تاکہ مسلمانوں کی قتل و غارت کریں۔ اسی طرح مسلمان فوجیوں کو انڈونیشیا اور ملائشیا میں زبردستی بھیج دیا تاکہ وہ مسلمان مرد اور خواتین کا دفاع نہ کر سکیں، یوں لاکھوں مسلمان شہید ہو گئے، عورتوں کی عزتیں لٹ گئیں، ہزارہا بیوہ ہو گئیں۔ قارئین کرام! ایسے ماحول میں مسلمانوں کی عزتوں کو بچایا تو پاک فوج کے حصے میں آئی بلوچ رجمنٹ اور پنجاب رجمنٹ نے بچایا۔ الغرض! پاک فوج کی اول دن سے یہی سمت ہے اور وہ اپنی اسی سمت کی جانب رواں دواں ہے۔
چھوٹے میاں جی خادم اعلیٰ پنجاب کی خدمت کی جِہت ہم نے ملاحظہ کر لی، اب بڑے میاں جی جناب میاں نوازشریف صاحب کی جِہت بھی ملاحظہ ہو۔ جب سے میاں جی کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا ہے تب سے وہ پاکستان مخالف جِہت میں چلتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔ آئے دن ان کا قدم اس جانب بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب ان سے تفتیش کے لئے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تو وہ ڈھاکہ کی باتیں کرتے ہوئے یہ تاثر دینے لگے کہ اگر مجھے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو ملک کے ساتھ ڈھاکہ جیسا سانحہ ہو سکتا ہے۔ جب وہ نااہل قرار پا کر وزارت عظمیٰ سے معزول ہوئے تو اب کہتے پھر رہے ہیں ''ایک وزیراعظم کو فارغ کر دیا گیا، ملک ایسے ہی فیصلوں سے برباد ہوتے ہیں، ایسے ہی فیصلے انتشار اور افراتفری پیدا کرتے ہیں، ایسے فیصلوں سے منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔‘‘ قارئین کرام! ایسے بیانات میاں جی کس جلسے میں، کہاں اور کس کی صدارت و نگرانی میں ارشاد فرما رہے ہیں، یہ ملاحظہ فرمائیں گے تو ''نظریہ نوازشریف‘‘ سمجھنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔ جی ہاں! میاں حضور نے ارشاد فرمایا اور خوب فرمایا، کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کی قوم پرست جماعت کے جلسہ میں ارشاد فرمایا۔ عبدالغفار خان المعروف سرحدی گاندھی کے نظریاتی اور سیاسی دوست عبدالصمد اچکزئی کی برسی پر ہونے والے جلسہ میں خطاب فرمایا۔ عبدالصمد کے بیٹے اور نظریاتی وارث محمود خان کی صدارت و نگرانی میں ارشاد فرمایا۔ آج کل میاں صاحب اپنے ایسے ما فی الضمیر کے اظہار کے لئے ان لوگوں کا پلیٹ فارم استعمال فرما رہے ہیں جو پاکستان کے مخالف لوگ تھے۔ قائداعظم کو ستانے والے لوگ تھے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا کردار وہ شخص ادا کر رہا ہے جو قائداعظم اور لیاقت علی خان کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ اپنے آپ کو قائداعظم ثانی بھی کہلواتا ہے۔ افسوس پاکستان کی تاریخ میں یہ دن بھی آنے تھے کہ نام نہاد قائداعظم ثانی نے یہاں تک فرمانا تھا ''محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے، پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ (ن) نظریاتی رشتے میں منسلک ہیں۔ نظریہ مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے جس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ میری سیاست اسی نظریے پر ہے۔‘‘
افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ جی حضوری پر مشتمل تقلیدی اور مفاداتی سیاست نے معاشرے کا ایسا برا حال کر دیا ہے کہ میاں جی کے مندرجہ بالا بیان پر کسی سچے مسلم لیگی نے واویلا نہیں کیا، گریبان چاک نہیں کیا، ماتم نہیں کیا کہ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے والا کیا ظلم ڈھا گیا ہے؟
اس بات کو تو سب جانتے ہیں کہ ختم نبوت کا طے شدہ مسئلہ ''نظریہ نوازشریف‘‘ نے کھڑا کیا۔ پھر دھرنے والے لاہور سے نکلے تو چھوٹے میاں جی نے جانے دیا۔ منصوبہ طے پا چکا تھا کہ فوج کے ذریعہ آپریشن کیا جائے گا۔ بندے مریں گے تو ختم نبوت کا مسئلہ ہمارے سر سے اتر جائے گا اور فوج کے سر پڑ جائے گا۔ چنانچہ جان بوجھ کر پولیس کو ناکام کیا گیا اور پھر فوج کو بلایا گیا... فوج میاں جی کی سیاست سمجھ چکی تھی وہ درمیان میں آئی اور خوش اسلوبی سے مسئلہ حل کر دیا۔ اب میاں جی اور ان کے جی حضوریے فوج کو مطعون کرتے پھرتے ہیں کہ معاہدے میں ان کا نام کیوں آیا؟ تمہاری سیاسی چالوں میں وہ یہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے۔ مظاہرین تمہارے پیدا کئے ہوئے مسئلے کی وجہ سے یہاں تھے، وہ پاکستانی تھے۔ ان میں غریب لوگ بھی تھے ان کو پیسے دے کر حسن سلوک نہ کرتے تو اور کیا کرتے۔ کیا تمہاری خواہش کو پورا کرتے۔ گولیاں مارتے لال مسجد جیسا اک اور سانحہ ہوتا۔ ملک میں خارجیت کا اک نیا فیز چلتا، انڈیا کو اپنا لُچ تلنے کا اک مزید موقع ملتا کہ پہلے والے خارجیوں سے ابھی پوری طرح نبٹا نہیں جا سکا۔ میں کہتا ہوں پاک فوج نے ختم نبوت کے مظاہرین سے حسن سلوک کیا اور ملک کو انتشار سے بچایا۔ ختم نبوت کا پرچم بلند ہوا، اس پر قوم اپنی پاک فوج کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتی ہے۔ ریاست کے قومی ادارے نے ریاست کو مستقبل کے فساد سے بچا لیا ہے۔ پاک فوج میں اسلام اور وطن کی وہ بیٹیاں جن کے آنچلوں کو شوہروں اور بھائیوں کے آسروں سے بے آسرا ہونا تھا وہ آنچل اور دوپٹے بچ گئے ہیں۔ ایسے کردار پر مبارکباد، مبارکباد۔ پیغام یہ ہے کہ پاکستان دشمنوں کے کندھے سے کندھا ملا کر ڈھاکے کا طعنہ دو گے۔ ملک کی بربادی کی بات کرو گے تو نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے سچے جانباز محافظ ایسا نہ ہونے دیں گے۔ قوم اپنے ایسے دانشور محافظوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved