تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-12-2017

شمالی کوریا پہلے یا پاکستان؟

نیویارک کے پیلس ہوٹل کے ایک بڑے کمرے میں‘ جاپان، بھارت اور امریکہ کے وزرائے خارجہ شمالی کوریا کے بین البراعظمی نیوکلیئر میزائلوں کے آئے روز ہونے والے تجربوں پر غور اور اس کا کوئی سدباب کرنے کے لئے آپس میں سر جوڑے بیٹھے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کے درمیان‘ ایک دوسرے کے بارے میں ٹویٹر پر دئیے جانے والے توہین آمیز ریمارکس اور دھمکیوں نے گو کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو بے حد اہمیت دے دی ہے اور اسی عالمی الرٹ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے یہ تینوں ممالک اپنا لائحہ عمل بنانے میں مصروف تھے۔ جاپان، بھارت اور امریکہ پر مشتمل ان تین ممالک کے اس خفیہ اجلاس کے متعلق میڈیا کو جیسے ہی سن گن ملی تو سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہنوں میں آیا وہ یہ تھا کہ جاپان اور امریکہ کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارت جیسا ملک ان دونوں کے بیچ کہاں سے آ گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طرح امریکہ دنیا بھر کو بھارت کے بارے میں یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ 2018ء سے امریکہ اور بھارت‘ ہٹلر اور جاپان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلیں گے؟ پیلس ہوٹل میں ہونے والے اس اجلاس کے بعد بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کو‘ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ ملوث کر دیا گیا۔ جس پر نیو یارک میں موجود میڈیا کے نمائندے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس قدر لغو، بے بنیاد اور سفارتی لحاظ سے انتہائی گھٹیا ترین پروپیگنڈا بھارت کی مکار ذہنیت کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں۔ سشما سوراج کے الفاظ تھے: North Korean Proliferation may be linked with Pakistan ان آٹھ الفاظ پر غور کیجئے کہ بھارت پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام اور تنہا کرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کر سکتا ہے اور جھوٹ کی نچلی سے نچلی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ کلبھوشن یادیو کا نام زبان پر لانا گناہ سمجھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر سے سربراہان مملکت اپنے وزرائے خارجہ اور ان کی ٹیموں کے ساتھ نیو یارک پہنچے ہوئے تھے، بہت سے ممالک ایسے تھے جنہوں نے اس اجلاس کی نسبت سے کئی کئی ماہ قبل اپنے بین الاقوامی ٹارگٹس سے متعلق ایجنڈوں پر ہوم ورک مکمل کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان میں سے بہت ہی کم سربراہوں نے جنرل اسمبلی کے ہر سیشن میں شرکت کی۔ اگر آج بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مختلف سربراہان کی تقریروں کی ویڈیوز سامنے رکھی جائیں تو آپ کو ہال آدھے سے زیادہ خالی نظر آئے گا۔ بھارتی وزیراعظم اور بھارت کی وزارت خارجہ کے ذمہ داران جانتے تھے کہ نیویارک میں امریکیوں سے شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات پر بات ہو گی اور جاپان چونکہ شمالی کوریا سے ملحق ہے‘ اس لئے امریکہ کو اپنے اس حلیف دوست کی سلامتی سب سے زیادہ عزیز ہے اور جاپان کی چین سے مخاصمت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چونکہ جاپان کا شمار اس وقت دنیا کے دس بڑے ممالک میں کیا جاتا ہے اس لئے بھارت جاپان کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ چین یا شمالی کوریا کی جانب سے مستقبل میں کسی بھی خطرے کی صورت میں بھارت جاپان کا سب سے بڑا دوست ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ سی پیک کی وجہ سے‘ امریکہ کے کہنے پر بھی‘ پاکستان کبھی بھی چین کے حلیف شمالی کوریا کے مقابل نہیں آ سکے گا۔ جاپانیوں اور امریکیوں کی زندگیاں محفوظ رکھنے کے لئے بھارت ہی ایسا ملک ہے جو شمالی کوریا کا راستہ روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔
بھارتی پروپیگنڈے کے باعث دنیا بھر میں پاکستان اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے مابین روابط تلاش کیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ شمالی کوریا آج سے نہیں بلکہ کوریا کی جنگ سے ہی امریکی غیظ و غضب کا شکار چلا آ رہا ہے اورچین چونکہ شروع سے ہی شمالی کوریا کا اتحادی شمار کیا جاتا ہے، اس لئے اس وقت سے ہی شمالی کوریا کے سپریم لیڈر Kim Il-Sung نے چین کے صدر مائوزے تنگ سے دو مرتبہ درخواست کی کہ چینی حکومت شمالی کوریا کو چند ایٹمی ہتھیار فراہم کر دے لیکن مائوزے تنگ نے شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی ہتھیار شیئر کرنے سے انکار کر دیا اس انکار کے بعد شمالی کوریا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بقا کے لئے نیوکلیئر طاقت بنے گا اور پھر جیسے ہی کورین جنگ اختتام کو پہنچی‘ شمالی کوریا نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر نیوکلیئر پروگرام پر کام شروع کر دیا۔ شمالی کوریا 1970 کے اوائل میں مغرب کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکا تھا کہ وہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے جبکہ70 کی دہائی کے آخر تک‘ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اپنے ابتدائی مراحل میں بھی نہیں پہنچا تھا۔ امریکہ اور مغرب اس قدر بے خبر ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ روس نے تو 1964ء میں ہی شمالی کوریا کو ایٹمی ری ایکٹر لگانے میں مدد دی تھی۔ روس کا نام لیتے ہوئے بھارت کی ٹانگیں کیوں کانپنے لگتی ہیں؟ شاید بھارت اس لئے روس کا نام لیتے ہوئے گھبراتا ہے کہ جب روسی ماہرین شمالی کوریا میں ایٹمی ری ایکٹر لگا رہے تھے تب روس اور بھارت آپس میں شیر و شکر تھے۔
1970-80 کے دوران شمالی کوریا چند یورپی ممالک سے انتہائی حساس قسم کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا کیونکہ اس وقت تک ایٹمی کلیات اور اس سے متعلقہ معلومات تک رسائی پر سنگین قسم کے پہرے یا پابندیاں عائد نہیں ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ 70 کے آخر تک شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لئے پلوٹینیم سے متعلق ٹیکنالوجی حاصل کرتے ہوئے نیو کلیئر سفر میں بہت آگے کی جانب قدم بڑھا چکا تھا۔ دنیا بھر کا میڈیا، امریکی اور یورپی سفارت کار، جاپان اور مشرق بعید سمیت دنیا کا ہر ملک اگر بھارت کے پاکستان کے بارے میں پھیلائے جانے والے اس جھوٹ کو سچ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتا ہے تو تو وہ تحقیق کر سکتا ہے کہ پاکستان کس طرح شمالی کوریا کو ایٹمی قوت بننے میں مدد دے سکتا تھا کہ شمالی کوریا کی ایٹمی ٹیکنالوجی EXTRACTION OF PLUTONIUMپر منحصر ہے جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ٹیکنالوجی کی بنیاد Uranium Centrifugation Process ہے۔
سشما سوراج اس وقت بھارت کی وہ آکاش وانی بن چکی ہیں جس کے جھوٹ اور فریب کے سامنے‘ ہٹلر کا جوزف گوئبلز بھی بغلیں جھانکنے لگ جاتا ہو گا لیکن کیا سشما سوراج نے یہ فقرہ کہیں بھی نہیں سن رکھا کہ ''جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے‘‘ اور کیا سشما سوراج یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ دنیا صرف ان کے جھوٹ سننے کے انتظار میں ہی بیٹھی ہے؟ نیو یارک کے پیلس ہوٹل میں بیٹھ کر سشما سوراج نے مشترکہ اعلامیہ تو یہ کہتے ہوئے جاری کروا دیا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے لئے پاکستان نے حساس معلومات یا پرزے فراہم کئے ہیں لیکن کیا دنیا بھر کا آزاد میڈیا، انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ بھارتی حکومت یا ان کی وزارت خارجہ سے یہ پوچھیں گے کہ 1964ء میں روس نے کس ملک کو ایٹمی ری ایکٹر فراہم کیا تھا؟ پاکستان تو 1974ء میں بھی فرانس سے ایٹمی ری ایکٹر کے لئے ترلے منتیں کر رہا تھا اور اس معاہدے کو امریکہ نے فرانس پر دبائو ڈالتے ہوئے 1976ء میں منسوخ کرا دیا تھا۔ جب سے مودی سرکار نے بھارت کا کنٹرول سنبھالا ہے‘ اس کی صبح و شام اسی سوچ میں مستغرق گزر رہی ہے کہ کسی طرح دنیا بھر میں ہونے والے ہر غلط کام کا الزام پاکستان کے سر دھر دیا جائے۔ سشما سوراج جی! یہ جمہوری اور مہذب ملکوں کے طور طریقے نہیں ہوا کرتے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved