تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-12-2017

سب کا بھلا…اپنی خیر نہیں!

ایک زمانے سے یہ شعر زباں زدِ عام ہے ؎
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
یہ شعر سید طاہر علی رضوی کا ہے اور اصل میں یوں ہے ؎
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
بہر کیف، معاملہ یہ ہے کہ عوامی زبان میں کہیے تو پھنستا وہی ہے جو خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر آپ نے کسی غلطی کی نشاندہی کی تو کہا جائے گا اب آپ ہی درستی بھی فرمائیے۔ عوامی زبان میں کہیں تو جو بولے وہی کنڈی کھولے۔
امیرؔ مینائی نے کہا تھا ؎
خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
جس کے دل میں سارے جہاں کا درد ہو اُسے بھلا چَین اور سکون کیونکر میسر ہو؟ جو سب کا بھلا چاہتے ہیں‘ اُنہیں سُکون اور ٹھہراؤ کے ساتھ زندگی بسر کرنا نصیب نہیں ہوتا۔
ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ہماری بات شاید آپ کے حلق سے نہیں اُتر رہی۔ چلیے! آپ کی تسلی کے لیے ہم تمام تسلیم شدہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے کی جانے والی جدید ترین تحقیق پیش کرتے ہیں۔ معروف امریکی جریدے ''سائنٹیفک امریکن‘‘ میں جیک ٹربن نے نفسیات کے ماہرین کی تازہ تحقیق کی روشنی میں لکھا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو معاشی معاملات سے متعلق میلانات کے حوالے سے بنیادی طور پر تین درجوں میں رکھا جاسکتا ہے۔
پہلا درجہ اُن لوگوں کا ہے جو دوسروں کی پریشانی دیکھ کر بے تاب ہو جاتے ہیں اور ہمہ وقت اِس خیال کے حامل ہوتے ہیں کہ معاشی معاملات میں مساوات کو بنیادی اصول کے طور پر اپنایا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 60 فیصد تک ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پنپنے اور بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع سب کو میسر ہونے چاہئیں۔
دوسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جن کی بصارت اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات پر ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ صرف اپنی ترقی اور خوش حالی چاہتے ہیں۔ اِنہیں اصلاً اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ دوسروں کو کیا مل رہا ہے، اُن کی زندگی کس طور گزر رہی ہے۔ اُنہیں صحت مند مسابقت بھی پسند نہیں ہوتی یعنی اُن کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور سب کچھ اُنہی کو ملتا رہے اور دوسروں کو کچھ بھی نہ ملے۔ عالمی آبادی میں ایسے یعنی خود پسند و خود غرض لوگ کم و بیش 30 فیصد ہیں۔
تیسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جو معاشی معاملات میں صحت مند مسابقت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کا بھلا تو نہیں چاہتے مگر خیر‘ مسابقت کی صورت میں کوئی اچھی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائے تو اُسے قبول کرنے میں یہ کوئی قباحت یا ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔ عالمی آبادی میں ایسے لوگ کم و بیش 10 فیصد ہیں۔
اب آئیے! اِس تحقیق کے تشویش ناک پہلو کی طرف۔ 2010ء میں معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ماساہیکو ہارونو نے اِسی نوعیت کی تحقیق کی روشنی میں بتایا تھا کہ دنیا بھر میں واضح اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی ضرورت سے زائد دولت یا وسائل پاکر‘ جب دوسروں کو محرومی کی حالت میں دیکھتے ہیں تو اُن میں شدید احساسِ جرم پروان چڑھتا ہے جو غیر معمولی ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ یعنی یہ کہ نیک طینت افراد صرف اپنا بھلا نہیں چاہتے بلکہ سب کو اچھی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کی طینت کی یہی خوبی اُنہیں الجھا دیتی ہیی اور وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں! ڈاکٹر ماساہیکو ہارونو اور ان کے ساتھیوں نے نئے سِرے سے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ دوسروں کی پریشانی اور محرومی دیکھ کر احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبنے والوں کو باضابطہ علاج کی ضرورت ہے تاکہ نارمل اور دباؤ سے آزاد زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ڈاکٹر ماریسیو ڈیلگاڈو نے بھی اِس مشورے کو صائب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوسروں کا بھلا چاہنے والے ہمہ وقت شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور اِس بھی بڑھ کر یہ کہ زیادہ دولت مل جانے کی صورت میں پنپنے والا احساسِ جرم اُنہیں خوش و خرم زندگی کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔
یہ ہے قدرت کی طرف سے اُن تمام لوگوں کی آزمائش جو اپنے سے بڑھ کر دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں۔ جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے‘ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، پریشان تو وہی ہوگا جو دوسروں کا بھی بھلا سوچے گا۔ محض اپنا بھلا سوچنے والوں کے لیے کیسی پریشانی، کہاں کی الجھن؟
کائنات کے خالق کی منشا بھی یہی ہے کہ ہم محض اپنی ذات میں گم ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ تمام متعلقین اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر تمام انسانوں کا بھلا سوچیں۔ اِس دُنیا کی انگوٹھی کے لیے وہی شخص موزوں ترین نگینہ ہے جو ساری دنیا کی بھلائی چاہتا ہے۔ مولائے کریم کی نظر میں وہی قابلِ احترام ہے جو محض اپنی ذات تک محدود ہو کر نہیں سوچتا۔ صرف اپنے لیے سوچنا آسان ترین آپشن ہے۔ اِس میں خیر و برکت کا پہلو یا تو بالکل نہیں یا پھر بہت ہی کم ہے۔ ہم اپنے رب کے حضور اُسی وقت سُرخرو ہو سکتے ہیں جب اپنی ذات کی حدود سے نکل کر تمام اہلِ خانہ، خاندان، معاشرے اور عالمِ انسانیت کی بھلائی کا سوچیں، دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش ثابت ہونے کی راہ پر گامزن ہوں۔
پریشانی اُسی کے حصے میں آتی ہے جسے اپنے ساتھ ساتھ اوروں کی بھی فکر ہو۔ کسی کی پریشانی اور محرومی دیکھ کر اپنے دکھ بھول جانا انسان کے پاک طینت ہونے کی ایک بڑی علامت ہے۔ کچھ شک نہیں کہ ایسے لوگ ترقی کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹ محسوس کرتے ہیں مگر خیر‘ یہ بھی شرف کی بات ہے، شرمسار ہونے کا مقام نہیں۔
نفسیات کے ماہرین کی نظر میں دوسروں کا بھلا چاہنے کا میلان مرض کی سی حیثیت رکھتا ہے کہ اِس سے ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین ایک خاص سیاق و سباق میں درست ہی کہہ رہے ہوں گے مگر یہ مرض بھی غنیمت ہے کہ دل کو توانا تو رکھتا ہے۔ اہمیت اِس بات کی ہے کہ آپ کی نظر اپنے تک محدود نہ ہو، دوسروں تک بھی جائے اور اُن کے لیے بھی فکر و احساس کا پیدا ہونا طبیعت کا تقاضا ٹھہرے۔ ؎
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اِس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
زندگی خاصے پُرسکون انداز سے بسر کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ ہر طرف سے بے نیاز ہوکر‘ اپنی ذات میں گم ہوجائیے۔ پھر کون سی پریشانی، کون سا دردِ سَر؟ مگر اس طور جینے میں انسانیت کہاں؟ وہی انسان حقیقی معنوں میں انسان ہے جو کسی کے گلے پر چلتے ہوئے خنجر کو اپنے گلے پر چلتا ہوا محسوس کرے، تڑپ اٹھے اور مدد کے لیے آگے بڑھے۔ دوسروں کا بھلا چاہنے والوں کے لیے ایک دردِ سَر یقیناً مستقل نوع کا ہے... یہ کہ بے چارے اپنی خیر مناتے رہتے ہیں۔ مگر خیر‘ اِس کی جزا اللہ کریم کے حضور پیش ہونے تک مؤخر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved