تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-12-2017

سُرخیاں‘ متن اور مزید خواتین کی شاعری

ہر کوئی نوازشریف نہیں ہو سکتا : مریم نواز
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اور مرکزی مجلس عاملہ کی رُکن مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہر کوئی نوازشریف نہیں ہو سکتا‘‘ اور ہر کوئی خدا کا شکر ادا کرے کہ وہ نوازشریف نہیں ہے کیونکہ نوازشریف کی جو حالت ہو چکی ہے‘ وہ کسی دُشمن کی بھی نہ ہو کہ ہمیشہ کے لیے نااہل ہونے کے علاوہ دونوں بیٹے اشتہاری قرار پا چکے ہیں۔ خُون پسینے سے کمائی ہوئی دولت سے خریدے ہوئے اثاثے اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہیں اور جاتی امرا کا وسیع و عریض محل بھی ایک عزیز کے نام لگوانا پڑ گیا ہے‘ اگرچہ خدشہ موجود ہے کہ وہ کسی وقت بھی مُکر سکتا ہے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ ایمانداری کا تو زمانہ ہی نہیں رہا اور ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف اس عہد کے آخری ایماندار آدمی تھے‘ اُوپر سے ریفرنسز کا نتیجہ مُنہ پھاڑے کھڑا ہے اور کوئی عجب نہیں کہ بقایا عمر سرکاری مہمان خانے ہی میں گزر جائے‘ اس لیے نوازشریف نہ ہو سکنے والے انتہائی خوش قسمت ہیں۔ آپ اگلے روز حسب معمول ٹویٹ پر ایک پیغام جاری کر رہی تھیں۔
نجفی رپورٹ میں کسی کو واقعہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا : رانا ثناء اللہ 
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''نجفی رپورٹ میں کسی کو واقعہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا‘‘ اور یہی کہا گیا ہے کہ اِس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا اندازہ ہر کوئی خود لگا سکتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ خود نجفی صاحب نے بھی اندازہ ہی لگایا تھا کہ آئی جی اور ڈی سی او کے تبادلے کا بھی کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہو گا۔ نیز فائرنگ کرنے اور کروانے والوں کے سلسلے میں بھی موصوف اندازے ہی لگاتے رہے‘ اور وقوعہ سے پہلے میری صدارت میں جو ہدایات دی گئی تھیں وہ بھی فائرنگ کے متعلق نہیں تھیں‘ اور یہ بھی کہ رکاوٹیں ہٹانا صرف ایک بہانہ تھا حالانکہ حکومت کو بہانے بنانے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ جو اور جس وقت چاہے‘ سب کچھ کر سکتی ہے اور اس نے کر کے دکھا بھی دیا جبکہ وزیراعلیٰ کو تو اس کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا سنگین واقعہ بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی کو لاشوں پر سیاست نہیں کرنے دیں گے‘‘ کیونکہ لاشیں اس لیے نہیں گرائی گئی تھیں کہ مخالفین ان پر سیاست شروع کر دیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آصف علی زرداری کوجمہوریت کی گاڑی میں بیٹھنا ہو گا : حمزہ شہباز
رُکن قومی اسمبلی‘ مجلس عاملہ کے رُکن اور وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''آصف علی زرداری ہماری گاڑی میں بیٹھیں نہ بیٹھیں‘ انہیں جمہوریت کی گاڑی میں بیٹھنا ہو گا‘ اور چونکہ ہماری گاڑی ہی جمہوریت کی گاڑی ہے اس لیے وہ اتنے کاکے نہیں ہیں کہ اس گاڑی میں بیٹھ جائیں‘ تاہم کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آدمی کی مت کسی وقت بھی ماری جا سکتی ہے جبکہ ہماری مت تو پہلے ہی قریب المرگ تھی‘ اب نجفی رپورٹ اور حدیبیہ پیپر ملز کیس کھُلنے سے مکمل طور پر انتقال کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ'' اپوزیشن جماعتیں مزاحمت کی سیاست چھوڑ کر الیکشن کی تیاری کریں‘‘ اگرچہ ہمیں اس کا بھی انتظار نہیں ہے کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہو گی کہ بقول شاعر ؎ 
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی 
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
آپ اگلے دن باجی فرخندہ اور شبیر بھولا کے گھر گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب دو مزید خواتین کی شاعری :
میرے لیے کہو تم
شیریں گل رانا کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جسے پہچان پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر شہناز مزمل کے قلم سے ہے جس میں وہ لکھتی ہیں کہ شیریں گل کا رنگ تغزل خود ساختہ ہے جو انشاء اللہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا اور ہر صاحب نظر سے تجسس حاصل کرے گا۔ دیباچہ زاہد شمسی نے لکھا ہے جن کے مطابق شیریں گل رانا کے کلام میں جذبات اور کیفیات کی سچی روشنی دکھائی دیتی ہے جو دل کی دیواروں کے باہر پھیلے ہوئے اندھیروں کو اُجالوں میں بدل دیتی ہے۔ ''پہلی بات‘‘ میں شاعرہ بتاتی ہیں کہ کینیڈین بینڈ سوارس نے میری کتاب سے منتخب کلام گایا ہے جن میں سے دو کو کینیڈین ہیرٹیج کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نمونہ کلام اس طرح سے ہے :
اجنبیت نہ درمیاں ہوتی
چند جملے اگر کہے ہوتے
.........
تمہاری یاد جو سینے میں ہو گئی خاموش
مرے لبوں پہ تمہارا سوال ہی نہ رہا
تم نے گزارا جیون‘ ہم نے گزارا خود کو
تم نے پُکارا اُس کو‘ ہم نے پُکارا خود کو
چُپ لب اور سُلگتی آنکھیں
غزلوں اور نظموں کا حامل یہ کونپل حنیف کا مجموعہ کلام ہے جسے دُعا پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 350 روپے رکھی گئی ہے۔ ''تعاون‘‘ کے عنوان سے چند سطور شاعرہ کے والد حنیف فضل نے لکھی ہیں جس میں ان کے بقول اس شاعری میں کسی بشری ہجر و وصال اور بے وفائی کا کوئی تعلق نہیں‘ اُنہوں نے روح اور جسم کے رشتے اور زندگی کے سفر کو دُنیاوی لفظوں میں ڈھال کر بیان کیا ہے جبکہ مختصر دیباچہ جمیل فیروز کے قلم سے ہے۔ غزلوں میں قافیہ ردیف کا تو پُورا خیال رکھا گیا ہے لیکن وزن سے بے نیاز ہیں‘ گویا خلا میں تخلیق کی گئی ہوں‘ تاہم شاعرہ کے جذبہ و شوق کی داد دینی چاہیے۔ نمونۂ کلام :
تیری محبت انمول ہے
جسے کوئی نام دے نہیں سکتی
.........
زندگی گزر چلی
اپنے حصے کا درد سہتے سہتے
آج کا مطلع
قریب و دُور برابر دکھائی دینے لگا
جو تھا نہیں وہی منظر دکھائی دینے لگا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved